ابوالفتوح الرازی یا جمال الدین حسین بن علی نیشابوری رازی (پیدائش: 1087ء— وفات: 1157ء) شیعی، عالم، محدث و مفسر تھے۔ وہ شیعی محدثین شیخ ابوجعفر محمد بن علی بن بابویہ القمی، ابن شہر آشوب اور ابوحمزہ طوسی کے اُستاد تھے۔

ابو الفتوح الرازی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1087ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رے   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1157ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رے   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ
سلجوقی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص شیخ صدوق ،  ابن شہر آشوب   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  مفسر قرآن ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل الٰہیات ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں روض الجنان و الروح الجنان   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

نام و نسب

ترمیم

ابو الفتوح کا دعویٰ تھا کہ اُن کا تعلق بدیل بن ورقا، صحابی ٔ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ہے۔ ابو الفتوح کے جد نافع بن بدیل بن ورقا تھے۔ نسب کے اعتبار سے تعلق قبیلہ بنو خزاعہ سے تھا۔[1] اُن کے خاندان کے تمام افراد صاحبان علم و فضل ہیں اور انھیں معروف خاندان اور سلسلہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔[2]

سال پیدائش

ترمیم

ابو الفتوح کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی حوالہ یا تذکرہ کسی کتاب سے دستیاب نہیں ہو سکا البتہ قرائن و آثار کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ 480ھ مطابق 1087ء کے قریب قریب پیدا ہوئے ہوں گے۔ مقام پیدائش رے ہے۔ الششتری صاحب مجالس المؤمنین کے قول کے مطابق ابو الفتوح علامہ ابو القاسم محمود الزمخشری کے معاصرین میں سے تھے۔ علامہ ابو القاسم محمود الزمخشری کی وفات 12 جون 1144ء کو ہوئی ۔

شیوخ

ترمیم

ابو الفتوح نے جن شیوخ سے علم حاصل کیا، وہ یہ ہیں:

  • علی بن محمد نیشابوری رازی؛ ابو الفتوح رازی کے والد اور مسائل المعدوم و دقائق الحقایق جیسی کتابوں کے مولف۔
  • عبد الرحمن بن احمد خزاعی نیشابوری؛ مفید ثانی کے نام سے معروف۔
  • شیخ عبد الجبار بن مقری رازی؛ مفید رازی کے نام شے مشہور۔
  • قاضی حسن استر آبادی۔
  • سید ابو صمصام ذو الفقار۔
  • شیخ ابو علی حسن بن محمد طوسی؛ شیخ طوسی کے فرزند۔[3]
  • علامہ ابو القاسم محمود الزمخشری : ابوالفتوح رازی کے غیر شیعہ استاد اور تفسیر کشاف کے مولف ہیں۔ ابو الفتوح نے اپنی تفسیر میں انھیں اپنے استاد کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[4]

مقام علمیت

ترمیم

ابو الفتوح اپنے زمانہ کے بعض متداول علوم میں استاد کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی تفسیر ان کے علم نحو، قرات، حدیث، فقہ، اصول فقہ و تاریخ میں تبحر اور مہارت کو بیان کرتی ہے۔[2]

  • محمد باقر خوانساری، حسین بن علی خزاعی جو ابو الفتوح رازی کے نام سے مشہور ہیں، کو فارسی کی مشہور تفسیر کا مولف، تفسیر و علم کلام کے بارز علما، ادب کے ماہر ترین و بزرگ ترین علما اور علم حدیث کے بلند پایہ راویوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔[5]
  • مرزا حسین نوری طبرسی (متوفی یکم اکتوبر 1902ء) ان کے بارے میں کہتے ہیں: استاد و پیشوائے مفسرین، کلام الہی کے ترجمان، جمال الدین ابو الفتوح حسین بن علی خزاعی رازی، مشہور بہ ابو الفتوح رازی دانشمند فاضل، فقیہ مفسر اور ادیب خبیر تھے اور کسب علم میں کمال کی منزلوں پر فائز تھے۔[6]

