آنند نرائن ملا
مُلا، آنند نرائن (1901 - 1997) ایک کشمیری الاصل برہمن تھے۔ جن کی پیدائش اور تربیت لکھنؤ میں ہوئی۔ والد کا نام جسٹس جگت نرائن تھا۔ 1921 میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بے۔ اے۔ کیا۔ پھر 1923 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ 1954 میں وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ 1968 میں وہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دو بار راجیہ سبھاکے ارکان بنائے گئے۔
آنند نرائن ملا | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | ستمبر1901ء لکھنؤ ، برطانوی ہند |
وفات | 12 جون 1997ء (95–96 سال) نئی دہلی ، بھارت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | لکھنؤ یونیورسٹی |
پیشہ | سیاست دان ، منصف ، شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (برائے:Meri Hadis-e-Umr-e-Gurezan ) (1964)[1] |
|
دستخط | |
درستی - ترمیم |
یہ ایک یتیم صفحہ ہے جسے دیگر صفحات سے ربط نہیں مل پارہا ہے۔ براہ کرم مقالات میں اس کا ربط داخل کرنے میں معاونت کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
آنند نرائن ملا کی زندگی اردو کی خدمت اور اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کوشش اور محنت سے عبارت ہے۔ وہ اردو کے مختلف بڑے اداروں میں اعلٰی عہدوں پر رہے۔ ان کی انجمن ترقی اردو (ہند) کی صدارت (1969 تا 1983) کے زمانے میں انجمن نے بہت ترقی کی۔ وہ حکومت ہند کے ترقی اردو بورڈ کے نائب صدر رہے۔ اتر پردیش اردو اکادمی کے صدر کی حیثیت سے عرصے تک کام کیا۔ حکومت اتر پردیش کی فخر الدین علی احمد یادگاری کمیٹی برائے ترقی اردو کے بھی وہ بنیاد گزار صدر تھے۔ آنند نرائن ملا کا سیاسی مزاج مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے تصورات کے زیر سایہ پروان چڑھا تھا۔ ان کی شاعری میں حب الوطنی اور جذبہ قومی یک جہتی کے ساتھ ایک فکری میلان بھی ہے۔ نظم اور غزل دونوں میں انھوں نے قابلِ قدر کارنامے انجام دیے اور نثر میں بھی بہت کچھ لکھا۔ آنند نرائن ملا کے پانچ مجموعہ کلام شائع ہوئے۔ "جوئے شیر" (1949)، "کچھ ذرے کچھ تارے " (1959)، "میری حدیثِ عمرِ گریزاں " (1963)، "سیاہی کی ایک بوند" (1973)، "کربِ آگہی"، (1977)۔ انھیں 1964 میں ساہتیہ اکیڈمی انعام بھی ملا۔ انھوں نے چند طویل نظمیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً "اندھیر نگری میں دیپ جلائیں " اور "اور ایک دن انسان جاگے گا"۔