ابن الرَّاوَنْدِی – ابو الحسین احمد بن یحییٰ بن اسحاق ابن الرَّاوَنْدِی (پیدائش: 877ء – وفات: 911ء) سابق معتزلی، ملحد اور فارسی النسل مصنف تھا۔

ابن الراوندی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 827ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاشان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 911ء (83–84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب معتزلہ[1]،  اہل تشیع[2]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابو عیسی وراق[3]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مورخ،  فلسفی،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ملحد،  دهری  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

پیدائش ترمیم

ابن الراوندی کے متعلق ابتدائی کتبِ تواریخ میں مفصل معلومات ملتی ہیں۔ ابن الراوندی کی پیدائش کاشان میں 212ھ مطابق 877ء میں ہوئی۔

خاندان ترمیم

اِس کی کنیت ابو الحسین، نام احمد بن یحییٰ بن اسحاق تھا اور والد کا نام یحییٰ بن اسحاق تھا۔اِس کا باپ یہودی تھا مگر اپنا مذہب اسلام ظاہر کرتا تھا۔ [4]

الحاد ترمیم

مؤرخ اسلام علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ابن الراوندی کے الحاد اور اِس کی ملحدانہ باتوں کو تفصیلاً بیان کیا ہے کہ:ابن الراوندی کے باپ نے صحائف تورات میں تحریف کرڈالی تھی اور خود ابن الراوندی نے قرآن کریم کے کچھ نسخوں کو جو اُس کے پاس رہتے تھے، تحریف کرڈالے تھے اور قرآن کے رد میں ایک کتاب ’’الدامغ‘‘ نامی لکھی (العیاذ باللہ) جبکہ ایک کتاب ’’الزمرد‘‘ نامی شریعتِ اسلام کے رَد میں لکھی۔ کتاب التاج بھی ملحدانی عقائد سے لبریز ہے جو اِس کے عقائد کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کتاب الفرید اور کتاب امامۃ المفضول بھی لکھیں ۔ اِن کتب کے مقابلے میں علما و مشاہیر اسلام کمربستہ ہو گئے۔ شیخ ابوعلی کا قول ہے کہ: ’’ میں نے اِس ملحد جاہل‘ بے وقوف ابن الراوندی کی کتاب مکمل پڑھی‘ مگر اِس میں سوائے بے وقوفی‘ جھوٹ اور من گھڑت باتوں کے کام کی کوئی بات مفید نہیں پائی اور ایک حصہ کتاب کا عالم کے قدیم ہونے‘ عالم کے خالق کی نفی‘ مذہبِ دہریہ کے صحیح ہونے اور اہل توحید کے رد میں لکھا ہے‘‘۔ ایک کتاب میں نبوت و رسالت پر ملحدانہ عقائد کے مطابق خباثت بیان کی ہے اور ایک کتاب میں یہود و نصاریٰ کے حق میں لکھی تاکہ اُن کی فضیلت اسلام پر ثابت کرسکے (نعوذ باللہ)۔ اِن کتب سے ابن الراوندی کا دینِ اسلام سے خارج ہوجانا اور اُس کے کفر کا ثابت ہونا واضح ہے۔ شیخ اسلام ابوالفرج ابن جوزی نے اِنہی عقائد پر ابن الراوندی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہوئے کافر کہا ہے۔ المنتظم میں لکھا ہے کہ: ’’یہ شخص آیاتِ الہٰی و شریعتِ اسلام پر لعن کیا کرتا تھا اور اِس کے یہ کلماتِ کفریہ بہت مختصر، بدتر اور ذلیل تر ہیں۔اِس شخص کی جہالت اِس کے کلام میں ظاہر ہوتی ہے جو بے ہودہ گوئی‘ بے وقوفی اور ملاوٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اِس کا کلام اِس لائق نہیں کہ اِس پر کچھ توجہ دی جائے اور اِس شخص کی طرف مسخرہ پن، استحقار کفر اور کبائر سے متعلق قصے بھی منسوب ہوئے ہیں جن میں مفروضہ قسم کی باتیں بھی شامل ہیں۔ یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج اور منافق ہے جبکہ وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔[5]

