ابوالغازی بہادُر خان (پیدائش: 24 اگست 1603ء— وفات: 1663ء) وسطی ایشیا کی خان خانیت خیوا کا چغتائی حکمران تھا۔

ابو الغازی بہادر خان
(ازبک میں: Abulgʻozi Bahodirxon ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 24 اگست 1603ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گرکانج   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1664ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خیوا ،  خانیت خیوہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خانیت خیوہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

نام و نسب اور پیدائش ترمیم

بہادر خان شیبانی اُزبکوں کے خاندان میں سے عرب محمد خان کا بیٹا تھا اور اُس کی والدہ بھی اِسی خاندان کی شاہزادی تھی۔ بہادر خان گرکانج میں 16 ربیع الاول 1012ھ مطابق 24 اگست 1603ء کو پیدا ہوا۔ بہادر خان کے والد عرب محمد خان خیوا میں گرکانج کے حاکم تھے۔

تاج و تخت کے حصول کی کوششیں ترمیم

1619ء میں بہادر خان کو اُس کے والد نے کاث شہر میں اپنا نائب مقرر کیا لیکن چند روز کے بعد اپنے دو بیٹوں کی سرکشی کے استیصال میں عرب محمد خان جاں بحق ہو گیا تو بہادر کان کو مجبوراً سمرقند میں امام قلی خاں کے پاس پناہ لینا پڑی۔ بعد ازاں طویل جنگ کے بعد وہ اور اُس کا بھائی اسفندیار باہم متحد ہوکر بعض ترکمانی قبائل کی مدد سے اپنے سرکش بھائیوں کو حکومت سے برطرف کردینے میں کامیاب ہو گئے۔ 1623ء میں وہ گرکانج میں اپنے بھائی کا نائب مقرر ہوا لیکن بعض ترکمانی قبائل سے اختلاف کے باعث وہ اپنے بھائی سے جھگڑ پڑا اور اِس جھگڑے کا نتیجہ برا نکلا اور وہ 1626ء میں ناچار حالت میں تاشقند فرار ہوا جہاں اُس نے دو سال قازق دربار (Kazakhs) میں بسر کیے۔ خیوا کا تخت و تاج حاصل کرنے کی ایک مزید کوشش کے بعد وہ بحالت جلاوطنی میں دس سال تک صفویوں کے پاس ایران میں مقیم رہا۔ اِس دور میں بہادر خان کا قیام زیادہ تر اصفہان میں رہا جہاں اُس نے اُن معلومات کو فارسی ماخذوں کے ذریعے اور زیادہ تر وسیع کیا جو اُس نے قازقوں کے دربار میں اپنی قوم کے ماضی کے متعلق حاصل کی تھیں۔[1]

دور حکومت ترمیم

1642ء میں حاکم خیوا اسفندیار کے انتقال کے بعد بہادر خان خیوا کا حاکم بن گیا۔ خان خیوا کی حیثیت سے اُس نے روس کے ساتھ ساتھ دوسرے ہمسایہ ممالک سے بھی سفارتی تعلقات قائم رکھے حالانکہ اِن سفارتی تعلقات میں بار بار کی جنگوں سے خلل اندازی بھی واقع ہوتی رہی۔ ترکمان قبائل کے خلاف 1644ء، 1646ء، 1648ء، 1651ء اور 1653ء کی مسلسل مہمات کے نتیجے میں قرہ قوم اور منغیشلاق کے بعض قبائل نے بہادر خان کی اِطاعت قبول کرلی۔ 1649ء، 1653ء اور 1656ء میں اُس کے قلمقوں کے خلاف صف آرائی جاری رہی۔ 1655ء اور 1662ء میں وہ بخارا کے خلاف محاذ آرائی میں شریک رہا۔کبھی کبھی وہ اُن روسی قافلوں کو بھی جو اُس کے علاقوں سے گزرتے تھے، لوٹ لینے کی اجازت دے دیتا تھا مگر پھر کسی اور بنا پر نہیں تو اپنے ملک کے تجارتی مفاد ہی کے پیش نظر اِس قسم کی لوٹ مار کا ہرجانہ بھی اداء کردیتا۔ باقی تمام اُمور میں وہ اپنے ملک و سلطنت کی بہبود کی خاطر علم و ہنر کی ترقی میں کوشاں رہا۔ عسکری صلاحیتیں جو معمولی درجے کی تھیں، اُس نے خود سے منسوب کی ہیں جن کا ثبوت اُس کی تاریخی کتب سے بھی ملتا ہے۔[2][1]

وفات ترمیم

1663ء میں بہادر خان 60 یا 61 سال کی عمر میں خیوا میں انتقال کرگیا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 535۔
  2. Notice sur le Ms. de la premiere traduction de la: Chronique d' Abulghasi- Behader، جلد 3، مطبوعہ 1889ء