اسلم چوک مدھوبنی احتجاج
اسلم چوک مدھوبنی احتجاج شہریت (ترمیم)ایکٹ کے خلاف مظاہروں کی ایک کڑی ہے۔ یہ احتجاج بہار کے شہر مدھوبنی میں واقع اسلم چوک، نظرا، رانی پور میں 19 فروری 2020 سے جاری ہے۔[1]
Aslam Chowk Madhubani Protest | |||
---|---|---|---|
بسلسلہ شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے | |||
تاریخ | 19فروری 2020 سے جاری (4 سال، 259 دن) | ||
مقام | اسلم چوک، نظرا رانیپور، بینی پٹی ، مدھوبنی، بہار | ||
وجہ | شہریت ترمیمی بل 2019ء کی منظوری ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مداخلت اورشاہین باغ احتجاج | ||
طریقہ کار | احتجاج، دھرنا، احتجاجی مارچ، سول نافرمانی، فن (Graffiti)، شاعری | ||
صورتحال | جاری | ||
مرکزی رہنما | |||
|
پس منظر
ترمیمجامعہ ملیہ اسلامیہ میں بربریت کے واقعات اور شاہین باغ احتجاج سے اثر لے کر اسلم چوک کی خواتین سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی تردید میں اسلم چوک، نظرا، رانی پور میں 19 فروری 2020 کو دھرنے پہ بیٹھ گئی۔
اہم واقعات
ترمیماحتجاج میں شامل ہونے والی شخصیات
ترمیم- 14 مارچ 2020 کو سپریم کوٹ کے وکیل بھانو پرتاپسنگھ نے دھرنے میں شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ملک کو جس راستے کی طرف لے جانا چاہتی ہے وہ نہایت خطرناک ہے اس لیے ہم اسے اس راستے پر چلنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ اس صورت میں نہ صرف ملک ٹوٹ جائے گا بلکہ عالمی سطح پر ہندوستان کی پہچان متاثر ہوگی، لیکن اگر حکومت تعصب کی بنیاد پر عوامی مزاج کے خلاف چلتے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتی رہی تو ہم پوری قوت کے ساتھ جمہوری حق کے مطابق اپنی آواز اٹھائیں گے اور سی اے اے کے خلاف اپنی آخری سانس تک لڑتے رہیں گے،تاکہ ملک کا جمہوری اقتدار سلامت رہ سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ تمام کمزور طبقات کے خلاف ہے اور حکومت صرف تین ملکوں کا نام لے کر گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس لیے حکومت جب تک اس قانون کو واپس نہیں لے لیتی ہے تب تک ہمارا یہ احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
- جناب ضیاء القمر فلاحی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی اے اے بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے لایا گیا ہے اور ایسا صرف ان کی مذہب کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ مزید انھوں نے کہا کہ یہ سی اے اے ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کوزک پہنچانے اور ہندو۔مسلم کے درمیان تفریق ڈال کر نفرت کی گہری کھائی پیدا کرنے کے لیے ایک منظم سازش ہے، آخر میں انھوں نے کہا کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کو ایک خاص کمیونٹی کا احتجاج ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہمارے احتجاج میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں _
- پرویز حسن دانش سابق امیدوار حلقہ بسفی نے مرکزی حکومت کے اس قدم کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے تین طلاق کے موضوع پر جب وہ مسلم خواتین اور بہنوں کے فکر مند تھے تو ایسے سی اے اے کے خلاف اٹھنے والی بہنوں کی آواز کو وہ سن لیں اور اسے واپس لے، مزید انھوں نے کہا کہ اس قانون کے ذریعہ ہندو مسلم کو بانٹا جارہا ہے ساتھ ہی کہا کہ ہمارے آبا و اجداد نے ملک ہندوستان کی آزادی کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں اس کے باوجود ہم سے ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگا جارہا ہے، انھوں نے کہا کہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے ایسے میں حکومت کو سمجھنا چاہیے -_
- صحافی حسان سلفی نے کہا کہ ہم ہندوستانی ہیں اور ہمیں کسی کو اپنی وطن پرستی کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت سی اے اے این آر سی کے ذریعہ مسلم سماج کو ہراساں کررہی ہے تو وہیں اس دھرنے میں شریک سماجی کارکن کامل حسین نے کہا کہ سی اے اے این آر سی اور این پی ار ایک غیر قانونی پیکج ہے جو بطور خاص غریبوں، پسماندہ طبقوں، دلتوں، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے اور این پی ار ہی این آر سی کی بنیاد ہے۔
- جاوید عالم مدھوبنی نے خطاب کے ذریعے خواتین کے جوش اور جذبے کو مہمیز کیا اور غیر معینہ مدت تک احتجاج کو جاری رکھنے کی اپیل کی اس کے بعد حکومت کی دوہری اور غلط پالیسی کو مختصرا بیان کیا-
- قمر الہدی ( تمنا ) نے اپنی تقریر کے ذریعے سامعین کا دل جیت لیا آئین ہند کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کے دستور ہمیں آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیتا ہے ہم کسی بھی حال میں میں اس ملک سے باہر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں
- کانگریس کے لیڈر جناب سید تنویر انور نے کہا کہ یہ سی اے اے ہمارے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیگا اور آپسی اتحاد کو تہس نہس کر دیگا یہ سی اے اے ہمارے ملک کے گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے والا اور ہمارے بھائی چارے پر داغ لگانے والا قانون ہے مودی سرکار ملک کے سمپتی کو ایک ایک کرکے بیچ رہی ہے اور نوجوانوں کو بے روزگار بنانے کا کام کر رہی ہے ملک ایک بار پھر بھوک مری اور غریبی سے جھونج رہا ہے کسان روز خود کشی کر رہے ہیں مگر اس سرکار کو عوام کی کوئی فکر نہیں. اس لیے جس طرح دھلی کی عوام نے ناکار دیا اسی طرح بہار کی عوام بھی انھیں آئندہ انتخابات میں سبق سیکھادیگی.