وعظ و خطابت

ترمیم

ابو الفتوح اہل منبر تھے اور اس سے قلبی لگاو رکھتے تھے یہاں تک کہ ان کے اس ذوق کا آشکارا اثر ان کی تفسیر میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی مجالس اور خطابت مقبول عام تھی اور ایک خاص موقعیت کی حامل تھی جس پر بعض لوگ رشک کرتے تھے۔ حاسدوں کی بدگوئی کی وجہ سے وہ کچھ عرصہ اس سے محروم رہے۔[2]

شاگرد

ترمیم
  • ابن شہر آشوب، کتاب مناقب آل ابی طالب کے مولف۔
  • شیخ منتجب الدین رازی؛ کتاب الفہرست کے مولف۔
  • ابن حمزه طوسی
  • تاج الدین محمد بن :  حسین ابو الفتوح رازی کے فرزند۔[3]

تصانیف

ترمیم
  • تفسیر روض الجنان و روح الجنان؛ یہ کتاب، ابوالفتوح رازی کی سب سے مشہور تالیف ہے۔
  • روح الاحباب و روح الالباب فی شرح الشہاب؛ یہ کتاب، شہاب الأخبار کی شرح یے جس کے شارح قاضی قضاعی شافعی ہیں اور اس کا موضوع حکم، مواعظ و واقعات پیغمبر اکرم (ص) ہیں۔
  • رسالہ یوحنا؛ یہ کتاب یوحنا نامی ایک عیسائی نے لکھی ہے۔ اس کا موضوع امامت ہے۔
  • تبصرة العوام فی معرفة مقالات الانام؛ ابو الفتوح نے اس کتاب میں حسین بن منصور حلاج کے افکار پر تنقید کی ہے اور اس کے دیگر ابواب میں شیعوں پر کیے جانے والے بیجا اعتراضات کا جواب دیا ہے اور تشیع کا دفاع کیا ہے۔
  • مناظره حسنیہ؛ اس میں حُسنیہ نامی ایک لڑکی کے مناظرات ہیں جو ہارون الرشید کی معاصر تھی۔ یہ کتاب فارسی میں ہے اور اہل سنت کے رد میں لکھی گئی ہے۔ یہ بارہا علامہ مجلسی کی کتاب حلیۃ المتقین کے ساتھ یا بطور مستقل شائع ہوئی ہے۔
  • منہاج المناہج؛ اس کتاب میں مذاہب اربعہ و اثبات امامت پر تحقیق کی گئی ہے۔
  • رساله اجازه
  • تفسیر؛ عربی زبان میں۔

وفات

ترمیم

اُن کی خود نوشت تحریر کے مطابق، جو قطعہ وفات کی صورت میں موجود ہے اور جسے ریاض العلماء نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے، وہ 552ھ تک زندہ تھے اور ان کی وفات سن 552ھ یا 556ھ میں ہوئی ہے۔انھیں ان کی وصیت کے مطابق انھیں رے شہر میں حمزہ بن موسیٰ بن جعفر کے صحن میں عبد العظیم حسنی کے مزار میں دفن کیا گیا۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابوالفتوح الرازی: روض الجنان و الروح الجنان فی تفسیر القرآن، جلد 5، صفحہ 148، ذیل آیت 25، سورہ فتح۔ مطبوعہ نشر آستانِ قدس رضوی، مشہد۔
  2. ^ ا ب پ عرب زاده، شرح حال ابو الفتوح رازی ، 1384 شمسی ہجری،  شمارہ  94۔
  3. ^ ا ب محمد بن حسن امین العاملی: اعیان الشیعہ، جلد 6، صفحہ 125۔ مطبوعہ دارالتعارف، بیروت، 1414ھ
  4. منتجب الدین الرازی: روض الجنان، جلد 16، صفحہ 170، ذیل آیت 80، سورہ یٰس۔ مطبوعہ انتشارات مرعشی نجفی، قم، 1366 شمسی ہجری۔
  5. محمد باقر خوانساری: روضات الجنات، جلد 2، صفحہ 314۔ مطبوعہ قم، ایران
  6. مرزا حسین نوری طبرسی : خاتمہ مستدرک الوسائل،جلد 3، صفحہ 72۔ مطبوعہ قم، 1415ھ
  7. محمد بن حسن امین العاملی: اعیان الشیعہ، جلد 6، صفحہ 124۔ مطبوعہ دارالتعارف، بیروت، 1414ھ