شاہین باغ احتجاج

شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این آر پی کے خلاف شاہین باغ احتجاج

شاہین باغ احتجاج نئی دہلی کے علاقہ شاہین باغ میں جاری ہے جو شہریت ترمیمی بل 2019ء کے بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور ہو جانے کے بعد شروع ہوا تھا۔ لوک سبھا سے منظور ہو جانے کے بعد 11 دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں یہ مسودہ قانون پیش ہوا اور طویل بحث اور زبردست مخالفت کے باوجود عددی برتری کے باعث منظور ہو گیا۔ چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاج شروع کیا تو دہلی پولیس نے جواباً ان پر وحشیانہ کارروائی کر دی۔ پولس کی اس بربریت کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کا آغاز کیا جو تاحال بلا توقف جاری ہے۔[1][2][3] یہ دراصل ایک احتجاجی مارچ اور سول نافرمانی ہے جس کے بیشتر شرکا شاہین باغ کی مسلم خواتین ہیں۔ یہ مظاہرے 15 دسمبر 2019ء[4] سے شروع ہوئے۔ اس کا محل وقوع کالندی کنج شاہین باغ نامی شاہراہ عام ہے جو نوئیڈا کو فریدآباد سے جوڑتی ہے۔ مظاہرین نے اس شاہراہ کو 15 دسمبر سے ہی بند کر رکھا ہے۔[5]

Shaheen Bagh protests
Shaheen Bagh anti-CAA protests
بسلسلہ شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین نے ایک بڑی سڑک پر آمد رفت کو روک دیا (کلندی کنج علاقہ)، نئی دہلی
تاریخ15 دسمبر 2019 – 24 مارچ 2020 (101 دن)
مقام
وجہشہریت ترمیمی بل 2019ء کی منظوری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مداخلت
مقاصدسی اے اے کی منظوری ، پولیس تشدد اور حکومتی ذہنیت کے خلاف برہمی کا اظہار۔ این آر سی این پی آر کو چلانے سے روکنے کی مانگ۔
طریقہ کاراحتجاج، دھرنا، احتجاجی مارچ، سول نافرمانی، فن (Graffiti، شاعری)
صورتحاللاک ڈاؤن کی وجہ سے موقوف
مرکزی رہنما
غیر مرکزی قیادت
متاثرین
اموات0
زخمی1
گرفتار10
Detained0
جرمانہ0
No NPR CAA NRC graffiti at Shaheen Bagh

ابتدا میں یہ مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس کی بربریت اور بلا اجازت یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر لڑکوں اور لڑکیوں کو زدوکوب کرنے، ان پر بے رحمی سے لاٹھیاں برسانے اور دار المطالعہ میں آنسو گیس چھوڑنے کے خلاف شروع ہوئے تھے مگر بہت جلد یہ ایک احتجاج کی شکل اختیار کر گئے اور شہریت ترمیمی بل اور قومی شہری رجسٹر کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ شاہین باغ کے علاوہ ملک بھر میں ہو رہے احتجاجات میں اس بل کے خلاف اور آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے این پی آر کو نافذ کرنے کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوسا جا رہا ہے اور ان دونوں فیصلوں کو واپس لینے کی اپیلیں ہو رہی ہیں۔[5] شاہین باغ کے مظاہرین نے ان یونینوں کی حمایت میں بھی آوازیں بلند کیں جو مزدور مخالف پالیسی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ نیز 2020ء جے این یو حملہ کے خلاف بھی شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کیا۔[6] مذکورہ شاہراہ پر مظاہرین نے خیمے نصب کر دیے ہیں اور دونوں طرف سے سڑک کو بند کر دیا ہے۔ دی وائر کی خبر کے مطابق دن بھر میں وہاں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔[7]

احتجاج کو روکنے اور سڑک کھلوانے کے لیے دہلی عدالت عالیہ میں دو پٹیشن داخل کی جا چکی ہیں لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اپیل سننے سے انکار کر دیا۔ 14 جنوری 2020ء کو عدالت نے کہا کہ یہ پولس کا معاملہ ہے۔ دہلی پولس کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کو سڑک کھلوانے پر راضی کرلے گی مگر کسی بھی طرح کی طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ احتجاج پولیس کے تشدد اور حکومت کی بے حسی کے خلاف بھی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے میں مدد کریں گے مگر احتجاج ختم نہیں ہوگا تا آنکہ حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرلے۔ اس احتجاج کی وجہ سے تقریباً 100,000 گاڑیاں متاثر ہیں اور 20-30 منٹ کی مسافت 2-3 گھنٹوں میں پوری ہو رہی ہے مگر حکومت اپنے موقف پر بضد ہے اور ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔ وہیں مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایک ملی میٹر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حزب اقتدار بی جے پی کے صدر نے بھی مظاہرین سے اپنا احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔

پس منظر

ترمیم

14 دسمبر 2019ء کی دوپہر کو 10 تا 15 علاقائی خواتین نے شاہین باغ میں احتجاج شروع کیا۔ بعد میں مزید لوگ اس میں شامل ہوئے اور اس طرح یہ 24/7 احتجاج ہو گیا۔ لوگ رات دن یہاں رہتے ہیں۔[8] ان میں اکثریت با حجاب اور برقع پوش مسلم خواتین کی ہیں جو عموما گھریلو عورتیں ہیں۔[9] اتوار کے دن یہاں لاکھوں کا مجمع ہو جاتا ہے۔ جدید بھارت کا یہ سب سے زیادہ دنوں ے ک چلنے والا احتجاج ہے جسے دنیا بھر کی میڈیا اپنے اخباروں اور ٹی وی چنیلوں میں جگہ دے رہی ہے۔[8][7] سی این این کی خبر کے مطابق بہر النسا نام کی خاتون نے یہ کہتے ہوئے احتجاج میں شرکت کرنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی کہ ‘‘انھوں نے ہمارے بچوں کی آواز دبانے کی کوشش کی لہذا ہم ماوں نے احتجاجی پرچم اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا ہے۔[10]

31 دسمبر 2019ء کی رات کو جب ساری دنیا سال نو کا جشن منا رہی تھی، شاہین باغ کی احتجاجی خواتین نے بھارت کے قومی گیت جن گن من نے سال نو کا استقبال کیا تھا۔[11][12] وہ رات گذشتہ 100 برسوں میں دہلی کی سب سے ٹھنڈی رات تھی۔[1][2][13] 12 جنوری 2020ء کو شاہین باغ کے احتجاج میں سب سے مظاہرہن نے شرکت کی اور ایک نئی تاریخ رقم کردی۔[14] شاہین باغ کا حتجاج بے انتہا مقبول ہوا اور اسی کے طرز پر اب ملک بھر میں احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے الہ آباد، گیا، ناگپور[15]، کولکاتا[16] (پارک سرکس)[17]، حیدراباد[18] اور لکھنؤ۔[19]

اہم واقعات

ترمیم

جائے احتجاج مکمل طور پر بینر، پوستر اور نقش و نگار سے مزین ہے۔[20][5][21] اسی جگہ ایک کھلا مطالعہ گاہ بنایا گیا ہے جس میں ہزاروں لوگوں نے کتابیں اور دیگر اسٹیشنری کی اشیا بطور تحفہ دی ہیں۔[22][4] اپنی ماوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے والے بچوں نے آسٹریلیا آتشدزگی، 2010ء، دیپیکا پڈوکون، اسپائیڈر مین اور ڈزنی کی شہزادیاں کو اپنے نقوش میں ابھارا ہے اور ان کے متعلق نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں۔[4] کچھ بچے مائک پر ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے گاتے رہتے ہیں۔[4] کچھ بچوں نے قومی پرچم کا نقش بنایا تھا جو سرخیوں میں آیا تھا۔[4] شاہین باغ کی مسلم خواتین کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ آتے رہتے ہیں اور احتجاج میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں اردو شاعری[23] گنگنائی جاتی ہے۔ تقریری ہوتی ہے۔ محمد اقبال[2]، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمین پڑھی جاتی ہیں۔ بین المذاہب عبادتیں ہوتی ہیں۔[24][25] بھگود گیتا، بائیبل، قران کی تلاوتیں مسلسل ہورہی ہیں اور گربانی بھی ادا کی جاتی ہے۔[24] 15 جنوری 2020ء کو ایک صحافی سنجیو گویل کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا احتجاجیوں کو 1200 روہئے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔[26] چند ڈاکٹروں نے مفت علاج کے لیے بطی کیمپ کھول دیا ہے۔[27] سکھ برادی کے کسانوں نے وہاں مفت لنگر کا انتطام کر دیا ہے۔[19]

"مودی یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں شہریت ترمیم بل کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے اس لیے وہ ہمارا احتجاج ختم کر دیں گے۔ مگر ہم بتادیں کہ ہم نے اس بل کو پڑھا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ ہم بھی آئین ہند کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ غزالہ،22 سال[11]
"ہم بھارتیہ ہیں اور ہم سب نے مل کر ملک کو بنایا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے۔ کسی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ہماری شہریت چھین لے۔ناہدہ بیگم، 40 سال[11]
" میں یہ ملک چھوڑ کر نہیں جاوں گی۔ یہ محض میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میرے آبا، میرے بچوں اور میرے اہل خانہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ ہم شہریت ثابت کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے ہیں۔" یہ کہنا ہے 70 سالہ اسما خاتون کا جو شروع سے اب تک احتجاج گاہ پر موجود ہیں۔[1]

احتجاج گاہ میں کئی بڑی شخصیتیں بھی آئیں جیسے کانگریس کے لیڈر ششی تھرور اور [[منی شنکر ایئر۔[28][24] ان کے علاوہ فلمی اداکار محمد ذیشان ایوب بھی یہاں آچکے ہیں۔[12]