- شبیر احمد سابقف امیدوار ہرلاکھی حلقہ نے کہا کہ مودی سرکار جب تک اس قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک لڑائی جاری رہے گی اور آخری سانس تک ہم لوگ آپسی بھائی چارے کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے یہ حکومت ہمارے ملک میں نفرت پھیلانے کا کام کر رہی ہے مگر ان کی ناپاک عزائم کو ہم جنتا کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے انھوں نے کہا کہ ملک کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ہم این آر سی پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر شاہین باغ کی شاہینوں نے اسے مجبور کر دیا اور بیان دینے پر مجبور ہوئے ابھی تو پیچھے ہٹنے کی شروعات ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کیا-
- سماجی کارکن جناب غلام مذکر خان نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تکبرکرنے والے کا غرور ایک نہ ایک دن ٹوٹ ہی جاتاہے فرعون نے بھی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا اور اس کا بھی زوال ہو گیا اور آج کے دور کے وقت کا فرعون جوبنابیٹھاہے وہ بھی غروب ہوگا اور حق کی ہمیشہ جیت ہوئی ہے اور ہم حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ہمیں امید قوی ہے کہ جیت ہماری ہوگی-
- 19 مارچ مولانا انوار اللہ فلک نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ مرکزی حکومت سی اے اے، این آر سی اور این پی ار لا کر آپس میں تفریق پیدا کررہی ہے۔ لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ سی اے اے ہندوستان کے عام شہریوں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ہندوستان میں شہریت دینے کا قانون پہلے سے تھا۔ اس میں ترمیم کرنا بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کے منافی ہے۔ ان کی نیت اچھی نہیں ہے۔ یہ لوگ دلت معاشرے کے بنائے ہوئے آئین کو ہضم کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ شہریت دینے کا قانون لینے کانہیں۔ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، پہلے این آر سی کے نام پر ہم سے یہ شہریت لیں گے۔ جیسا کہ آسام میں ہوا، 19 لاکھ افراد کو این آر سی کی فہرست میں چھوڑ دیا گیا، جس میں 13 لاکھ افراد کا تعلق ہندو معاشرے سے تھا۔ شہریت جانے کے بعد وہ سیکنڈ کلاس کے شہری بن جائیں گے۔اس میں بھی پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مظلومین کو دینے کو کہتے ہیں۔ بودھ لوگ جو تبت سے آئے ہیں ان کا کیا ہوگا۔مسلم تو بہانا ہے۔ اس کے آڑ میں یہ عام لوگوں کو پریشان کرنے کا طریقہ ہے۔ این پی ار میں باپ اور ماں کی جائے پیدائش اور تاریخ پوچھی جائے گی۔ ماں ،باپ کے پیدائش کی تاریخ بتانا ممکن نہیں ہے۔ این پی ار ، این آرسی کا پہلا قدم ہے۔ ہمیں ان کے جھوٹ اور فریب کو سمجھنا ہے۔ انگریز وں نے جس طرح پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی تھی وہی کام یہ حکومت کررہی ہے۔ لیکن اس ملک کے عوام سب سمجھ رہے ہیں کہ یہ اپنے ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ان قانونوں میں ہمیں الجھا کر رکھنا چاہتی ہے۔ اس ملک کے عوام سمجھ رہے ہیں اس لیے سکھ اور اکثریتی فرقہ کے لوگ بھی مضبوطی کے ساتھ اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آزادی ہمیں اتنی جلدی نہیں ملی تھی، سینکڑوں سال جدوجہد کرنے پر ملی۔ اسی طرح یہ لڑائی بھی ہمیں آئین کے دائرے اور پرامن طریقہ سے جاری رکھنا ہے۔ ہم لوگ ]]گاندھی]] کو ماننے والے ہیں۔ گوڈسے کے نہیں۔ جب تک مرکزی سرکار اس کالے قانون کو واپس نہیں لیتی ہم پرامن طریقہ سے یہ تحریک جاری رکھیں گے۔
