8 شعبان
جنگ نمارق
ﷲ تعالیٰ کی مداولۂ ایام کی سنت جاری تھی، اسلام قبول کرنے کے بعد عرب نئے جذبے کے ساتھ ابھر رہے تھے تو ایرانی ا ندر سے کمزور پڑ رہے تھے ۔ شیرویہ بن خسرو پرویز (قباذ دوم628ء )نے تخت شاہی پر بیٹھتے ہی اپنے باپ خسروپرویز(خسرو دوم509 تا 628ء) اور سترہ بھائیوں کو قتل کرادیا تھا اور پھر خود اسے بھی زہر دے کر ماردیا گیا ، اس طرح چار برس کے اندر نو بادشاہ بدلے گئے۔ جب ایرانی بادشاہ گروں نے اردشیر(628ء تا 629ء ) کے بیٹے شہر یران (629ء)کو متفقہ طور پر بادشاہ بنایاتو اسے بھی جنگ بابل میں ایسی شکست ہوئ}}{{ی کہ اس صدمے سے چڑھنے والے بخار نے اس کی جان لے لی۔ پھراس کا بیٹا سابور (629ء)راج گدی پر بیٹھا تو وہ بھی محلاتی سازشوں کا شکار ہوا، اسے اس کی بہن آزر می دخت نے قتل کیا۔
خلیفۂ ثانی نے ابو عبید ثقفی کو عراق جانے والے لشکر کی قیادت سونپ کر مثنیٰ بن حارثہ کو اکیلے حیرہ کی طرف روانہ کر دیا تھا۔جب وہ حیرہ پہنچے توکسریٰ (خسرو) کی بیٹی بوران(629ء تا 631ء) تخت نشین ہو چکی تھی ،ایرانی جرنیل رستم نے آزر می دخت کی فوج کو شکست دے کر اس کا راستہ صاف کیا تھا، اس لیے بوران نے اس کو وزیر اعظم اور ایرانی افواج کا سپہ سالار مقرر کیا۔مثنیٰ ایران میں ہونے والی اتھل پتھل سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، لیکن وہ اکیلے کچھ نہ کر سکتے تھے۔ادھرابو عبید کو اپنا لشکر تیار کرتے کرتے ایک ماہ لگ گیا، مدینہ سے چلا ہواان کاچار ہزار کا جیش راستے میں شامل ہونے والے دستوں کو ملا کر دس ہزار ہو چکا تھا۔ ان کے عراق پہنچنے پر مثنیٰ خبان جا چکے تھے،انھیں رستم کی فوجی تیاریوں کا علم ہوا تو انھوں نے محفوظ مقام پر جانا بہتر سمجھا ۔ رستم نے مسلمان فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دو لشکرتیار کیے تھے،ایک جابان کی قیادت میں حیرہ کو چلا تو دوسرا نرسی کی سالاری میں دجلہ و فرات کے بیچ واقع کسکر کو روانہ ہوا۔نمارق کے مقام پر ابو عبید ثقفی کی سپاہ اور جابان کی فوج میں سخت جنگ ہوئی جس میں جا بان کو شکست ہوئی، وہ اوراس کا کمانڈر مردان شاہ قید ہوئے۔ بوران کو معلوم ہوا تو اس نے جالینوس کی سر کردگی میں نرسی کے لشکر کو کمک بھیج دی۔ابو عبید نے جالینوس سے زیادہ تیز رفتاری اختیار کی اور سقاطیہ کے مقام پر نرسی کے لشکر کوجا لیا۔ لڑائی نے طول پکڑا تو قلب کے کمانڈر مثنیٰ بن حارثہ اپنے دستے کو جدا کر کے چار کوس کا چکر کاٹ کرایرانی لشکر پر عقب سے حملہ آور ہوئے۔اب نرسی نے ثابت قدمی نہ دکھائی، اس کی فوج تتر بتر ہو گئی اوراس نے بہت سا مال غنیمت چھوڑ کر راہ فرار پکڑی۔شکست کی خبر سن کر جالینوس کی فوج نے بارسما(باقشیا) کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا، ابو عبید نے پیش قدمی کر کے اس پر حملہ کیا اور اسے بھی ہزیمت سے دو چار کیا۔