تصانیف ترمیم

اپنی ادبی زندگی کے ابتدا میں ابن الراوندی معتزلی مسلک کا پیرو تھا۔ چنانچہ اُس کی معتزلی تصانیف کے بعض حصوں سے اِس کے خیالات کی قوت و جِدَّت کا اندازہ ہوتا ہے (یہ اِقتباسات الاشعری کی مقالات اسلامیین میں محفوظ ہیں)۔ معتزلہ کا میدان ابن الراوندی کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا اور بعد ازاں جب اُسے معتزلیوں نے اِس فرقے سے خارج کر دیا تو اُس نے اپنے قدیمی رفقا پر حملہ کرنا شعار بنا لیا۔ اولاً وہ شیعہ مذہب سے منسلک ہو گیا اور تشیع کے چوٹی کے علما میں شمار ہونے لگا۔ بعد ازاں ایک ملحد ابو عیسیٰ الورَّاق کے زیر اثر ہو گیا جو اِس کا مصاحب بن گیا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِس نے آزاد خیالی اِختیار کرتے ہوئے ملحدانہ کتب تحریر کرنا شروع کر دیں جن میں نہ صرف اسلام بلکہ دوسرے ادیان پر بھی حملے کیے گئے تھے۔ [6] ابن کثیر نے اِس کی تصانیف کی تعداد 114 بتائی ہے۔[7]

وفات ترمیم

ابوعیسیٰ الورَّاق جو ابن الراوندی کا مصاحبِ خاص سمجھا جاتا تھا، وہ بھی آخری ایام میں اِس کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچا۔ جب لوگوں نے دونوں کا حال اچھی طرح جان لیا تو سلطان کو خبر دے کر دونوں کو بلوایا گیا۔ چنانچہ ابوعیسیٰ الورَّاق کو جیل میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ وہ اِسی جیل میں مرگیا۔ ابن الراوندی نے جیل سے فرار ہوکر ابن لاوی یہودی کے پاس جا کر پناہ لے لی اور رہیں رہتے ہوئے اِس نے ایک کتاب ’’ الدامغ للقرآن‘‘ لکھی اور اِس کے چند دِن بعد ہی 298ھ میں مرگیا۔ بقول ابن کثیر، اِسے صلیب دی گئی تھی مگر دوسری کتب میں اِس کا تذکرہ موجود نہیں۔ ابوالوفاء ابن عقیل نے کہا ہے کہ:’’ میں نے اِنتہائی معتبر و محقق کتاب میں لکھا ہوا پایا ہے کہ وہ اپنی مختصر زندگی میں اِتنی ساری بے ہودگیوں کے بعد بھی چھتیس سال تک زندہ رہا، اللہ اِس پر لعنت کرے اور برا کرے اور اِس پر رحم نہ کرے‘‘۔[8]

سال وفات میں اختلاف ترمیم

مختلف کتبِ تواریخ میں ابن الراوندی کی تاریخِ وفات مختلف طرح سے درج ہے۔ مؤرخ ابوعلی الحسین المسعودی نے لکھا ہے کہ: ’’ اِس نے تیسری صدی ہجری کے وسط میں چھتیس یا چالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔ بعض مؤرخین کا بیان ہے کہ وہ تیسری صدی ہجری کے اواخر تک زندہ تھا۔ابن خلکان نے اِس کا سالِ وفات 245ھ لکھا ہے مگر بقول ابن کثیر‘ یہ سراسر وہم ہے۔ صحیح سالِ وفات 298ھ ہی ہے جسے ابن جوزی نے لکھا ہے۔ مؤرخ علامہ ابن کثیر نے ابن الراوندی کا سالِ وفات 298ھ لکھا ہے اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔[9][10]

حوالہ جات ترمیم