فرنگی محل
فرنگی محل لکھنؤ میں چوک نامی آبادی کے وسط سے گزرتی وکٹوریہ روڈ کے مغرب میں واقع ایک تاریخی عمارت ہے، جسے ماضی میں ایک عظیم درسگاہ کا درجہ حاصل رہا ہے اور اس نے برصغیر کے مسلمان حلقوں میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
فرنگی محل (برصغیر کی عظیم تاریخی درسگاہ) | |
مقام | لکھنؤ |
---|---|
تعمیر | سترہویں صدی |
نظم و نسق | علما فرنگی محل |
وجہ تسمیہ
ترمیممغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں غیر ملکی کو فرنگی کہتے تھے۔ چنانچہ اس عظیم الشان عمارت کا نام فرنگی محل اس لیے پڑا کیونکہ اس کے اولین مالک یورپ سے تعلق رکھنے والے (فرانسیسی یا ڈچ) تھے۔
تاریخی پس منظر
ترمیماس عمارت کا اولین مالک مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں نیل (Niel) نامی ایک فرانسیسی یا ڈچ شخص تھا، جو دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ یہاں رہائش پزیر تھا۔ یہ عمارت ایک شاندار رہائش گاہ تھی، جسے کسی سبب سے ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے ضبط کر لیا گیا تھا۔
اسی زمانے بھارت کے صوبہ اترپردیش کے قصبے سہالی سے تعلق رکھنے والے مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے وزیر مذہبی امور ملا قطب الدین سہالوی انصاری خاندانی دشمنی کے زیر اثر قتل ہو گئے۔ ان کے بیٹوں نے سہالی کے نامساعد حالات کے پیش نظر بادشاہ وقت سے درخواست کی کہ انھیں لکھنؤ منتقل ہونے میں مدد دی جائے، چنانچہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر چار عمارتوں پر مشتمل کمپلیکس فرنگی محل ملا قطب الدین سہالوی کے بیٹوں ملا اسعد سہالوی، ملا سعید سہالوی، ملا نظام الدین محمد سہالوی اور ملا رضا سہالوی بن ملا قطب الدین شہید کی تحویل میں دے دیا گیا۔
یہ شاہی فرمان جمال میاں بن عبد الباری فرنگی محلی کے پاس آج بھی محفوظ ہے اور اس میں واضح طور پر ملا قطب الدین کے دونوں بڑے بیٹوں ملا سعید اور ملا اسعد کے نام درج ہیں۔[1]
آغاز علم و حکمت
ترمیمملا قطب الدین کی اولاد کے فرنگی محل میں منتقل ہونے کے بعد یہ عمارت اس خاندان کے لیے صرف ایک گھر نہیں رہی، بلکہ یہ علم و ثقافت کا ایک ایسا ادارہ بن گئی، جو تین صدیوں پر محیط ہے۔ اس گھر (فرنگی محل) کا نام علم کی علامت کے طور پر ہر سو مشہور ہوا۔ فرنگی محل اسلامی ثقافت اور روایات کے تحفظ اور ترویج میں اہم حصہ ادا کرتا آیا ہے۔ ملا نظام الدین نے گھر کے ایک حصے میں قصبے کے طلبہ کو پڑھانا شروع کیا اور ایک ایسی مشہور دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں کئی اہم علما پیدا کیے۔ ان بھائیوں نے اس رہائشی عمارت کو ایک عظیم الشان اسلامی ادارے میں تبدیل کر دیا تھا۔ ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا، جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے مشابہ تھا۔ اس درسگاہ کی حیثیت اکثر انگلینڈ کی کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کے ساتھ مقابلۃً پیش کی جاتی تھی۔ علامہ شبلی نعمانی نے فرنگی محل کا آکسفورڈ سے موازنہ کیا تھا۔ [2]
نمایاں خدمات
ترمیم- ملا قطب الدین سہالوی کے فرزند ملا نظام الدین نے کم و بیش 40 دینی علوم پر مشتمل ایک ایسا دینی نصاب مرتب کیا، جو بعد ازاں صدیوں تک برصغیر پاک و ہند کے دینی مدارس میں مروج رہا۔ اس نصاب نے درس نظامی کے نام سے شہرت پائی۔
- برصغیر پاک و ہند میں عید میلادالنبی کو وسیع پیمانے پر ترویج دینے کا سہرا بھی فرنگی محلی علما کے سر ہے۔
- مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے عالمی سطح پر وہابی تحریک کے حامیوں کی جانب سے بزرگانِ دین اور صحابہ کرام کی قبور کی مسماری کے خلاف آواز بھی اُٹھائی تھی۔ [3]
