فدا خالدی دہلوی
فدا خالدی دہلوی (پیدائش:10 اپریل 1920ء - 2 مارچ 2001ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور شاعر تھے۔ وہ بیخود دہلوی تلمیذِ رشید داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ فدا خالدی شاعری میں اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ ادیب رائے پوری، ڈاکٹر عزیز احسن، سید معراج جامی، صبیح الدین رحمانی، پروفیسر خیال آفاقی، سرفراز ابد، اختر اندوری اور ڈاکٹر آفتاب مضطر ان کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔
فدا خالدی دہلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: عبد الحمید) |
پیدائش | 10 اپریل 1920ء دہلی ، برطانوی ہند |
وفات | 2 مارچ 2001ء (81 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | میوہ شاہ قبرستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | بیخود دہلوی |
تلمیذ خاص | ادیب رائے پوری ، عزیز احسن ، معراج جامی ، صبیح الدین رحمانی ، آفتاب مضطر |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمفدا خالدی 10 اپریل 1920ء میں دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1] پیدائشی نام عبد الحمید اور فدا تخلص تھا، مگر فدا خالدی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ ان کی پیدائش ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ والدِ گرامی کا نام امداد علی تھا۔ سلسلۂ نسب صحابی حضرت خالد بن ولید سے جا ملتا ہے۔ ان کی والدہ بستی بیگم کے دادا عبد اللہ بیگ بہادر شاہ ظفر کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ دہلی میں گڑھی عبد اللہ بیگ انھیں کے نام سے منسوب ہے۔ فدا خالدی نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی اور اردو میں منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحان پاس کیے۔ 14 برس کی عمر میں شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور بیخود دہلوی جانشیں مرزا داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی میں منتقل ہو گئے اور اورینٹل کالج کراچی میں اردو کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ مدت ملازمت گزارنے کے بعد یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ فدا خالدی نے بیک وقت کئی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں ان کا فن عروج پر ہے۔ لیکن رباعی کے وہ بے مثال شاعر ہیں۔ ان کی مطبوعہ تصانیف میں آتشِ جذبات (غزل)، آتشِ احساس (غزل)، آتشِ خوابیدہ (رباعیات)، آتشِ امروز (نظمیں)، م ص (حمد و نعت، بزمِ یوسفی کراچی 1983ء)، آتشِ افکار (رباعیات) شامل ہیں۔[2]
وفات
ترمیمفدا خالدی دہلوی 2 مارچ 2001ء میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ انھیں کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں سپردِ کیا گیا۔[2][1]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
درازی شامِ غم کی مختصر ہو | پہنچ جاؤں مدینے تو سحر ہو | |
نظر ہو جس پر سلطانِ اُمم کی | جہاں اُس کے نہ کیوں زیرِ اثر ہو | |
کسی عنوان بر آئے تمنا | کسی صورت مدینے کا سفر ہو | |
بھٹک سکتا نہیں راہِ وفا میں | تمہاری یاد جس کی راہ بر ہو | |
مری قسمت بھی چمکے ماہِ طیبہ | کسی دن میری جانب بھی گزر ہو | |
مری قسمت بھی چمکے ماہِ طیبہ | کسی دن میری جانب بھی گزر ہو | |
فدا! حاصل ہو جو قربِ شہِ دیں | مجھے بھی اپنی ہستی کی خبر ہو[3] |