ابو بکر بن علی کا نام کربلا کے شہیدوں میں سے شمار کیا گیا ہے ۔ آپ کے والد حضرت علی ؑ اور والدہ کا نام لیلی بنت مسعود بن خالد تمیمی ہے۔بعض منابع میں روز عاشورا حضرت علی کی اولاد میں سے آپ کو پہلا شہید شمار کیا گیا ہے ۔

ابو بکر بن علی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 658ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ ،  خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 اکتوبر 680ء (21–22 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کربلا ،  سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سانحۂ کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن روضۂ امام حسين   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی بن ابی طالب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعارف

ترمیم

بعض نے آپ کا نام " عبد اللہ "[1] اور بعض نے "عبید اللہ "[2] لکھا ہے جبکہ بعض " محمد اصغر" کہتے ہیں[3] ۔قول مشہور کی بنا پر آپ کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود نہشلی ہے[4] اور ایک قول کی بنا پر فاطمہ بنت حزام کلبی ام البنین بھی مذکور ہوا ہے[5] ۔


شہادت

ترمیم

بعض تاریخ کتب نے انھیں کربلا کے شہیدوں می سے شمار کیا ہے[6] جبکہ طبری ، ابو الفرج اصفہانی ،ابن شہر آشوب ان کی کربلا میں شہادت کے متعلق مشکوک ہیں[7]۔ شیخ مفید نے ان کا نام کربلا کے شہیدوں میں ذکر کیا ہے لیکن ابوبکر کو محمد اصغر کی کنیت کہا ہے[8] ۔ محمد الباقر سے ایک حدیث ہے جس کے مطابق قبیلہ حمدان کے ایک شخص نے انھیں شہید کیا تھا۔ ان کی قبر شہداء ہاشمی کی اجتماعی قبر میں امام حسین علیہ السلام کے مزار کے قریب ان کے مدفن میں واقع ہے۔ ابوبکر بن علی کا ذکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں سے ہے۔[9]


بعض نے انھیں حضرت علی کی اولاد میں سے پہلا شہید کہا ہے جو اجازت لینے کے بعد میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے [10]۔امام باقر ؑ کی روایت کے مطابق ہمدان قبیلے کے شخص نے انھیں شہید کیا ہے[11]۔ ایک اور نقل کے مطابق زجر بن قیس غنوی ان کا قاتل ہے[12] جبکہ بعض نے کہا ہے کہ ان کی نعش پانی کے ایک نالے میں پائی گئی اور ان کا قاتل نا معلوم شخص ہے[13] ۔بعض نے ان کا مدفن "گنج شہدا" کہا ہے [14]۔ تاریخی مستندات میں ان کی اولاد مذکور نہیں ہے [15]۔

زیارت ناحیہ

ترمیم

السَّلَامُ عَلَیک یا أَبَا بَکرٍ بْنَ عَلِی بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ مَا أَحْسَنَ بَلَاءَک وَ أَزْکی سَعْیک وَ أَسْعَدَک بِمَا نِلْتَ مِنَ الشَّرَفِ وَ فُزْتَ بِهِ مِنَ الشَّهَادَةِ فَوَاسَیتَ أَخَاک وَ إِمَامَک وَ مَضَیتَ عَلَی یقِینِک حَتَّی لَقِیتَ رَبَّک صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیک وَ ضَاعَفَ اللَّهُ مَا أَحْسَنَ بِهِ إِلَیک[16]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابن اعثم، الفتوح، ج 5، ص 112؛ المجدی، ص 15
  2. وسیلہ الدارین، ص 255؛ اعیان الشیعہ، ج 2، ص 302
  3. التنبیہ و الاشراف، ص 275؛ الارشاد، ج 1 ص 254
  4. الطبقات الکبری، ج 3، ص 14؛ المعارف، ص 210؛ رجال طوسی، ص 81، المنتظم، ج 5، ص 69
  5. الامامہ و السیاسہ، ج 2، ص 6؛ العقد الفرید، ج 4، ص 385
  6. تاریخ خلیفہ، ص 145؛ المنتظم، ج 5، ص 69؛ الکامل ابن اثیر، ج 4، ص 92؛ لباب الانساب، ج 1، ص 399
  7. تاریخ طبری، ج 5، 154؛ مناقب، ج 4، ص 122؛ مقاتل الطالبین، ص 86
  8. الارشاد، ج 1، ص 355
  9. Bayhaqī (2000)۔ Al Lubab Fi Tahdhib Al Ansab۔ دار الكتب العلمية۔ ج 1۔ ص 399۔ ISBN:978-2745126832
  10. ابن اعثم الفتوح، ج 5، ص 112؛ اعیان الشیعہ، ج 2، ص 302
  11. مقاتل الطالبین، ص 86؛ لباب الانساب، ج1، ص 399
  12. الارشاد، ج 1، ص 355؛ ابن اعثم، الفتوح، ج 5، ص 112
  13. مقاتل الطالبین، ص 86
  14. لباب الانساب، ج 1، ص 399
  15. الطبقات الکبری، ج 3، ص 14؛ تاریخ یعقوبی، ج 3، ص 213
  16. بحار الانوار، ج 98، ص 245

مآخذ

ترمیم
  • منبع اصلی: نگاہی نو بہ جریان عاشورا: ص 130ـ129.

سانچہ:کالم-شروع

  1. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار،‌دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1403ق.
  2. ابن اعثم کوفی، تحقیق علی شیری، ج 5، چاپ دوم: بیروت، دارالاضواء، 1411ق.
  3. مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، ترجمہ ابو القاسم پاینده، چاپ دوم: تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1356ش.
  4. شیخ مفید، الارشاد، موسسہ آل البیت، ج 1، چاپ اول: قم، انتشارات الموتمر العالمی، 1413ق.
  5. ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق عبد القادر عطا، ج 3، چاپ دوم: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1418ق.
  6. دینوری، ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، چاپ ششم، الهیئۃ المصریۃ للکتاب.
  7. شیخ طوسی، رجال، چاپ اول: نجف، المکتبۃ الحیدریہ، 1380ق.
  8. ابن جوزی، المنتظم، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر، ج 5، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1412ق.
  9. دینوری، ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، تحقیق علی شیری، ج2، چاپ اول: بیروت، دارالاضواء، 1410ق.
  10. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقق محمد ابوالفضل ابراہیم، ج 5، بیروت، بی‌تا.
  11. ابن فندق، لباب الانساب، تحقیق مہدی رجایی و محمود مرعشی، ج1، چاپ اول: کتابخانہ آیت الله مرعشی، 1410ق.
  12. یعقوبی، احمد بن واضح، تاریخ یعقوبی، ج2، چاپ ششم: بیروت، دارصادر، 1415ق.