ابرار الحق حقی

ایک محب قرآن و سنت بھارتی عالم

محمد ابرار الحق حقی (پیدائش: 1339ھ مطابق 20 دسمبر 1920ء – 1426ھ مطابق 17 مئی 2005ء) عبد الحق محدث دہلوی کی اولاد میں نمایاں فرزند، مظاہر علوم سہارنپور کے درخشاں فاضل اور سلسلہ چشتیہ کے مشہور زمانہ عالم و داعی، نیز مشرب تھانوی کے قولی و عملی ترجمان اور نمونہ حقیقی سمجھے جاتے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں متعدد فکری، تعلیمی و اصلاحی کاموں کے محرک و بانی تھے۔

محی السنہ

ابرار الحق حقی
ذاتی
پیدائش20 دسمبر 1920
وفات17 مئی 2005(2005-50-17) (عمر  84 سال)
مذہباسلام
قومیتبھارتی
فرقہسنی
فقہی مسلکحنفی
تحریکدیوبندی
بنیادی دلچسپیقرآن، تصوف
بانئاشرف المدارس ہردوئی
مرتبہ

ولادت ترمیم

محمد ابرار الحق حقی کی ولادت 20 دسمبر 1339 ہجری کو قصبہ پلول میں ہوئی۔

نسب و خاندان ترمیم

ابرار الحق حقی کا سلسلہ نسب عبد الحق محدث دہلوی سے ملتا ہے۔ ان کا خاندان علاؤ الدین خلجی کے زمانے میں ترکی سے ہندوستان آیا تھا۔[1]

تعلیم ترمیم

ابتدائی تعلیم ہردوئی میں انوار احمد انبیٹھوی سے حاصل کی، یہیں ناظرہ و حفظ قرآن کی تکمیل کی اور بعدہ مظاہر علوم میں داخلہ لیا۔ 1357 ہجری میں اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ محمد زکریا کاندھلوی، منظور احمد خاں، عبد الرحمن کیملپوری، اسعد اللہ رامپوری ان کے مشہور اساتذہ میں سے ہیں۔ محمد یوسف کاندھلوی اور انعام الحسن کاندھلوی محمد ابرار الحق کے درسی ساتھی تھے۔ لیکن بیماری کے سبب دورہ حدیث شریف کو درمیان سے چھوڑ کر وہ گھر آگئے اور آئندہ سال جاکر دورہ کی تکمیل کی۔ اعلی نمبرات سے کامیابی کے سبب ان کو بذل المجہود کتاب انعام میں ملی تھی۔ عالمیت کے بعد دو سال تکمیل علوم کا نصاب مکمل کیا۔ اس میں بھی عمدہ تعلیمی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔

مظاہر میں دوران طالب علمی میں فجر سے پہلے قاری عبد الخالق مکی سے مشق قراءت کرنے کے لیے مظاہر سے جامع مسجد سہارنپور 3 میل تک جاتے، یہ سلسلہ فراغت تک جاری رہا۔

بیعت و خلافت ترمیم

چونکہ ان کے والد محمود الحق ہردوئی خانقاہی ذہن کے تھے اور اشرف علی تھانوی کے مجاز صحبت خلیفہ تھے، اس لیے گھر کا ماحول بھی دین دارانہ تھے۔ طالب علمی میں ابرار الحق اشرف علی تھانوی سے بیعت ہو گئے تھے۔ چونکہ خانقاہ میں بے ریش نوجوانوں کو ٹھہرنے کی اجازت نہ تھی، اس لیے تھانہ بھون میں کسی عزیز کے یہاں قیام کرتے۔ فطری صلاحیت اور وہبی کمالات اعلی درجہ کے تھے اس لیے 22 سال کی عمر میں ہی خلافت سے نوازے گئے۔ انتقال کے بعد عزیز الحسن غوری، وصی اللہ الہ آبادی، محمد احمد پرتابگڈھی اور محمود الحسن گنگوہی سے یکے بعد دیگرے استفادہ کا تعلق رہا اور نیاز مندانہ ان کے یہاں حاضری دیتے رہے۔

تدریسی خدمات ترمیم

فراغت کے بعد اولا مظاہر علوم سہارنپور میں بحیثیت معین مدرس منتخب ہوئے۔ وہاں سے نکل کر مدرسہ اسلامیہ فتحپور میں منصب تدریس پر فائز رہے۔ اس کے بعد جامع العلوم کانپور میں تدریس کے لیے چلے آئے۔ انداز تدریس و طریق تعلیم نہایت سہل و دلنشیں تھا جس کی وجہ سے خاصے مقبول رہے۔

مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی ترمیم

بیرون وطن چند سال تدریس کے بعد اپنے مرشد اشرف علی تھانوی کے مشورہ سے ہردوئی میں شوال 1362 ہجری میں مدرسہ اشرف المدارس کی بنیاد رکھی اور خلوص کی برکت اور تعلیم و تربیت کے معیار کے سبب مدرسہ چند سالوں میں معیاری مدراس کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ مدرسہ کا تربیتی نظام اتنا عمدہ اور مثالی تھا کہ عبد الباری ندوی نے اسے کرامت قرار دیا اور اپنی کتاب میں اقامتی اداروں کے منتظمین کو مشورہ دیا کہ وہ اس نظام تربیت کو اپنے یہاں بھی نافذ کریں۔[1]

خدمت قرآن ترمیم

دوران طالب علمی میں ابرار الحق حقی نے مشہور زمانہ قاری عبد الخالق مکی سے سات آٹھ برس مسلسل فن تجوید کو حاصل کیا تھا۔ نیز اشرف علی تھانوی کے یہاں بھی اس کا نہایت اہتمام تھا۔ اس لیے انھوں نے بھی میدان عمل میں آکر قرآن کی خدمت کا بیڑا اٹھایا، اس کی اہمیت و عظمت اور ادائے حقوق کی مسلسل تحریک چلائی اور اسی کے مد نظر نورانی قاعدہ کو ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا اور تادم آخر خدمت قرآن کی اس تحریک کے داعی رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے چھوٹے تمام مدارس نے اس نظام کی نقل کی یا کم از کم اس پر حساس ہوکر خود عمدہ نظام تجویز کرنے پر آمادہ ہوئے۔

مجلس دعوۃ الحق ترمیم

ان کی زندگی کا اہم کارنامہ مجلس دعوۃ الحق کی تشکیل نو ہے۔ بڑوں سے مشورہ کے بعد انھوں نے اشرف علی تھانوی کی قائم کردہ مجلس دعوة الحق کی صفر 1370 ہجری میں نشاۃ ثانیہ کی اور اسے تھانہ بھون سے منتقل کرکے اپنے علاقہ ہردوئی کو اس کا مرکز بنایا۔

وفات ترمیم

8 ربیع الثانی 1426 ہجری مطابق 17 مئی 2005ء شب 8 بجے ہردوئی میں انتقال کیا اور ہردوئی کے عام قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔[1]

حوالہ جات ترمیم