ابو عبید اور مثنیٰ کی فوجی کارروائیوں سے ایرانی حکومت کی مدد کرنے والے زمین دار (دہقان) گھبرا گئے اور انھوں نے اسلامی فوج سے صلح کر لی۔ جنگ سقاطیہ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت میں سے خمس عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا،خود فوجیوں کو نرسیان نامی کھجور سے بڑھ کر کوئی شے پسند نہ آئی۔ سپہ سالار رستم اسلامی افواج کی کامیابی سے بہت جزبز ہوا ، اس نے اہل دربار کی رائے لی کہ کون سا جرنیل عربوں کا سخت مقابلہ کر کے اپنی شکستوں کا بدلہ لے سکتا ہے؟جواب ملا: بہمن جاذویہ۔ چنانچہ رستم نے تین ہزار سپاہ،تین سو ہاتھی اور کثیر سامان جنگ دے کر بہمن جاذویہ کو روانہ کیا۔جالینوس پھر ساتھ تھا، آگے چیتے کی کھال کا بنا ہوا خسروی پرچم درفش کاویانی پھڑپھڑ ا رہا تھا۔یہ لشکر دریاے فرات کے کنارے واقع قس ناطف پر مقیم ہوا۔ابو عبید بن مسعود نے دوسرے کنارے پر مروحہ کے مقام پرڈیرا ڈالا۔چند روز کی خاموشی کے بعد باہمی رضامندی سے دریا پر پل تعمیر کیا گیا۔بہمن نے ابو عبید سے دریافت کیا کہ تم دریا عبور کرو گے یا ہم ادھرآئیں؟ ان کے ساتھیوں نے ایرانیوں کو دریا کے اس پار بلانے کا مشورہ دیا، لیکن ابو عبید نے اسے عزت کا مسئلہ سمجھا،ان کے نزدیک خود پیش قدمی نہ کرنا کم ہمتی تھی۔وہ حضرت عمر کی نصیحت بھول گئے کہتم مکر و خیانت والی سرزمین کی طرف جا رہے ہو۔اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے مشورہ کیے بغیر کوئی قدم نہ اٹھانااور سلیط بن قیس رضی اﷲ عنہ کی اس دہائی کو نظر انداز کر دیا کہ ایرانی کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئے ہیں،ان سے دریا کے اس پار مقابلہ کرنا مناسب ہے ۔ ایرانی لشکر اور دریا کے بیچ چھوٹا سا میدان مسلمان فوج سے کھچا کھچ بھر گیا ،یہاں محدود نقل وحرکت ہی ممکن تھی۔جب ہاتھیوں پر سوار اگلے ایرانی دستو ں نے تیر اندازی شروع کی تو مسلمانوں کے گھوڑے بدک گئے۔ابو عبید نے پیادہ حملہ کرنے کا حکم دیا، اب ہاتھی پیدل فوج کو کچلنے لگے،مسلمان سپاہیوں نے کئی ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹیں اور ان کے سواروں کو گرا کر مارا، لیکن تا بہ کے؟خود ابو عبید پر ایک زخمی سفید ہاتھی چڑھ دوڑا اور ان کی پسلیاں توڑ ڈالیں،ان کی شہادت کے بعد ان کے مقرر ہ بنو ثقیف کے چھ آدمیوں نے کمان سنبھالی اور باری باری جام شہادت نوش کیا۔آٹھویں علم بردار مثنیٰ بن حارثہ ہوئے ،تب تک اسلامی لشکر مائل بہ فرار ہو چکا تھا۔عبداﷲ بن مرثد نے دریا کاپل توڑ ڈالا ،اب لوگ دریا میں گرنے لگے۔مثنیٰ فارسی فوج کے سامنے ڈٹ گئے اور پل دوبارہ تیار کرنے کا حکم دیا۔انھوں نے بچے کھچے فوجیوں کو دریا پار کرنے کا موقع دیا اور خود آخر میں لوٹے۔9 ہزار مسلمانوں میں سے 6 ہزار شہید ہو گئے جن میں سلیط بن قیس،عتبہ،عبداﷲ اور ابو امیہ فزاری جیسے صحابہ شامل تھے۔اسلامی فوج نے شکست تو کھائی، ایرانیوں کا بھی کم نقصان نہ ہوا۔ان کے بھی 6 ہزار جنگجو کھیت رہے اور اتنی ہمت نہ رہی کہ فرار ہوتی ہوئی فوج کا تعاقب کرتے ۔ صرف جابان اور مردان شاہ کچھ فوج لے کر مثنیٰ کے پیچھے الّیس تک آئے۔یہ پکڑے گئے اوران سب کی گردنیں اڑا دی گئیں۔یہ الم ناک معرکہ جسے جنگ جسر(پل والی جنگ) کا نام دیا گیا، شعبان 13ھ میں پیش آیا۔سب سے پہلے عبداﷲ بن زید مدینہ پہنچے، پھر کچھ اور لوگ گردنیں جھکائے شرمساری سے لوٹے، لیکن زیادہ تر شرمندگی کے مارے مدینہ کے نواحی دیہاتوں میں ٹک گئے۔جنگ میں شامل بنو نجار کے قاری معاذ جب 'ومن یولہم یومئذ دبرہ الا متحر فالقتال او متحیزا الی فءۃ فقد باء بغضب من اﷲ و مأواہ جہنم و بئس المصیر' اور جو اس (جنگ کے ) دن ان (کافروں) کو پیٹھ دکھائے گا بغیر اس کے کہ جنگ ہی کے لیے داؤ چل رہا ہو یا کسی (فوجی) گروہ سے ملنا چاہتا ہو ،واقعتاًوہ اﷲ کے غضب کا شکار ہو گا ،جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ (انفال8 :16) والی آیت تلاوت کرتے تو رونا شروع کر دیتے۔عمر بن خطاب ان کو تسلی دیتے ، معاذ، نہ روؤ،میں تمھاری فوج ہوں اور تو میری پناہ میں آیا ، میں ہر مسلما ن کی فوج ہوں۔حضرت عمر کا عمل نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قول کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے جو آپ نے غزوۂ موتہ سے بچ کر بھاگ آنے والوں کے بارے میں فرمایا۔ آپ کا ارشاد تھا:وہ فرار اختیار کرنے والے نہیں، بلکہ اﷲ نے چاہا تو پلٹ کر حملہ کرنے والے ہوں گے۔ اب حضرت عمر فاروق نے اہل فارس کا مقابلہ کرنے کے لیے خاص اہتمام کیا اور مثنیٰ کی مدد کے لیے تازہ دم فوج تیار کی۔ سب رضا کار شام جانا چاہتے تھے ،حضرت عمر نے خمس کا ایک چوتھائی دینے کا وعدہ کر کے بنو بجیلہ کو عراق جانے پر راضی کیا۔جنگ جسر سے بچ کر آنے والے بھی ساتھ ہو لیے پھر بنوازد ، بنو کنانہ اور دوسرے کئی قبائل نے شمولیت اختیار کی۔ خود مثنیٰ نے عراق سے نئی بھرتیاں کیں،بنو نمر و تغلب کے نصاریٰ اور عراق میں مقیم عرب ایرانیوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ ادھر ایران میں اقتدار رستم اور فیرزان میں بٹ چکا تھا، ان دونوں نے عرب میں پروردہ مہران ہمدانی کی قیادت میں 12 ہزار کا لشکر تیار کر کے روانہ کیا، ہاتھی پھر مقدمۂ جیش میں تھے۔مثنی نے جریربجلی کو جلد پہنچنے کا پیغام بھیجا اور فرات کے کنارے مقام بویب پر چھاؤنی ڈال دی۔دریا پھر دو فوجوں میں حائل تھا،اب کے بار مہران نے مثنیٰ کو دریا کے اس پار آنے کی دعوت دی تو انھوں نے ایرانی لشکر کو دریا عبور کرنے کو کہا۔ایرانیوں نے بویب پہنچ کر اپنی فوج تین صفوں میں ترتیب دی ،ہر صف میں ہاتھی شامل تھے۔