فدا خالدی دہلوی

اردو کے پاکستانی شاعر

فدا خالدی دہلوی (پیدائش:10 اپریل 1920ء - 2 مارچ 2001ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور شاعر تھے۔ وہ بیخود دہلوی تلمیذِ رشید داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ فدا خالدی شاعری میں اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ ادیب رائے پوری، ڈاکٹر عزیز احسن، سید معراج جامی، صبیح الدین رحمانی، پروفیسر خیال آفاقی، سرفراز ابد، اختر اندوری اور ڈاکٹر آفتاب مضطر ان کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔

فدا خالدی دہلوی

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: عبد الحمید ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 10 اپریل 1920ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 2 مارچ 2001ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میوہ شاہ قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ بیخود دہلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ادیب رائے پوری ،  عزیز احسن ،  معراج جامی ،  صبیح الدین رحمانی ،  آفتاب مضطر   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

فدا خالدی 10 اپریل 1920ء میں دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1] پیدائشی نام عبد الحمید اور فدا تخلص تھا، مگر فدا خالدی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ ان کی پیدائش ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ والدِ گرامی کا نام امداد علی تھا۔ سلسلۂ نسب صحابی حضرت خالد بن ولید سے جا ملتا ہے۔ ان کی والدہ بستی بیگم کے دادا عبد اللہ بیگ بہادر شاہ ظفر کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ دہلی میں گڑھی عبد اللہ بیگ انھیں کے نام سے منسوب ہے۔ فدا خالدی نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی اور اردو میں منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحان پاس کیے۔ 14 برس کی عمر میں شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور بیخود دہلوی جانشیں مرزا داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی میں منتقل ہو گئے اور اورینٹل کالج کراچی میں اردو کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ مدت ملازمت گزارنے کے بعد یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ فدا خالدی نے بیک وقت کئی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں ان کا فن عروج پر ہے۔ لیکن رباعی کے وہ بے مثال شاعر ہیں۔ ان کی مطبوعہ تصانیف میں آتشِ جذبات (غزل)، آتشِ احساس (غزل)، آتشِ خوابیدہ (رباعیات)، آتشِ امروز (نظمیں)، م ص (حمد و نعت، بزمِ یوسفی کراچی 1983ء)، آتشِ افکار (رباعیات) شامل ہیں۔[2]

وفات

ترمیم

فدا خالدی دہلوی 2 مارچ 2001ء میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ انھیں کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں سپردِ کیا گیا۔[2][1]

نمونۂ کلام

ترمیم

نعت

درازی شامِ غم کی مختصر ہوپہنچ جاؤں مدینے تو سحر ہو
نظر ہو جس پر سلطانِ اُمم کیجہاں اُس کے نہ کیوں زیرِ اثر ہو
کسی عنوان بر آئے تمناکسی صورت مدینے کا سفر ہو
بھٹک سکتا نہیں راہِ وفا میںتمہاری یاد جس کی راہ بر ہو
مری قسمت بھی چمکے ماہِ طیبہکسی دن میری جانب بھی گزر ہو
مری قسمت بھی چمکے ماہِ طیبہکسی دن میری جانب بھی گزر ہو
فدا! حاصل ہو جو قربِ شہِ دیںمجھے بھی اپنی ہستی کی خبر ہو[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص84
  2. ^ ا ب منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 412
  3. فدا خالدی، م ص، بزمِ یوسفی کراچی، 1983ء، ص 94