آفتاب مضطر
آفتاب احمد خان المعروف ڈاکٹر آفتاب مضطر (پیدائش: 13 اگست 1959ء ) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر ہیں۔ وہ اردو کے معروف شاعر فدا خالدی دہلوی کے تلمیذ تھے۔ ان کی ایک غزل ہر ظلم تیرا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں پاکستان کے معروف گلوکار سجاد علی نے گائی ہے جسے بہت شہرت ملی۔ آفتاب مضطر 13 اگست 1959ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آفتاب احمد خان ہے، مضطر تخلص جبکہ آفتاب مضطر ان کا قلمی نام ہے۔ 1990ء میں جامعہ کراچی سے ایم اردو ادب اور 2016ء میں جامعہ کراچی سے اردو کا عروضی نظام اور عصری تقاضے (تنقیدی مطالعہ) کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ شاعری میں فدا خالدی دہلوی کے تلمیذ ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف روینیو میں ملازمت کی۔ 1990ء میں ٹیلی فلم ایوارڈ برائے نغمہ نگاری ماس پروڈکشن ایوارڈ حاصل کیا۔ 1992ء میں وثیقہ اعترافِ قوتِ قلم ایوارڈ الخلیل ایجوکیشنل سوسائٹی سے حاصل کیا۔ 2004ء میں فیض بخشاپوری ایوارڈ (امریکا) قلم قافلہ پاکستان حاصل کیا۔ آفاق لیڈرز کلب اسلام آباد کی جانب سے 2017ء میں انھیں رحمت اللعٰلمین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی کتابوں میں کتاب سورج کے اس پار (مجموعہ ہائیکو مع جاپانی تراجم ازشیکی یوکی عظمت، 1997ء)، قبول ورد کے فیصلے (غزلوں اور نظمون کا مجموعہ، 2009ء)، لا کلامی (مسدس، 2014ء)، القاء (نعتیہ و حمدیہ مجموعہ، 2018ء، بیونڈ ٹائم پبلی کیشنز)، عام عروضی مغالطے (علم عروض) اور ساحل پہ کھڑے ہو (شعری مجموعہ، 2021ء) شائع ہو چکی ہیں۔[1]
آفتاب مضطر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: آفتاب احمد خان) |
پیدائش | 13 اگست 1959ء (65 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کراچی |
تعلیمی اسناد | ایم اے ، پی ایچ ڈی |
استاذ | فدا خالدی دہلوی |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
جب کبھی ان کے تصور والی تنہائی ہوئی | نعت کی آمد ہوئی اور بزم آرائی ہوئی | |
شمعِ نعتِ مصطفٰے کی لَو سے دل کی لَو لگی | اور اب قندیلِ جاں میں جاں سی ہے آئی ہوئی | |
اس ادا سے کھل پڑی کل قریہ جاں کی دوات | دل کے کاغذ پر ثناء کی خامہ فرسائی ہوئی | |
میں بہے جاتا تھابالکل ایک تنکے کی طرح | حرفِ مدحت کی ندی تھی جوش پر آئی ہوئی | |
اِک ذرا سا چھا گیا تھاکل مدینے کا خیال | نعت کی دل پر ہے اب تک چھاؤنی چھائی ہوئی | |
کیا عظیم احسان ہے آقا کا ہم پر سوچیے | خوبی و زشتی ہمیں ہے خوب سمجھائی ہوئی | |
میں چلا طیبہ ہزاروں پھول مدحت کے سمیٹ | ساتھ میرے بھینی بھینی ایک پُروائی ہوئی | |
یہ بھی آقا کا کرم ہے تجھ پہ مضطر، آفتاب | نعت گوئی کی کلی ہے تجھ میں مہکائی ہوئی[2] |
غزل
ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں | اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں | |
اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے | انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں | |
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں | مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں | |
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے | میں گردشِ دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں | |
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے | میں گردشِ دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں | |
اُن کے لیے لڑ جاؤں گا تقدیر میں تجھ سے | حالانکہ کبھی تجھ سے میں اُلجھا تو نہیں ہوں | |
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا | میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں | |
کیوں شور بپا ہے ذرا دیکھو تو نکل کر | میں اُس کی گلی سے ابھی گزرا تو نہیں ہوں | |
مضطرؔ مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ | دیوانہ سہی، اُن کا تماشا تو نہیں ہوں[3] |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ منظر عارفی، مناقب امام حسین اور شعرائے کراچی، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، اپریل 2017ء، ص 200
- ↑ آفتاب مضطر، القاء، بیونڈ ٹائم پبلی کیشنز (ادارہ اجرا کراچی)، 2018ء، 243
- ↑ "ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں (غزل)، آفتاب مضطر"۔ اردو ویب ڈاٹ کام