بڑی بڑی مساجد میں عبادات اور تعلیم و تربیت کے اجتماعی نظم کے ساتھ ہزاروں معتکفین کا اعتکاف کرنا اجتماعی اعتکاف کہلاتا ہے۔

شرعی حیثیت ترمیم

معتکفین کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی جمہور علما کرام نے انفرادی عبادات کی طرح بالعموم مشروع، جبکہ بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ مشروع اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ ان اُمور میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔ جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ مثلاً درس و تدریس، علما کا دینی امور میں مناظرہ و مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ تو ایسے امور بھی فقہ حنفی اور فقہ شافعی کی رو سے معتکفین کے لیے شرعاً جائز قرار دیے گئے ہیں۔ [1] [2] [3] [4] [5]

 
مسجد نبوی میں اجتماعی اعتکاف کا منظر

عوام الناس کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے پچھلے کچھ عرصہ سے بہت سی جماعتیں اجتماعی اعتکاف کے رجحان کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس حوالے سے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے اجتماعی اعتکاف کے جواز کا فتوی دیا ہے:

اگر کوئی متبع سنت شیخ اپنے مریدین اور متعلقین کے ساتھ ماہ رمضان میں کسی جگہ مجتمع ہو جائیں؛ تاکہ اعتکاف کے ساتھ ساتھ مریدین کی اصلاح وتربیت بھی ہوجائے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جائز ہے۔۔۔ اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کے خاطر کسی متبع سنت شیخ کی نگرانی اور ان کی تربیت میں اعتکاف کے لئے سفر کرتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر اس طرح کی کوئی مصلحت نہ ہو تو اپنے محلہ ہی میں اعتکاف مناسب ہے۔[6]

اجتماعی اعتکاف کے حوالے سے منہاج القرآن کے دارالافتاء کا فتوی بھی جواز پر مبنی ہے:

ایسا اجتماعی اعتکاف جائز ہے جہاں درس قرآن اور درس حدیث بھی ہوتے ہیں، ہمہ وقت پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور تجویدِ قرآن کے حلقات بھی منعقد ہوتے ہیں، دروسِ فقہ بھی ہوتے ہیں، حلقہ ہائے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں، درس فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ [7]

حرمین شریفین ترمیم

دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف حرمین شریفین (مسجد الحرام اور مسجد نبوی) میں منعقد ہوتا ہے، جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں معتکفین اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری 10 دنوں میں تقریباً ایک لاکھ نمازی دونوں مقدس مساجد یعنی مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں اعتکاف کرتے ہیں۔[8] کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے پچھلے دو سالوں سے حرمین شریفین میں اعتکاف معطل تھا۔ دو سال کے وقفے کے بعد سال 2022ء میں حج و عمرہ کی طرح مسجد الحرام میں اعتکاف پر بھی پابندی ہٹا دی گئی ہے۔[9]

منہاج القرآن ترمیم

 
تحریک منہاج القرآن کا شہر اعتکاف

تحریک منہاج القرآن کے تحت جامع المنہاج میں ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شہر اعتکاف آباد ہوتا ہے۔ 1992ء میں ٹاؤن شپ میں واقع جامع المنہاج میں منعقدہ اجتماعی اعتکاف میں معتکفین کی تعداد 1500 تھی۔ 1992ء سے معتکفین کی تعداد سال بہ سال بڑھتی گئی جو 2019ء میں 20 ہزار تک پہنچ گئی۔ دنیا کے تقریباً 25 ممالک سے عاشقانِ رسول شہر اعتکاف میں شریک ہوتے ہیں۔ اس شہر اعتکاف کا مقصد تعلق باللہ، ربط رسالت، رجوع الی القرآن اور باہمی اتحاد و بھائی چارے کا نظام برپا کرنا ہے، جو تنہا اعتکاف کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ منہاج القرآن کے اجتماعی اعتکاف میں معتکفین کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی روحانی اور علمی معیت میں فہم دین، تصوف اور اصلاح احوال کے حوالے سے آپ کے عالمانہ اور عارفانہ دروس سے استفادہ نصیب ہوتا ہے۔ [10]

دعوت اسلامی ترمیم

دعوت اسلامی کے اوّلین مدنی مرکز گلزار حبیب مسجد (کراچی) میں 1402ھ بمطابق 1982ء میں اجتماعی اعتکاف کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس قادری کے ہمراہ تقریباً 60 افراد نے اعتکاف کیا۔ 2017ء میں کراچی میں دعوت اسلامی کے عالمی مرکز پر تقریباً 7,712 افراد اجتماعی اعتکاف میں شریک ہوئے۔ دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد، تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، صلوٰۃ التوبہ اور صلوٰۃ التسبیح کے نوافل بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ وضو، غسل، نماز اور دیگر ضروری احکام سکھائے جاتے ہیں، مختلف سنتیں اور دعائیں یاد کروائی جاتی ہیں۔ افطار کے وقت رِقت انگیز مناجات اور دعاؤں کے پرکیف مناظر ہوتے ہیں، نیز نماز عصر اور تراویح کے بعد مدنی مذاکروں میں شرکت کی سعادت بھی نصیب ہوتی ہے۔ [11]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم