آلِ رشید جزیرہ نما عرب کا ایک شاہی خاندان تھا جس نے 19 ویں صدی عیسوی میں نجد کے علاقہ میں امارتِ حائل کے نام سے ایک ریاست پر حکومت کی۔ یہ خاندان سعودی عرب کے موجودہ شاہی خاندان آل سعود کا سخت سیاسی حریف تھا جو تب امارتِ نجد کے حکمران تھے۔ آلِ رشید کا مرکزِ حکومت شمالی نجد میں واقع حائل نامی شہر تھا جس کی ذرائع آمدنی کا بیشتر انحصار مکہ مکرمہ کو جانے والے حجاج کے قافلوں پر تھا، اس کے علاوہ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ اس حکمران خاندان کا بانی عبد اللہ بن رشید تھا، آلِ رشید کے سبھی حکمران اِسی کی اولاد تھے۔ آلِ سعود کے برعکس اس خاندان نے اپنے دورِ حکومت میں سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ کافی تعاون کِیا مگر جب عثمانیوں کی گرفت خطہ حجاز میں کمزور پڑنے لگی تو آلِ رشید پر بھی مشکلات کا بار آن پڑا اور اُن کے لیے عثمانیوں کی مزید حمایت کرنا دُشوار ہوتا چلا گیا۔[1]

امارتِ جبلِ شمّر
امارتِ آلِ رشید
قیام: 1834–زوال: 1921
پرچم پایتخت شهر حائل از ۱۲۱۳ شمسی تا ۱۲۹۸
جبل شمّر (نجد)
جبل شمّر (نجد)
حیثیتقبائلی سلطنت
دار الحکومتحائل
عمومی زبانیںعربی
امیر 
• 1834
عبد اللہ بن رشید (اول)
• 1921
محمد بن طلال الرشید (آخر)
تاریخ 
• 
قیام: 1834
• 
زوال: 1921

نسبی تعلق

ترمیم

آلِ رشید کا تعلق شَمَّر نامی قبیلہ سے تھا جو عربوں کے قحطانی قبائل میں سے ایک اور بنو طے کی اولاد سے ہے۔ ان کے آباء و اجداد یمنی تھے اور دُوسری صدی عیسوی میں یمن سے ہجرت کر کے شمالی عرب میں آ بسے تھے۔ مشہور عرب سخی حاتم طائی اور اُن کے صحابی بیٹے عدی بن حاتم طائی اِسی قبیلہ کے فرزند اور سردار تھے۔

اسماء بن لوئی کی قیادت میں طائیوں نے 115ء میں یمن سے شمالی عرب ہجرت کی اور جبالِ سَلْمَى پر حملہ کِیا جہاں بنو اسد اور بنو تمیم مقیم تھے۔ اپنی قوت اور شام پر حاکم غسانی اور عراق پر حاکم لخمی قبائل سے رشتہ داری کے سبب دار الحکومت الحیرہ تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ عجا اور سلمی نامی پہاڑوں کے مابین یہ تمام علاقہ جبالِ شمر کے نام سے معروف ہوا اور اس طرح پہلی بار بنو طے کی وہ شاخ جو اس مقام پر آباد رہی، بعد کے ادوار میں بنو شمر کہلائی۔ اسی علاقے میں حائل شہر نے رفتہ رفتہ مرکزی اہمیت اختیار کر لی اور یہاں شمریوں کی اکثریت نے رہائش اختیار کر لی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں حائل شہر پر آلِ علی کا تسلط تھا جنھیں شکست دے کر آلِ رشید نے اپنی بساطِ حکومت بچھائی۔

وجہ تسمیہ

ترمیم

بنو طے کی اس شاخ بنو شمر کے ایک شخص عبد اللہ بن رشید نے انیسویں صدی عیسوی میں حائل کی امارت پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ چوں کہ یہ شخص ابن رشید کہلاتا تھا لہٰذا اس کی اولاد کو آلِ رشید کہا گیا۔ اس طرح اس خاندان اور امارت کو تاریخ میں آلِ رشید کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔

قبل از امارت

ترمیم

امارت رشید کے بانی عبد اللہ بن علی کا باپ علی بن رشید ایک دِین دار، متقی اور سخی شخص تھا اور آلِ علی کے گیارھویں امیر محمد بن عبد المحسن آلِ علی کا دوست تھا۔ عبد اللہ نے کبھی بھی امیر سے لڑنے یا امارت پانے کی کوئی خواہش یا کوشش نہ کی تھی۔ اس کا باپ علی بن رشید سعود الکبیر کے لیے شمالی صحرا میں زکوٰۃ جمع کرنے پر مامور تھا۔ لیکن آلِ سعود کی خدمت کی بنا پر آلِ علی سے اُس کا اختلاف بھی نہ تھا اور دونوں خاندانوں سے اُس کی دوستی اور رشتہ داری بھی تھی۔[2] علی بن رشید کا ایک بھائی جبر نامی بھی تھا جو درعیہ میں سعود الکبیر کا کاتب مقرر تھا۔[3] ابنِ بشر جو آلِ سعود کی پہلی اور دوسری ریاست کے زمانہ کا ایک مؤرخ گزرا ہے، جبر بن رشید کے حوالے سے یہ ذکر کرتا ہے کہ 1234ھ (1818ء) میں جب عبد اللہ اوّل نے ابراہیم پاشا سے شکست کھا کر ہتھیار ڈالے تو جبر بن رشید نے آلِ سعود کی ملازمت ترک کر کے راس الخیمہ کا رُخ کِیا۔[4]

جبر بن رشید کو سعود الکبیر کے دربار میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ سعود الکبیر اُس کے ساتھ عزت سے پیش آتا تھا، اُس نے جبر کے حوالے سے اپنے صوبائی عمال کو ایک بار یہ تاکید بھی کی تھی: ’’اگر میرے نام سے ہدایت پر مبنی کوئی مکتوب تمھیں جاری ہو اور اُس پر سرکاری مُہر بھی نہ ہو، لیکن اگر جبر بن رشید کی کتابت میں ہو تو اُس پر عمل کرو۔‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آلِ رشید معمولی حیثیت کا حامل خاندان نہ تھا اور علی اور اُس کا بھائی جبر دربارِ سعود میں بُلند رُتبہ کے حامل تھے جب کہ علی بن رشید آلِ سعود کا عامل تھا اور جبر بن رشید ایک کاتب تھا۔ عبد اللہ اور اُس کے بھائی اور جانشین عبید بن علی الرشید کے ادوارِ حکومت میں اس خاندان کی شہرت و عزت میں مزید اِضافہ ہوا۔[5]

اس کی والدہ کا نام علیاء العبد العزیز الحميان تھا جن کا تعلق حائل کے معزز گھرانے سے تھا۔ علیاء کا نکاح 1790ء میں علی بن رشید سے ہوا۔[6] علی بن رشید اور علیاء الحمیان کی اولاد میں چار بچّے ہوئے جن میں تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔

  1. عبد اللہ
  2. عبید
  3. عبد العزیز (کم سنی میں وفات پائی)
  4. نورۃ

امارت کا قیام

ترمیم

1800ء میں عبد اللہ بن علی بن رشید نے آلِ علی کے خلاف بغاوت کی۔ عبد اللہ کی بغاوت کا جواز یہ تھا کہ وہ حائل کو صحرائی قبیلہ عنزہ کے حملوں سے بچانا چاہتا تھا۔ 1820ء میں امیر صالح بن عبدالمحسن آل علی نے اُسے اور اُس کے بھائی عبید کو گرفتار کرنا چاہا مگر وہ عراق کی سمت فرار ہو گئے جہاں شمر قبیلے کا اثر و رسوخ قائم تھا۔ 1834ء میں فیصل اوّل کی امداد سے دونوں بھائیوں کی واپسی یقینی ہو سکی اور وہ امیر صالح کو اقتدار سے بے دخل کر کے خُود حائل کی امارت کے مالک ہو گئے۔ امیر صالح مدینہ منورہ کو جلاوطن ہو گیا اور حکومت پر عبد اللہ بن علی الرشید کا قبضہ ہو گیا۔ مدینہ میں جلاوطنی کے دوران بھی امیر صالح نے اقتدار کے دوبارہ حصول کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور عثمانی سالاروں سے ساز باز کی مگر عبد اللہ نے اُس کی کوششیں ناکام بنا دیں اور اُسے قتل کرا دِیا۔ اس طرح آلِ رشید کی امارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گئی۔

آلِ رشید نے 1890ء میں ریاض فتح کیا اور سعودی قبائل کو وہاں سے بے دخل کر دِیا۔ آلِ سعود کو بحرین میں پناہ لینا پڑی، پھر وہ قطر چلے گئے اور آخر اُنھوں نے کویت کا رُخ کِیا۔[7]

آلِ سعود سے تعلقات

ترمیم

قیامِ امارت کے بعد ابتدائی زمانہ میں آلِ رشید کے تعلقات آلِ سعود سے نہایت دوستانہ رہے، چناں چہ دونوں حکمران خاندانوں کے مابین نہایت مضبوط بنیادوں پر تعلقات استوار تھے۔ بالخصوص عبد اللہ بن رشید اور فیصل بن تُرکی کے مابین تعلقات کی نوعیت نجد کے دیگر شاہی خاندانوں کے مقابلے میں منفرد اور مختلف تھی۔ عبد اللہ بن فیصل بن تُرکی نے پہلے نورۃ بنتِ عبد اللہ بن رشید سے اور پھر عبد اللہ کی بھتیجی طریفۃ بنتِ عبید بن رشید سے اور عبد اللہ نے فیصل کی بہن جوہرۃ بنتِ فیصل بن تُرکی سے نِکاح کر کے باہمی دوستی کو رشتہ داری میں تبدیل کِیا۔ عبد اللہ بن فیصل کی وفات پر اُس کے بھائی محمد بن فیصل بن تُرکی نے بھائی کی بیوہ سے نکاح کیا۔

امارتِ رشیدیہ کا پرچم

ترمیم

آلِ رشید کا پرچم کیسا تھا، اس بارے میں مختلف تاریخی روایات پائی جاتی ہیں:

  1. شریفِ مکہ حُسین بن علی کے بیٹے عبد اللہ کا بیان ہے کہ ایک بار امیر الحج ابنِ رشید میرے پاس آئے اور بتایا کہ گورنر نے اُسے آلِ رشید کا پرچم مدینے میں لے جانے سے روکا ہے۔ وہ سبز رنگ کا پرچم تھا جس پر کلمہ طیبہ لکھا تھا۔[8]
  2. اطالوی سیاح کارلو کلاڈیو گورمانی (1828ء تا 1884ء) نے بیان کیا ہے کہ جبل شمّر کے رہائشی درشت مزاج اور متعصّب ہیں اور عیسائیوں یا یہودیوں کو اپنی سرزمین پر برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ قومی پرچم سبز ہے جس کے حاشیوں پر سُرخ رنگ غالب ہے، اور تلوار کے نیچے سفید رنگ میں کلمہ لکھا ہوا ہے۔[9]

زوال

ترمیم

یہ امارت 1921ء تک قائم رہی۔ آخر آل سعود کے ساتھ ان کی مخالفت شر وع ہو گئی اور یہی مخالفت ان کے زوال اور پھرخاتمہ کا سبب بنی۔ آلِ رشید کی مدتِ حکومت 88 سال رہی۔ آلِ رشید کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بہت سے دیگر عرب شاہی خانوادوں کی طرح اُن میں بھی جانشینی کا کوئی واضح اُصول موجود نہ تھا اور ہر امیر کی وفات پر جانشینی کے جھگڑے اُٹھ کھڑے ہونا ایک معمول تھا۔ جانشینی کے مسئلہ پر یہ مسئلہ بھی سر اُبھارتا تھا کہ جانشین سابق امیر کا بھائی ہو یا بیٹا۔ ان مسائل کے حل کے لیے تلواریں بے نیام ہو جاتی تھیں اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ 19 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں چھ راشدی اُمراء کی موت کا سبب بھی یہی تنازعہ تھا۔ ان اندرونی اختلافات کے باوجود راشدیوں کی حکومت کا سلسلہ جاری رہا اور آلِ سعود سے جنگوں کے دوران وہ یک جان ہو کر لڑے۔