مثنیٰ نے اپنے شموس نامی گھوڑے پر سوار ہو کر لشکر کا چکر لگایا ، سپاہیوں کو جوش دلایا اورفرض روزہ کھولنے کا مشورہ دیا۔ابھی انھوں نے حملہ شروع کرنے کے لیے نعرۂ تکبیر بلند کیا تھا کہ ایرانی لشکر مسلمان فوج پر ٹوٹ پڑا۔مسلمان فوج میں شامل بنوعجل کا دستہ اکھڑنے لگا تھا کہ مثنی ٰ نے انھیں عار دلائی ، مسلمانوں کو رسوا نہ کرنا۔پھر وہ گھمسان کے رن میں صفیں چیرتے ہوئے ایرانی سپہ سالار مہران کے سر پر پہنچ گئے ،اس پر ایساشدید حملہ کیا کہ وہ اپنی پوزیشن چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ایرانی اپنے کمانڈر ان چیف کو بچانے کے لیے پلٹے تھے کہ مسلمان فوج اس زور سے حملہ آور ہوئی کہ انھیں دریا کی طرف دھکیل دیا۔ جنگ کا پانسا پلٹا توایرانی بھاگنے کے لیے دریا کے پل کو مڑے،اسی اثنا میں مثنیٰ کے دستوں نے پل توڑ کر انھیں پیچھے سے گھیر لیا۔وہ مسلمان فوج میں بری طرح گھر گئے ،ایک ایک مسلمان نے دس دس ایرانی مارے، اس لیے جنگ بویب کو دسیوں والی جنگ (یوم الاعشار) بھی کہا جاتا ہے۔ایک تغلبی عیسائی نے مہران کو قتل کیا۔اگلے روز بھی ایرانیوں کا قتل جاری رہا،ان کے مقتولوں کی تعداد 1یک لاکھ شمار کی گئی۔ایرانیوں کی لاشیں وہیں پڑی رہیں ،کوئی انھیں اٹھانے والا نہ تھا۔ایک طویل مدت کے بعد جب کوفہ کی تعمیر ہوئی تو ان کی بچی کھچی ہڈیوں پر مٹی ڈالی گئی۔مسلمان شہدا کی گنتی صرف ایک سو تھی۔اسلامی فوج نے زندہ بھاگنے والوں کا ساباط تک تعاقب کیا۔یوم بویب رمضان13ھ میں پیش آیا۔اس کے بعد مثنیٰ نے خنافس اور انبار کو فتح کیا،دجلہ پہنچ کر انھوں نے بغداد اور تکریت کو زیر کیا تو عراق کی فتح مکمل ہو گئی۔ اہل فارس کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا، دار الخلافہ مدائن ان کے پاس تھا ۔ فیرزان اور رستم نے آپس کی لڑائی کو موقوف کیا اورنام کی ملکہ بوران بنت خسرو پرویز (629ء تا 631ء)کو مشورہ دیا کہ شاہی خاندان کے تمام افراد جمع کر کے کسی مرد کو اقتدار سونپا جائے۔اس کے بھائی اور پیش رو شیرویہ بن خسرو پرویز (قباذ دوم628ء) نے اپنے باپ خسرو پرویز(خسرودوم590 ء تا 628ء ) اور بھائیوں کو قتل کرایا اور خود بھی ہلاک ہو گیا تو شاہی خاندان کا صرف ایک بچہ، دونوں کا بھتیجا یزدگرد بن شہر یار بن خسرو پرویز بچا،جسے اس کی ماں نے مامووں کے پاس بھیج دیا۔ اس کی عمر 21 سال ہو چکی تھی ، اسے بلا کر دادا کا تخت سونپا گیا اور تمام اعیان سلطنت اس کے معاون بن گئے۔ اقتدار کی کش مکش ختم ہوئی تو ایرانی مسلمانوں سے انتقام لینے کی تیاریاں کرنے لگے۔ مثنیٰ بن حارثہ کو معلوم ہوا تو انھوں نے خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب کو لکھ بھیجا کہ ایرانیوں کا جوابی حملہ ہوا تو آس پاس کے زمین دار اور نصاریٰ پھر ان سے جا ملیں گے۔ خط حضرت عمر تک پہنچانہ تھا کہ انھیں اپنا لشکر لے کر ذی قار جانا پڑا، وہ وہاں پہنچ کرخلیفہ کی مدد کا انتظار کرنے لگے۔عمر رضی اﷲ عنہ حج کو روانہ ہو رہے تھے ، انھوں نے خط پڑھ کر کہا :بخدا، میں ایرانی شہنشاہوں کا عرب بادشاہو ں کے ذریعے سے قلع قمع کر دوں گا،پھر مثنیٰ کوپیغام بھیجا کہ ربیعہ و مضر کے سرحدی قبائل کو طلب کر کے اپنی جمعیت مضبوط کرواور خود بھی سرحدوں کے پاس محفوظ علاقے میں آجاؤ۔جب وہ حج سے لوٹے تو مدینہ عراق جانے کے لیے تیار افراد سے بھر چکا تھا، چار ہزار کے اس لشکر کے مقدمہ پر انھوں نے طلحہ کو، میمنہ پر زبیر بن عوام کو اور میسرہ پر عبد الرحمان بن عوف کو مقرر کیا اور خود کمانڈر ان چیف کی جگہ سنبھالی۔حضرت علی کو اپنا قائم مقام بنا کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ لشکر چشمۂ صرار پہنچا ،اہل لشکر بضد تھے کہ حضرت عمر ہی قیادت کر تے ہوئے ایران جائیں ۔ اسی اثنا میں حضرت عثمان بن عفان آئے اور مشورہ دیا:امیرالمومنین کا خود ایران کوچ کرنا مناسب نہیں، عبد الرحمان بن عوف نے ان کی تائید کی۔ دیگر اکابر صحابہ سے مشورہ کیا گیا تو یہی فیصلہ ہوا کہ حضرت عمر مدینہ میں مقیم رہیں۔ لشکر کی سر براہی کے مشورے جاری تھے کہ نجد سے سعد بن ابی وقاص کا خط موصول ہوا جس میں ایک ہزار سواروں کا دستہ تیار کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ سب پکار اٹھے ،امارت جیش کے لیے حضرت سعد ہی موزوں ہیں۔ وہ صرارپہنچے تولشکر روانہ ہوا۔حضرت عمر نے حضرت سعد کو نصیحت کی کہ تمھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ماموں ہونا کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔اﷲ کے دین میں اعلیٰ اور کم تر ذاتوں والے برابر ہیں۔رسو ل اﷲ جس عمل کو نہ چھوڑتے تھے ،تم بھی اسی سے چپکے رہنا۔لشکر کی روانگی کے بعد بھی حضرت عمر مدینہ آنے والے رضاکاروں کو شمولیت کے لیے بھیجتے رہے۔ لشکر ثعلبہ تک پہنچا تھا کہ مثنیٰ کو اجل نے آن لیا ، جنگ جسر میں انھیں آنے والے زخم بگڑ کر جان لیوا ثابت ہوئے، مرتے وقت انھوں نے بشیر بن خصاصیہ کو اپنی آٹھ ہزار کی فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔مدینہ سے دو ہزار یمنی اور دو ہزار نجدی بہادروں کی کمک آئی،شراف میں بنو اسد کے تین ہزار اور اشعث بن قیس کے دو ہزار ساتھی شامل ہوئے ، مثنیٰ کے آٹھ ہزار فوجی آَ ملے اورشام سے ہاشم بن عتبہ نے آٹھ ہزار کی سپاہ بھیجی تو فوجیوں کی تعداد تینتیس ہزار سے زیادہ ہو گئی۔لشکر میں بیعت رضوان میں حصہ لینے والے تین سواصحاب رسول اور ستربدری صحابہ شامل تھے،کئی جنگ جو ، خطیب، شاعر اور سردار،جیسے عمرو بن معدی کرب،طلحہ بن خویلد اور اشعث بن قیس بھی اس میں موجود تھے۔مثنیٰ کے بھائی معنیٰ اپنی قوم بنو بکر بن وائل کی طرف گئے تاکہ انھیں قابوس بن منذر کی دعوت پر خسروی فوج میں شامل ہونے سے روکیں۔ شراف ہی کے مقام پر خلیفۂ ثانی کا قادسیہ کی طرف کوچ کرنے کاحکم موصول ہوا۔انھوں نے مثنیٰ کی وصیت کے مطابق ایسی جگہ مورچے قائم کرنے کی ہدایت کی جہاں آگے ایرانی سر زمین اور پیچھے عرب کے پہاڑ ہوں۔ سعد کا لشکرقادسیہ کو روانہ ہو ا،راستے میں غدیب کے مقام پر ایرانیوں کا بارود خانہ آیا تو اس کا سامان سمیٹ لیا گیا۔قادسیہ پہنچ کر اسلامی فوج کو دو ماہ انتظار کرنا پڑا،ایران کی مقتدر قوتوں میں سے وزیر دفاع رستم حملہ نہ کرنے کے حق میں نہ تھا، لیکن جب فرات کے وسطی علاقے کے لوگوں نے بار بار فوج کی موجودگی سے خبردار کیا تو شاہ یزدگرد نے رستم ہی کو فوج کی کمان دیتے ہوئے قادسیہ جانے کا حکم دیا۔اس نے مدائن سے نکل کر ساباط میں پڑاؤ ڈالا اور وہاں رہ کر سامان حرب سے مکمل آراستہ ڈیڑھ لاکھ فوج اکٹھی کر لی۔فاروق اعظم نے جنگ سے پیش تر یزدگرد کو اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے ایک وفد بھیجنے کی ہدایت دی۔چنانچہ نعمان بن مقرن،قیس بن زرارہ، اشعث بن قیس، فرات بن حیان، عاصم بن عمر،عمرو بن معدی کرب،مغیرہ بن شعبہ،معنیٰ بن حارثہ، عطارد بن حاجب، بشیربن ابو رہم، حنظلہ بن ربیع اورعدی بن سہیل پر مشتمل ایک سفارت مدائن پہنچی۔درباری سادہ وضع وقطع والے سفیروں کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔یزدگرد نے رسمی سوالات پوچھنے کے بعد کہاکہ تمھار ی قوم ذلیل و احمق سمجھی جاتی تھی ،اب تم ہمارے مقابلے پر اتر آئے ہو۔ہم تمھاری سر کشی کو اپنے عاملوں اور صوبے داروں کے ذریعے سے دور کر دیتے تھے۔نعمان بن مقرن رضی اﷲ عنہ نے کہاکہ ہم دنیا سے شرک و بت پرستی مٹانے آئے ہیں ، جو اسلام قبول نہیں کرتا ،جزیہ ادا کر کے ہماری حفاظت میں آ جائے، ورنہ تلوار ہمار ے اور اس کے درمیان فیصلہ کرے گی ۔ یزدگرد بولا:تم ہمارے ملک پر قبضہ کرنے کی خواہش نہ کرو۔ہم تمھارے غلے اور کپڑے لتے کا انتظام کر کے تم پر کوئی نرم حاکم مقرر کر سکتے ہیں۔اب قیس بن زرارہ آگے بڑھے اور یوں تقریر کی: اﷲ نے ہم پر بڑا فضل کیا کہ اس خراب حالت سے نکالنے کے لیے ہمارے اندر ایک نبی مبعوث کیا۔تمھار ے لیے یہی مناسب ہے کہ اسلام قبول کر لو یا جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ،ورنہ تلوار فیصلہ کرے گی۔یزدگرد آپے سے باہر ہو گیا اوردھمکی دی کہ رستم جلد تم سب کو قادسیہ کی خندق میں دفن کر دے گا پھراس نے مٹی سے بھری ٹوکری منگوائی اور قائد وفد عاصم کے کندھے پر رکھ کر دربار سے باہر نکال دیا۔سعد بن ابی وقاص نے اس مٹی کی ٹوکری کو بھی ایک نیک فال سمجھا ،گویا ملک ایران کی مٹی ان کے قبضے میں آ گئی ہے۔ مطالعۂ مزید:البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل )،تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(جامعۂ پنجاب)۔