Shaheen Bagh protests against CAA, NRC and NPR in Pune on 22 Jan 2020

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "Shaheen Bagh: The women occupying Delhi street against citizenship law - 'I don't want to die proving I am Indian'"۔ BBC۔ 4 جنوری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  2. ^ ا ب پ Asmita Bakshi (2020-01-02)۔ "Portraits of resilience: the new year in Shaheen Bagh"۔ Livemint (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  3. Staff Reporter (2019-12-29)۔ "Shaheen Bagh residents brave the cold as anti-CAA stir enters Day 15"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ Anam Ajmal (11 جنوری 2020)۔ "Delhi: Shaheen Bagh juniors draw attention to CAA | Delhi News – Times of India"۔ The Times of India (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  5. ^ ا ب پ "Organiser 'Calls Off' Shaheen Bagh Anti-CAA Protest, Locals Continue Dharna"۔ The Wire۔ 2 جنوری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  6. "CAA protest enters 27th day at Jamia, Shaheen Bagh"۔ The New Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  7. ^ ا ب "Watch | Women, Homemakers Lead Protests Against CAA at Delhi's Shaheen Bagh"۔ The Wire۔ 20 دسمبر 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  8. ^ ا ب PTI (26 دسمبر 2019)۔ "Unfazed by cold, 200 women stage sit-in at Shaheen Bagh, police seek to end protest"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  9. Bilal Kuchay (15 جنوری 2020)۔ "Shaheen Bagh protesters pledge to fight, seek rollback of CAA law"۔ Al Jazeera۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2020 
  10. Swati Gupta, Manveena Suri and Julia Hollingsworth CNN۔ "The women who have occupied a New Delhi street for a month"۔ CNN۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2020 
  11. ^ ا ب پ Manavi Kapur (3 جنوری 2020)۔ "At a women-led protest site in India, Muslims navigate identity, hope, and despair"۔ Quartz India۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  12. ^ ا ب Zafar Abbas (2019-12-31)۔ "Celebrities, activists join protesters at Shaheen Bagh to celebrate New Year"۔ www.millenniumpost.in (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  13. Sukirti Dwivedi (1 جنوری 2020)۔ مدیر: Debanish Achom۔ "Protesters Usher In New Year At Delhi's Shaheen Bagh With National Anthem"۔ NDTV۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  14. Kainat Sarfaraz (2020-01-13)۔ "Biggest crowd at Shaheen Bagh since protest began 4 weeks ago"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  15. Sarfaraz Ahmed (12 جنوری 2020)۔ "Nagpur: Citizens come together, start Shaheen Bagh-style protest"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  16. Akshita Jain (13 جنوری 2020)۔ "Shaheen Bagh Inspires Similar Anti-CAA Protests In Prayagraj, Gaya, Kolkata"۔ HuffPost India (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2020 
  17. Snehal Sengupta (9 جنوری 2020)۔ "Shaheen Bagh closer home"۔ www.telegraphindia.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2020 
  18. "CAA-NRC stir: 60 detained after midnight flash protests in Hyderabad"۔ The New Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2020 
  19. ^ ا ب Gargi Rawat (15 جنوری 2020)۔ مدیر: Anindita Sanyal۔ "Sikh Farmers From Punjab Come To Cheer Shaheen Bagh Women, Cook Langar"۔ NDTV۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2020 
  20. Rohan Venkataramakrishnan۔ "The Art of Resistance: Ringing in the new year with CAA protesters at Delhi's Shaheen Bagh"۔ Scroll.in (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  21. Asmita Bakshi (2020-01-10)۔ "The old guard: meet the elderly protesters of Zakir Nagar and Shaheen Bagh"۔ Livemint (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  22. Jyoti Thakur (11 جنوری 2020)۔ "Shaheen Bagh Kids and Jamia Students Make Space for Art, Reading and Revolution"۔ The Citizen (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  23. Samrat Chakrabarti (31 دسمبر 2019)۔ "Shaheen Bagh Heralds a New Year With Songs of Azaadi"۔ The Wire۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  24. ^ ا ب پ "Anti-CAA stir: Inter-faith prayer to uphold values of Preamble as Shaheen Bagh protest nears month"۔ The New Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  25. Divyanshu Dutta Roy (13 جنوری 2020)۔ "Massive Crowd, Multi-Faith Prayer At CAA Protest In Delhi's Shaheen Bagh"۔ NDTV۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  26. #Intolerant भारतीय (Sanjeev Goyal) (2020-01-15)۔ "#ShaheenBaghTruth is OUT>>₹500-₹1200 is paid to women for sitting-in at this protest site. More hours each sit, more money these women make. Food provided. Wonder how long @DelhiPolice @CPDelhi @AmitShah wait b4 clearing these FRAUDS? # PaidProtestorspic.twitter.com/2nwU7USMAR"۔ @goyalsanjeev (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2020 
  27. "At Shaheen Bagh anti-CAA stir, protesters brave biting cold 24x7"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 2020-12-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  28. "Mani Shankar Aiyar addresses protestors at Shaheen Bagh, makes contentious remarks"۔ The Times of India (بزبان انگریزی)۔ ANI۔ 15 جنوری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2020