20 ویں صدی عیسوی کی پہلی دو دہائیوں میں آلِ سعود کا اقتدار بہت بڑھ گیا تھا اور اب سعودی اور اُن کے حامیوں نے جزیرہ نما عرب کو ایک حکومت کے تحت لانے کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ انجام کار 1921ء میں عبد العزیز نے حائل فتح کر کے آلِ رشید کی حکومت کا خاتمہ کر دِیا۔ حکومت ہاتھ سے جانے کے بعد آلِ رشید کے اکثر افراد نے از خود جلا وطنی اختیار کر لی۔ اس خاندان کے اکثر افراد نے عراق، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کا رُخ کِیا۔ اس طرح آلِ رشید کی بڑی اکثریت سعودی عرب سے ترکِ وطن کر گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1990ء کی دہائی میں سعودی عرب میں آلِ رشید کے افراد اُنگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔

فہرست امراء

ترمیم

اس امارت پر 13 امراء یکے بعد دیگرے حکمران رہے، آخر آلِ سعود نے ان کی بادشاہی ختم کر دی۔ ان کی فہرست مع مدت حکومت، ذیل میں دی جا رہی ہے:

  1. عبد اللہ بن علی بن رشید (1834ء تا 1847ٰء)
  2. عبید بن علی بن رشید (1847ء تا 1865ء)
  3. طلال بن عبد اللہ بن علی بن رشید (1865ء تا 1867ٰء)
  4. متعب بن عبد اللہ بن علی بن رشید (1867ء تا 1869ء)
  5. بندر بن طلال بن عبد اللہ بن علی بن رشید (1869ء تا 1872ء)
  6. محمد بن عبد الله بن علی بن رشید (1872ء تا 1897ء)
  7. عبد العزیز بن متعب بن عبد الله بن علی بن رشید (1897ء تا 1906ء)
  8. متعب بن عبد العزیز بن متعب بن عبد الله بن علی بن رشید (اپریل 1906ء تا دسمبر 1906ء)
  9. سلطان بن حمود بن عبید بن علی بن رشید (1907ء تا 1908ء)
  10. سعود بن حمود بن عبید بن علی بن رشید (جنوری 1908ء تا ستمبر 1908ء)
  11. سعود بن عبد العزیز بن متعب بن عبد اللہ بن علی بن رشید (ستمبر 1908ء تا مئی 1920ء)
  12. عبد اللہ بن متعب بن عبد العزیز بن متعب بن عبد اللہ بن علی بن رشید (مئی 1920ء تا 1921ء)
  13. محمد بن طلال بن نایف الرشید (1921ء تا 2 نومبر 1921ء، سقوطِ حائل)

حوالہ جات

ترمیم
  1. عرب قوم پرستی کی ابتدا، راشد خالدی، کولمبیا یونی ورسٹی پریس، 1991ء
  2. التاريخ السياسي لامارة حائل 1835-1921ء، جبار يحيى عبيد، صفحہ 40
  3. دراسة حول المخطوط التركي، عبد الفتاح ابو عليہ، صفحہ 72
  4. عہد الامام عبد اللہ بن سعود، منیر العجلانی، جلد 4، صفحہ 142
  5. امارة آلِ رشيد في حائل، محمد الزعارير، صفحہ 53
  6. نساء شهيرات من نجد، دلال مخلد الحربی، دارة الملك عبد العزيز، 2005ء
  7. مضمون: A Prospect of Saudi Arabia، مضمون نگار: ٹی۔ آر۔ میک ہال، رسالہ: اِنٹرنیشنل افیئرز، صفحات: 622–647، جلد 56، شمارہ 4، ستمبر 1980ء
  8. مذكراتي، الملك عبد الله بن الحسين، صفحہ 46، ناشر: مؤسسة هنداوی للتعليم والثقافۃ، 2012ء
  9. نجد الشمالی، كارلو كلاودیو جوارمانی، صفحہ 135

کتابیات

ترمیم
  1. التاريخ السياسي لامارة حائل 1835-1921ء، جبار يحيى عبيد، طبع اول، بيروت: الدار العربية للموسوعات
  2. التطورات السياسية الداخلية في نجد 1865ء-1902ء، کریم طلال الرکابی، طبع اول، بیروت: الدار العربیۃ للموسوعات
  3. امارۃ آلِ رشید فی حائل، محمد الزعاریر، بیروت: بيسان للنشر والتوزيع، طبع اول، 1997ء
  4. تاريخِ نجد، محمد شكری الالوسي، دار الوراق، 2007ء