الازہریابو منصور محمد بن احمد بن الازہر بن طلحہ الازہری الہروی الشافعی (پیدائش: 895ء — وفات: 980ء) عرب ماہر لغت، فقیہ اور عالم تھا۔

ابو منصور الازہری
(عربی میں: أبو منصور الأزهري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 895ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 980ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ماہرِ لسانیات ،  مفسر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل لسانيات ،  عربی ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی حالات

ترمیم

پیدائش

ترمیم

الازہری کی پیدائش 282ھ مطابق 895ء میں ہرات میں ہوئی اور اِسی نسبت سے اُسے الہروی بھی کہا جاتا ہے۔ الازہری کی ابتدائی زندگی کے حالات نہیں ملتے البتہ اُس کے اساتذہ کے متعلق مختلف کتب میں تفصیلات ملتی ہیں۔ الازہری اپنے ایک ہم وطن محمد بن جعفر المُنذِرِی (متوفی: 329ھ مطابق 940ء) کا شاگرد تھا جو ماہر لغت (لغوی) تھے۔ علاوہ ازیں ہرات میں حسین بن ادریس اور محمد بن عبد الرحمن السامی جیسے اساتذہ سے بھی تحصیل علم میں مشغول رہا۔

بغداد میں قیام اور تحصیل علم فقہ

ترمیم

الازہری کی عراق آمد کے متعلق شواہد مستند نہیں، تاہم چند حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عین عنفوانِ شباب میں بغداد چلا آیا تھا۔ یاقوت الحموی کے بیان کے مطابق اُس نے بغداد سے علم صرف و نحو کی تحصیل کی، لیکن الزجاج اور ابن درید سے بہت کم استفادہ کیا۔ اگر فقہ شافعی کے فقہا کی فہرست کو صحیح تسلیم کر لیا جائے جسے یاقوت الحموی نے مرتب کیا ہے یا جن کے متعلق فرض کیا جاتا ہے کہ وہ الازہری کے اساتذہ تھے‘ تو یقیناً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ الازہری فقہ شافعی پر عبور رکھتے تھے۔ [1]

بحرین میں قیام

ترمیم

312ھ مطابق 924ء میں الازہری جب مکہ مکرمہ سے کوفہ کی جانب حجاج کرام کے ایک قافلے کے ساتھ واپس آ رہا تھا تو قافلے پر قرامطہ کے الہَہبِیر کے مقام پر حملہ کر دیا اور کچھ لوگوں کو قتل کر ڈالا اور بعض کو قید کر لیا۔اِس زمانے میں فتنہ قرامطہ کا بڑا عروج تھا اور حجاز کے علاقوں پر اُن کا تسلط قائم ہو چکا تھا۔ قرمطیوں نے الازہری کو قیدی بنا کر بحرین لے گئے جہاں وہ دو سال تک بحرین کے اُن بدویوں کے پاس مقیم رہا جنھوں نے قرمطیت اِختیار کرلی تھی۔ یاقوت الحموی اور ابن خلکان کی ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ الازہری کس طرح بدویں کے مابین اپنے قیام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کیسے اُن کی زبان سیکھنے میں کامیاب ہوا جو بقول اُس کے نہایت شستہ تھی۔ تاہم الازہری کی بقیہ زندگی کے متعلق اِس کے علاوہ معلومات یا حقائق نہیں ملتے، البتہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنے وطن ہرات میں مطالعہ اور عزلت میں زندگی بسر کی جہاں وہ آخری دم تک مقیم رہا۔[2][3][4]

وفات

ترمیم

الازہری نے اپنی زندگی کے آخری سال ہرات میں ہی بسر کیے اور 370ھ مطابق 980ء میں تقریباً 84 سال کی عمر میں وفات پائی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. یاقوت الحموی: ارشاد الاریب الی معرفۃ الادیب، جلد 6، صفحہ 197 تا 199، مطبوعہ لائیڈن، 1927ء، مطبوعہ قاہرہ، 1936ء، جلد 17، صفحہ 164 تا 167
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 81۔ مطبوعہ لاہور، 2017ء
  3. یاقوت الحموی: ارشاد الاریب الی معرفۃ الادیب، جلد 6، صفحہ 197 تا 199، مطبوعہ لائیڈن، 1927ء، مطبوعہ قاہرہ، 1936ء، جلد 17، صفحہ 164 تا 167
  4. ابن خلکان: الوافی بالوفیات، جلد 1، صفحہ 501، مطبوعہ قاہرہ، 1310ھ، مطبوعہ قاہرہ، 1948ء، جلد 3، صفحہ 458 تا 462۔