- مہیندر رائے نے سامعین سے مخاطب ہو تے ہوتے ہوئے کہا کہ 75 سالوں میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ خواتین مسلسل تین تین ماہ سے دھرنہ پردشن کررہی ہیں، وہیں اس سے قبل جب بھی ایک دن کا بھی دھرنہ ہوتاتھا تو حکومت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ دھرنے کی جگہ پر جاتا اور اس کی باتوں کوسن کر اپنا فیصلہ واپس لیتا، لیکن یہ ظالم حکومت اپنی باتوں پر ڈٹی ہوئی ہے، آخر میں شاعر بے باک جناب دانش کمال سرگم اور اشفاق کریمی نے اپنے کرانتی کاری شاعری سے سامعین کے دل کو باغ باغ کر دیا
- جناب ثناء اللہ صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور اس کے آئین کے خلاف اٹھنے والا کوئی بھی اقدام ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے حکومت کو اس ملک کی اخوت کی تاریخ اور مخلوط ثقافت کی پروا نہیں ہے اور وہ اسے درہم برہم کرنے پر آمادہ ہے۔انھوں نے مزید کہا ہم نے ہمیشہ اپنی جان سے زیادہ اس ملک کو محبت کی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس کے لیے قربانی دی ہے۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر جیسے سیاہ قانون لا کرکے آج مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں بیگانہ ثابت کر دیا ہے جبکہ کل کو این آر سی کی شکل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
- اعظم ازہری نے کہا کہنے کہا ہمارے بزرگوں نے ملک کو آزاد کروانے کے لیے انگریزوں کے سامنے قربانیاں دی ہیں اور آج ہمارے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے! ہم یہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ایک طبقہ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کو آج مسلمانوں کی حمایت میں آنا چاہیے۔
- سماجی کارکن جناب ثناء اللہ صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور اس کے آئین کے خلاف اٹھنے والا کوئی بھی اقدام ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے حکومت کو اس ملک کی اخوت کی تاریخ اور مخلوط ثقافت کی پروا نہیں ہے اور وہ اسے درہم برہم کرنے پر آمادہ ہے۔انھوں نے مزید کہا ہم نے ہمیشہ اپنی جان سے زیادہ اس ملک کو محبت کی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس کے لیے قربانی دی ہے۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی ار جیسے سیاہ قانون لا کرکے آج مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں بیگانہ ثابت کر دیا ہے جبکہ کل کو این آر سی کی شکل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
- اعظم ازہری نے کہا کہنے کہا ہمارے بزرگوں نے ملک کو آزاد کروانے کے لیے انگریزوں کے سامنے قربانیاں دی ہیں اور آج ہمارے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے! ہم یہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ایک طبقہ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کو آج مسلمانوں کی حمایت میں آنا چاہیے۔
اسلم چوک کے احتجاج کے اہم نکات
ترمیمملک کی خواتین نے شاہین باغ جیسی ایک مضبوط تحریک پیش کی جو آج پورے ملک میں پھیل چکی ہے اور سیکڑوں شاہین باغات بن چکے ہیں جہاں خواتین بے خوف ہو کر آواز بلند کررہی ہیں۔مختلف یونیورسٹی طلبہ ، وکلا اور سماجی کارکن پورے ملک میں گھوم رہے ہیں اور لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔سی اے اے کے خلاف احتجاج میں ایک نیا نام شامل کیا گیا ہے: اسلم چوک ، ہاں ، نظرا رانی پور اور آس پاس کے کچھ نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے یہ احتجاج شروع ہوا ہے اور اس جگہ پر ان کی بھر پور حمایت کی جارہی ہے۔ مائیں اور بہنیں پابندی کے ساتھ بڑی تعداد میں آتی ہیں اور مقررین کو سن رہی ہیں اور حکومت کی نیت کو سمجھ رہی ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انظار الحق قمری۔ "مدھوبنی کی عوام نے CAA & NRC کے خلاف بینی پٹی انومنڈل کے سامنے ایک یادگار احتجاجی مظاہرہ کیا"۔ Hindustan Urdu Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 مارچ 2020[مردہ ربط]