- فرنگی محل کے علما نے تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتوٰی جاری کیا تھا، جس کی پاداش میں کئی علما کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔
- تحریک خلافت کے بانی مولانا محمد علی جوہر کے علاوہ پاکستانی عالم دین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد ڈاکٹر فرید الدین قادری بھی فرنگی محل کے مولانا عبد الباری کے شاگرد تھے۔
- دیگر مسلمان رہنماؤں کی طرح فرنگی محل کے مولانا عبدالباری بھی ابتدائی طور پر ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے، انھوں نے 1920ء میں گاندھی کو ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترکہ قائد قرار دیا تھا۔[4]
اہم شخصیات
ترمیم- ملا نظام الدین فرنگی محلی، درس نظامی مرتب کرنے والے ہندوستانی عالم دین
- عبد الحی فرنگی محلی، ہندوستان کے عظیم محدث اور فقیہ
- مولانا عبد الباری فرنگی محلی، ہندوستانی عالم دین جنھوں نے تحریک آزادی ہند کے دوران میں انگریز سرکار کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا تھا۔
- مولانا محمد علی جوہر، تحریک خلافت کے بانی رہنما
مشاہیر کی آمد
ترمیمگاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، سروجنی نائیڈو، جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی جیسے مشاہیر فرنگی محل کی سماجی اہمیت کے پیش نظر یہاں آتے رہے تھے۔ گاندھی نے فرنگی محل میں چند دن قیام بھی کیا۔ وہ کمرہ جہاں وہ ٹھہرے تھے ان کی یاد میں وقف کیا گیا ہے۔ [5]
آزادی کے بعد
ترمیمحسرت موہانی کا خاندان کئی نسلوں سے فرنگی محل سے عقیدت رکھتا تھا۔ جب فرنگی محل کے حالات زیادہ ناسازگار ہو گئے تو حسرت موہانی نے اتر پردیش کے اسمبلی ممبر کی حیثیت سے اپنی تنخواہ مدرسے کو دے دی۔ تاہم آزادی ہند کے بعد جب لکھنؤ کے حالات زیادہ خراب ہو گئے تو جمال میاں فرنگی محلی نے اپنے خاندان اور مدرسے کو چلانے کے لیے اصفہانیوں کی سرپرستی میں کاروبار کے لیے ڈھاکہ چلے گئے، جو اس وقت مشرقی پاکستان کا حصہ تھا۔ وہ اپنے کاروبار کی آمدنی سے ایک خطیر رقم برسوں مدرسہ کو دیتے رہے، یوں ستر کی دہائی تک مدرسہ نظامیہ چلتا رہا۔ 1971ء میں تقسیم پاکستان کے بعد جب ڈھاکہ بنگلہ دیش بن گیا تو جمال میاں کراچی منتقل ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی مدرسہ نظامیہ تاریخ کا ایک گمشدہ حصہ بن گیا۔ [6]
موجودہ عمارت
ترمیماصل عمارت اور اسکول آج تک موجود ہیں۔ آزادی کے بعد یہ زوال پزیر ہے اور اب یہ عمارت خستہ ہو چکی ہے۔ اب یہاں علمائے فرنگی محل کے خاندان کے چند افراد رہائش پزیر ہیں۔ یہاں کے تعلیمی معیار نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی اس کی وجہ سے قطب الدین انصاری کی اولاد ہندوستان میں اپنی برادری کے لیے مذہبی اور اخلاقی حجت کا ایک وسیع الاحترام استعارہ بنی ہوئی ہے۔ فرنگی محل کے احیاء نو کے لیے کام جاری ہے، عیش باغ عیدگاہ کے احاطے میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا گیا، جہاں پر طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "FirangiMahal.com"۔ 04 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2022
- ↑ "لکھنؤ کے فرنگی محل کا آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیوں موازنہ کیا جاتا تھا؟"۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2022
- ↑ "روزنامہ دنیا"۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2013
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 22 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2014
- ↑ Firangi Mahal – Lucknow | Firangi Mahal Photos, Sightseeing -NativePlanet
- ↑ ممتاز علمائے فرنگی محل لکھنؤ، یس اختر مصباحی، صفحہ 58