ابوکبشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شریک مہاجر صحابی تھے۔

ابو کبشہ
معلومات شخصیت

نام و نسب ترمیم

سلیم نام، ابوکبشہ کنیت، وطن اور نسب کے بارہ میں مختلف روایات ہیں، بعض فارسی، بعض دوسی اور بعض مکی بتاتے ہیں، ابوکبشہ غلام تھے، محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے خرید کر آزاد کیا۔

اسلام ترمیم

ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور پر نہیں بتایا جا سکتا، شرف غلامی سے قیاس ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلام کے قریب تر زمانہ میں اس شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے۔

ہجرت ترمیم

مکہ کے ارباب ثروت اورصاحب وجاہت مسلمانوں کی عزت و آبرو تک مشرکین کے ہاتھوں محفوظ نہ تھی، ابوکبشہ غلام تھے، ان کا پشت پناہ کون تھا، اس لیے اذن ہجرت کے بعد مدینہ چلے آئے اور کلثوم بن ہدم کے یہاں مقیم ہوئے۔

غزوات ترمیم

مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے بدری ہونے کا شرف حاصل کیا، پھر آپ غزوہ احد اور دوسرے غزوات میں بھی شریک ہوئے تھے۔

مشرکین کی سفاہت ترمیم

کفار قریش محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف طرح طرح کی باتیں کرتے تھے ؛ چنانچہ ایک بیوقوفی یہ بھی تھی؛ کہ آپ کو ابو کبشہ کا بیٹا کہتے تھے، ارباب سیر اس کی مختلف توجیہیں کرتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ قریب قیاس یہ ہے کہ ابو کبشہ کے نانہالی اجداد میں کوئی شخص ابو کبشہ گذرا تھا، جو تمام عرب کے خلاف "شعری" کی پرستش کرتا تھا، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سرے سے بت پرستی کے خلاف آواز بلند کی تھی، اس لیے عربوں کی مخالفت کے اس اشتراک کی بنا پر لوگ کہنے لگے کہ یہ دوسرا اس کا بیٹا پیدا ہوا اور یہ ابو کبشہ اصحابِ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تھے، اس لیے ادھر ڈال دیا کہ محمد ابوکبشہ کے بیٹے ہیں۔

وفات ترمیم

22 جمادی الثانی 13ھ جس دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے وفات پائی۔[1][2][3]

حوالہ جات ترمیم

  1. الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 5صفحہ 320مؤلف: حافظ ابن حجر عسقلانی ،ناشر: مکتبہ رحمانیہ لاہور
  2. اصحاب بدر،صفحہ 128،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  3. اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 98حصہ ہشتم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور