اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

اسلامی قانون کے مطالعہ و تشریح اور اجتماعی اجتہاد کا ادارہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا (آئی ایف اے) 1989ء میں قائم ہونے والا نئی دہلی کا ایک فقہی ادارہ ہے۔ 1990ء میں یہ چیریٹی ٹرسٹ کے طور پر درج رجسٹر تھا۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اس کے بانی تھے اور وہی تاوفات اس کے پہلے صدر رہے۔[1] اکیڈمی ایک درج رجسٹر این جی او ہے، جس کے بعد سے وہ تحقیقاتی تنظیم کے طور پر کام کررہی ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
ملک بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صدر دفتر نئی دہلی
تاریخ تاسیس 1989 (35 برس قبل) (1989)
بانی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی   ویکی ڈیٹا پر (P112) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسم فقہ اکیڈمی (اجتماعی اجتہاد کا معاصر ادارہ)
بانی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی
صدر نعمت اللہ اعظمی
جنرل سکریٹری خالد سیف اللہ رحمانی
جدی تنظیم این جی او
باضابطہ ویب سائٹ www.ifa-india.org
متناسقات 28°34′06″N 77°16′53″E / 28.56831°N 77.281309°E / 28.56831; 77.281309   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قیام

ترمیم

اکیڈمی کا قیام 1989ء کے آخر میں ہوا تھا،[2] اس عظیم ادارہ کا قیام اجتماعی اجتہاد اور مسلم امہ کے مسائل پر انفرادی غور و فکر کی بجائے اجتماعی غور و فکر کے لیے بطور متفقہ پلیٹ فارم کے طور پر ہوا تھا، یہ ایک انقلابی قدم تھا جس کے دوررس اثرات ونتائج حاصل ہوئے۔  اس  کے اراکین کا انتخاب ممتاز بزرگ علما اور فقہا میں سے کیا گیا تھا، اسی طرح جدید طب، سماجی علوم، قانون، نفسیات اور معاشیات کے ماہرین وغیرہ کو بھی اس سے جوڑا گیا تھا، تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ اور ملکی وبین الاقوامی سطح پر مسلمانوں بطور خاص مسلم اقلیتوں کے مختلف دینی، سماجی اور معاشرتی و سیاسی مسائل کا اسلامی قانون کی روشنی میں عملی حل پیش کیے جاسکیں۔

مقاصد

ترمیم

ہندوستان میں اسلامی فقہ اکیڈمی کے قیام کا مقصد درج ذیل کچھ اس طرح ہے:

1- اقتصادی، سماجی، سیاسی اور صنعتی تبدیلیوں اور حالیہ پیش رفت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل تک پہنچنا، قرآن و سنت، صحابہ کرام کی آراء اور علما سلف کے اقوال کے مطابق اسلامی فریم ورک کے مطابق۔

2- جدید دور کی ترقی کے حل کی تلاش اور جب حالات میں تبدیلی آئے تو اس پر پرانے مسائل سے تحقیق اور مطالعہ کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا جائے تاکہ معاشرتی تحقیقات کے ذریعے اسلامی فقہ کے اصولوں کی روشنی میں حل تک پہنچا جاسکے۔

3- موجودہ دور میں فقہ اسلامی کے ماخذات، اس کے قواعد و ضوابط اور فقہی نظریات کا مطالعہ، تشریح۔

4- اسلامی فقہ کی جدید اور عصری اسلوب میں پیش کش اور وضاحت۔

5- جدید تقاضوں کی روشنی میں فقہی مسائل کا مطالعہ اور تحقیق۔

6- ابھرتے ہوئے مسائل پر عصر حاضر کے علما اور معتبر دینی اداروں کے فتوے اور آراء حاصل کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کے درمیان شائع کرنا۔

7- ہندوستان کے اندر اور باہر دیگر تمام فقہی اور تحقیقی اداروں کے ساتھ روابط تلاش کرنا، علمی کاموں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنا، علما اور معتبر اداروں کی طرف سے جاری کردہ فتاویٰ کا انتخاب کرنا، جو مطبوعہ اور غیر مطبوعہ دونوں طرح کے ہیں، جو ایک اہم فقہی اور علمی ورثہ ہیں اور ان کی اصلاح سازی اور انھیں جدید انداز میں پیش کرنا، تاکہ ورثے کو محفوظ رکھا جا سکے۔آئندہ نسلوں کے فائدے کے لیے اس کی نشر و اشاعت۔

8- ہندوستان اور بیرون ملک معیشت، سماجیات، طب، مختلف ممالک کے رسم و رواج، ماحولیات اور آبادیاتی نوعیت کے شعبوں میں پیدا ہونے والے مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور ان کے اردگرد کیے گئے مطالعات اور تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کرنا۔ .

9- اسلامی قوانین کی تشریح اور تطبیق اور ان کے نتائج کی اشاعت پر ہندوستان کے اندر اور باہر کی عدالتوں کی طرف سے جاری کیے گئے فیصلوں کا جائزہ۔

10- مستشرقین اور دوسرے لوگوں کی طرف سے اسلام کے قوانین کے بارے میں اٹھائے گئے مشتبہ اور پریشان کن مسائل کا جائزہ لینا اور ان کے بارے میں صحیح نظریات پیش کرنا۔

11- نئے سوالات اور اسلام کو درپیش چیلنجوں پر کتابیں اس انداز میں تیار کرنا جو عصر حاضر کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہوں۔

12- ممتاز نوجوان علما وفضلاء کی حوصلہ افزائی کرنا اور انھیں علم و تحقیق کے میدان میں انھیں ماہر بننے میں ان کا تعاون کرنا اور علما کو ایک متفقہ تحقیقی مرکز سے منسلک کر کے تحقیقی کاموں اور مختلف مسائل میں امت کی رہنمائی کے لیے انھیں تیار کرنا۔

13- مختلف فقہی موضوعات پر اشاریہ جات کی تیاری۔

14- دینی اداروں کے ممتازفضلاء اور گریجویٹس کو عصرئ علوم کے ضروری اصول سے واقف کرانے کے ساتھ ساتھ جدید یونیورسٹیوں کے ذہین گریجویٹس کو فقہ اور دینی علوم کے اصولوں سے آگاہ کرنے پر ضروری توجہ دینا۔

15- مذکورہ اہداف کے حصول کے لیے اکیڈمی کانفرنسوں اور سیمینارز کے انعقاد، مطالعاتی کمیٹیوں کی تشکیل، سائنسی اور تحقیقی اداروں کے قیام اور دستیاب صلاحیتوں کے مطابق اہداف کے حصول کے لیے ہرمفید ونافع  اسباب وطریقے کو استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔[3]

خدمات

ترمیم

ہر سال اکیڈمی اپنا ایک سالانہ فقہی سیمینار منعقد کرتی ہے، جس میں ملک وبیرون ملک سے اصحاب افتاء، علما واساتذہ اور قضاۃ بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں، سیمینار کے لیے چند فروعی اور اصولی موضوعات کا انتخاب کرکے اہل علم و تحقیق اور اصحاب افتاء سے تحقیقی مقالات لکھوائے جاتے ہیں اور سیمینار میں انتہائی عرق ریزی اور سنجیدہ غور و فکر اور مناقشہ کے ذریعہ متفقہ رائے پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف موضوعات پر سال کے مختلف موقعوں پر ملک کے الگ الگ حصوں میں توسیعی محاضرات، تربیتی ورکشاپ اور سمپوزیم کا انعقاد کیا جاتا۔ ابھی تک اکیڈمی کے 30 سیمینار منعقد ہو چکے ہیں، جن میں کئی سو مسائل پر اجتماعی فیصلوں کے ذریعہ امت کی رہنمائی کا کام انجام دیا گیا ہے۔

اکیڈمی کی خدمات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے زیراہتمام ملک وبیرون کے ماہرین اصحاب قلم سے مختلف اہم موضوعات پر تحقیقی کتابیں مرتب کرائی جاتی ہیں، اسی طرح بعض اہم عربی وانگریزی کتابوں کا اردو میں اور اردو کی اہم کتابوں کا عربی وانگریزی میں ترجمہ کراکر بڑے پیمانہ پر شائع کیا جاتا ہے۔

اکیڈمی سے شائع شدہ کتابوں کو عالمی پیمانہ پر پزیرائی حاصل ہوئی ہے، اکیڈمی کا سب سے بڑا اوراہم ترین علمی و تحقیقی پروجیکٹ موسوعہ فقہیہ ، کویت کا اردو ترجمہ ہے، جس کے لیے اکیڈمی نے ملک بھر کے فقہ اسلامی کے ماہرین اصحاب قلم کی خدمات حاصل کیں، یہ کام زیر طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکا ہے، اس پروجیکٹ کا آغاز اکیڈمی کے بانی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ [4]

اکیڈمی نے اب تک جن مسائل پر فیصلے صادر کیے ہیں ان مین "روزۂ رمضان کے دوران طبی علاج"[5]، "جنسی تعلیم"[5]، "مخلوط تعلیم"[1] اور "اعضا کا عطیہ" جیسے موضوعات شامل ہیں۔

جدید فقہی مسائل کے حل میں فقہ اکیڈمی نے بے مثال نمایاں کردار ادا کیا ہے۔جدید فقہی مسائل میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس میں فقہ اکیڈمی نے ماہرین علمائے اور مفتیان کرام کو ساتھ لے کر اس کو حل نہ کیا ہو اور اس پر واضح رائے ظاہر نہ کی ہو۔یہی وجہ ہے کہ ملک و بیرون فقہ اکیڈمی کے فیصلے کو عدالت نے تسلیم کیاہے اور فقہ اکیڈمی کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر فیصلہ دیا ہے۔ اکیڈمی ملک و بیرون ملک کے ماہرین علما کرام کو جمع کرکے اور تدبرو تفکر کرکے اس کا حل نکالتی ہے۔اکیڈمی نے خواتین کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ان کے مختلف امور کو موضوع بحث بنایا تاکہ خواتین پر ہونے والے مظالم کا سدباب کیا جاسکے۔ جیسے اشتراط فی النکاح ہے جس میں خواتین کئی طرح کے اختیارات دئے گئے ہیں۔ عام طور پر خواتین کی ملازمت پسند نہیں کیا جاتا بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ خواتین کو ملازمت کرنا ضروری ہوتا ہے، اکیڈمی اس موضوع پر سیمنار کرکے اس سلسلے میں رہنمائی کی ہے۔ اس کے علاوہ اکیڈمی نے مسلم غیر مسلم تعلقات پر شریعت کی رائے کو واضح کیا ہے تاکہ ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کی رہنمائی ہو سکے۔ اسی کے ساتھ اکیڈمی نے بینک کاری اور اسلامی بینکنگ کے بارے میں اسلامی ممالک سے بہتر کام کیا ہے۔ بینکنگ کے بارے میں مکمل رہنمائی کی ہے۔[6]

رکنیت

ترمیم

اس اکیڈمی کی رکنیت میں دار العلوم دیوبند، دار العلوم ندوۃ العلماء اور فرنگی محل لکھنؤ جیسے مدرسوں کے نوجوان فضلا بھی شامل ہیں۔[5] یہ اکیڈمی مشرق وسطی میں اور دیگر اقلیتوں اور علاقوں میں؛ جن میں اقلیتوں کی ایک خاصی آبادی ہے ، جیسے امریکا اور یورپ کے ساتھ دوسرے تعلیمی اور فقہی اداروں کے ساتھ مربوط ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "Islamic Fiqh Academy Conference In Mumbai"۔ MEMRI۔ 30 November 2017 
  2. آفتاب غازی قاسمی، عبد الحسیب قاسمی۔ "اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا: سن قیام اور بانی"۔ فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات (فروری 2011ء ایڈیشن)۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 170 - 172 
  3. "مجمع الفقه الإسلامي بالهند"۔ IslamHouse۔ IslamHouse۔ 20/6/2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2022 
  4. Muhammad Qasim Zaman (15 October 2012)۔ Modern Islamic Thought in a Radical Age: Religious Authority and Internal Criticism۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-1-139-57718-2 
  5. ^ ا ب پ "Sex education is unIslamic, says academy"۔ Hindustan Times۔ 8 April 2008 
  6. "جدید فقہی مسائل کے حل میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا نمایاں کردار۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی"۔ روزنامہ اعتماد۔ 19 Jan 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2022 

بیرونی روابط

ترمیم