امام ابوداؤد طیالسی (پیدائش: 750ء— وفات: 819ء) عالم، محدث ، حافظ الحدیث اور فقیہ تھے۔

ابو داؤد طیالسی
(عربی میں: أبو داود الطَّيالسي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: سُليمان بن داود الطَّيالسي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 750ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 819ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ وضاح بن عبد اللہ یشکری،  حماد بن سلمہ،  حماد بن زید،  سفیان ثوری،  مالک بن انس  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص احمد بن حنبل،  عمرو بن علی الفلاس،  علی بن مدینی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مسند ابوداؤد طیالسی  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

نام و نسب ترمیم

امام ابوداؤد طیالسی کا نام سلیمان بن داؤد ابن الجارُود ہے ۔ امام ابوداؤد فارسی الاصل تھے لیکن بعد ازاں بصرہ میں سکونت کی نسبت سے البصری مشہور ہوئے۔طیالسی کی نسبت ’’طیالسہ‘‘ سے ہے یعنی وہ سبز چادر جسے علما جبے کے طور پر لباس کے اوپر زیب تن کیا کرتے تھے۔ اِس نام سے اُن کے لباس میں شامل سبز چادر یعنی طیالسہ کا بیان ملتا ہے۔[1]حافظ الکبیر، صاحب المسند، ابوداؤد الفارسی کے القابات سے مشہور تھے۔[2] امام ابوداؤد زبیر بن العوام کی اولاد کے غلام تھے اور مولیٰ آل الزبیر بن العوام کہلاتے تھے۔ابن المغلابی نے بیان کیا ہے کہ امام ابوداؤد کی والدہ کا خاندان بنونصر بن معاویہ کا غلام تھا۔[3][4]

پیدائش ترمیم

سال پیدائش کے متعلق مؤرخین کا اِتفاق ہے کہ امام ابوداؤد 133ھ مطابق 750ء میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔

تحصیل علم و حدیث ترمیم

بصرہ میں ہی تحصیل علم میں مشغول رہے۔ بصرہ میں ابن عون محدث (متوفی 151ھ) سے حدیث کا علم حاصل کیا۔ [5][6][7] محدث ہشام الدستوائی (متوفی 152ھ) سے بھی علم حدیث پڑھا۔[8] 157ھ میں عبد الرحمٰن بن عبد اللہ المسعودی سے سماع حدیث کیا۔ اُن کے بارے کہا جاتا ہے کہ انھیں 40000 احادیث یاد تھیں۔ [9]

شیوخ ترمیم

امام ابوداؤد نے جن شیوخ (اُساتذہ) سے علم حاصل کیا، وہ یہ ہیں:  ایمن بن نابل (تابعی)،  معروف بن خربوذ،   طلحہ ابن عمرو،  ہشام بن ابی عبد اللہ،  شعبہ بن الحجاج،  سفیان ثوری،  بسطام بن مسلم،  ابوخلدہ خالد بن دینار،   قُرہ بن خالد،   سالح بن ابی الاخضر،  ابوعامر الخزاز،  حمادین،  داؤد بن ابی الفرات،  زَمعہ بن صالح،  جریر بن حازم،  فُلَیح بن سلیمان،  المسعودی،  حرب بن شداد،  ابن ابی ذئب،  عبد الرحمٰن بن ثابت ابن ثوبان،  اسرائیل،  ھمام بن یحییٰ،  محمد بن ابی حُمَید،  عبد اللہ ابن مبارک،  امام ابن عینیہ،  ابن عون۔[10]

تلامذہ ترمیم

امام محمد بن اسماعیل بخاری (متوفی 256ھ مطابق 870ء) نے اپنے مجموعہ حدیث صحیح بخاری میں اِن سے روایت کی ہے۔[11] امام ابوداؤد سے جن مشہور تلامذہ نے روایت کی ہے، وہ یہ ہیں:

جریر بن عبد الحمید (یہ امام ابوداؤد کے اُستاد بھی تھے)، احمد بن حنبل (فقہ حنبلی کے مؤسس و اِمام)، عمرو بن علی الفَلَّاس، محمد بن بشار، یعقوب الدورقی، محمد ابن سعد کاتب بغدادی، عباس الدُوری، احمد بن ابراہیم الدورقی، احمد بن الفرات، الکُدَیمی، ہارون بن سلیمان، محمد بن اسد المدینی شیخ ابی شیخ۔[10]

وفات ترمیم

204ھ میں 68 یا 69 سال شمسی کی عمر میں بصرہ میں فوت ہوئے۔ خلیفہ بن خیاط نے وفات ماہِ ربیع الاول 204ھ مطابق ستمبر 819ء لکھی ہے۔

تصانیف ترمیم

مسند ابوداؤد طیالسی جو امام ابوداؤد کی جانب سے معروف و مشہور ہے، یہ دراصل اِن کی اپنی مرتب کردہ کتاب نہیں ہے بلکہ خراسانی علما میں سے کسی نے یہ مجموعہ ٔ احادیث ترتیب دیا تھا۔ یہ مرویات امام ابوداؤد سے یوسف بن حبیب نے روایت کی تھیں۔ کاتب چلبی نے کشف الظنون میں لکھا ہے کہ: ’’ھو اَول من صنف فی المسانید‘‘ کہ سب سے پہلی مسند انھوں نے مرتب کی، درست نہیں۔ اِس مجموعے کے علاوہ امام ابوداؤد کی مزید اَور بھی مرویات ہیں جن میں سے اکثر کا ذِکر البقاعی نے الالفیہ کے حاشیہ میں کیا ہے۔ مسند ابوداؤد طیالسی پہلی بار حیدرآباد دکن سے 1321ھ میں شائع ہوئی تھی۔یہ مسند کی ترتیب پر ہے، صحابہ کی مرویات علاحدہ علاحدہ، اب ابواب فقہ کی ترتیب سے بھی چھپ گئی ہے، اس میں بعض ایسی احادیث ہیں جواور کتابوں میں نہیں ملتیں، اس پہلو سے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. السمعانی: الانساب،  جلد 9،  صفحہ 113۔
  2. شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 9، صفحہ 387۔
  3. خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، جلد 9، صفحہ 24۔
  4. تہذیب الکمال:  جلد 11،  صفحہ 401۔
  5. شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 1، صفحہ 271۔
  6. جلال الدین سیوطی: طبقات الحفاظ، صفحہ 69۔
  7. التذکرہ:  جلد 1،  صفحہ 352۔
  8. جلال الدین سیوطی: طبقات الحفاظ، صفحہ 84۔
  9. الرسالہ المستطرفہ ،مؤلف: أبو عبد الله جعفر الكتانی، ناشر: دار البشائر الإسلامیہ
  10. ^ ا ب شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 9، صفحہ 380۔
  11. شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 9، صفحہ 384۔