سقوط اندلس
سقوطِ اندلس (ہسپانوی:Reconquista اور انگریزی: Reconquest) مسیحیوں کی ساڑھے سات سو سال طویل ان کوششوں کو کہا جاتا ہے جو انھوں نے جزیرہ نما آئبیریا سے مسلمانوں کو نکالنے اور ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے کیں۔ مسیحی ہسپانوی اسے استرداد (انگریزی: Recovery)کہتے ہیں۔ 8 ویں صدی میں استرداد کا آغاز 722ء میں معرکہ کوواڈونگا سے جبکہ اختتام 1492ء میں سقوط غرناطہ کے ساتھ ہوا۔
1236ء میں محمد بن الاحمر کی زیر قیادت اسپین میں مسلمانوں کے آخری مضبوط گڑھ غرناطہ کو قشتالہ کی مملکت کی ملکہ کا خاوند فرڈیننڈ سوم کے ہاتھوں شکست ہوئی اور غرناطہ اگلے 250 سالوں تک مسیحی سلطنت کا باجگذار بنا رہا۔ 2 جنوری 1492ء کو آخری مسلم حکمران ابو عبداللہ محمد نے فرڈیننڈ اور ملکہ آئزابیلا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جس کے نتیجے میں متحدہ رومن کیتھولک قوم وجود میں آئی۔
سقوطِ مسلم پرتگال 1249ء میں افونسو سوم کی جانب سے الغرب کی شکست کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔
تاریخ
ترمیمجب گیارویں صدی عیسوی کے اوائل میں خلافتِ قرطبہ کا زوال ہوا تو چھوٹی چھوٹی جانشین ریاستوں کا ایک سلسلہ سامنے آیا جس کو طوائف الملوکی جانا جاتا تھا۔ شمالی مسیحی ریاستوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور اندلس کی طرف پڑ گئے۔ انھوں نے خانہ جنگی کو فروغ دیا ، کمزور طائفہ جات کو ڈرایا اور انھیں تحفظ دلانے کے لیے مسلمانوں سے بڑے بڑے محصول جمع کیے ۔
بارہویں صدی عیسوی میں ایک مسلم بغاوت کے بعد ، جنوبی جزیرہ نما آبیریا میں مسلمانوں کے عظیم شہروں ایک کے بعد ایک تیرویں صدی میں معرکۂ عقاب (1212ء) کو ہارنے کے بعد ، سب مسیحیوں کے قبضے میں آئے۔ قرطبہ 1232ء میں اور اشبلیہ کی بندرگاہ 1248 میں مسیحی عساکر نے تسخیر کی۔ مسلمانوں کے قبضے میں صرف جنوب میں ایک ہی کمزور محصول گزار ریاست مملکتِ غرناطہ رہ گئی تھی جو ڈھائی سو سال تک آزاد رہی۔
1492ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد ، تمام جزیرہ نما آبیریا میں مسیحی حکمرانوں کے زیر کنٹرول تھا۔ اس قبضے کے بعد سلسلہ وار (1499ء–1526ء) کلیسا کے پادریوں نے ہسپانیہ کے مسلمانوں کو مذہبی تبدیلی پر زبردستی کیا گیا ، جنہیں بعد میں 1609 میں شاہ فلپ سوم کے فرمانوں کے ذریعہ یورپ کا جزیرہ نما آبیریا سے سب کے سب شمالی افریقہ کی طرف بے دخل کردیے گئے۔
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر سقوط اندلس سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |