اسماعیل علیہ السلام اللہ کے نبی، ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ قرآن نے انھیں صادق الوعد کا لقب دیاحضرت ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچے ہی تھے کہ ابراہیم علیہ السلام ان کو ان کی والدہ ہاجرہ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اور عالم اسلام کا قبلہ ہے۔ ایک دن ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمھاری کیا رائے ہے؟ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احساس کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین کا بیان ہے کہ خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مدد سے مکے میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح دنیا میں اللہ کا پہلا گھر تیار ہوا۔

اسماعیل (اسلام)
(عربی میں: إسماعيل‎‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1800 ق مء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فلسطین  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18ویں صدی ق م  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد الحرام  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابراہیم علیہ السلام  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ واعظ،  نبی،  اسلامی نبی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ابھی تک اولاد سے محروم تھے اور ان کے گھر کا مالک ایک خانہ زادالیعزر دمشقی تھا۔ایک روز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں فرزند کے لیے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کو تسلی دی :
” ابراہام نے کہا اے خداوند تو مجھے کیا دے گا کیونکہ میں تو بے اولاد جاتا ہوں اور میرے گھر کا مختار دمشقی الیعزر ہے پھر ابراہام نے کہا دیکھ تو نے مجھے کوئی اولاد نہیں دی اور دیکھ میرا خانہ زاد میرا وارث ہوگا ‘ تب خداوند کا کلام اس پر اترا اور اس نے فرمایا یہ تیرا وارث نہ ہوگا۔بلکہ وہ جو تیری صلب سے پیدا ہوگا وہی تیرا وارث ہوگا۔ “ [1]

اور یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چھوٹی بی بی(زوجہ) حضرت ہاجرہؑ حاملہ ہوئیں :
” اور وہ ہاجرہؑ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی۔ “ [2] جب حضرت سارہؑ کو یہ پتہ چلا تو انھیں بہ تقاضائے بشریت ہاجرہ سے رشک پیدا ہو گیا اور انھوں نے حضرت ہاجرہؑ کو تنگ کرنا شروع کر دیا ‘حضرت ہاجرہؑ مجبور ہو کر ان کے پاس سے چلی گئیں :
” اور خداوند کے فرشتے نے اسے میدان میں پانی کے ایک چشمہ کے پاس پایا یعنی اس چشمہ کے پاس جو صور کی راہ پر ہے اور اس نے کہا کہ اے سری(سارہؑ) کی لونڈی ہاجرہؑ تو کہاں سے آئی ؟ اور کدھر جاتی ہے ؟ وہ بولی کہ میں اپنی بی بی سری(سارہؑ) کے سامنے سے بھاگی ہوں ‘اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو اپنی بی بی کے پاس پھر جا اور اس کے تابع رہ پھر خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا اور وہ وحشی (بدوی) آدمی ہوگا۔ اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے ‘ اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا۔ “ [3] حضرت ہاجرہؑ جس مقام پر فرشتہ سے ہم کلام ہوئیں اس جگہ ایک کنواں تھا ‘ ہاجرہؑ نے یادگار کے طور پر اس کا نام ”زندہ نظر آنے والا کنواں “ رکھا۔تھوڑے عرصہ کے بعد ہاجرہ کے بیٹا پیدا ہوا۔اور فرشتہ کی بشارت کے مطابق اس کا نام اسماعیلؑ رکھا گیا :
” اور ہاجرہؑ ابراہام کے لیے بیٹا جنی اور ابراہام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ جنی ‘اسماعیل رکھا اور جب ابراہام کے لیے ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوا تب ابراہام چھیاسی برس کا تھا۔ “ [4]
اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کے بعد ابراہیم (علیہ السلام)کو اسحاق کی بشارت دی جیسا کہ ابھی مفصل ذکر آئے گا ‘مگر ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بشارت پر چنداں مسرت کا اظہار نہیں کیا اور اس کی جگہ یہ دعا مانگی :
” اور ابرام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے “[5] اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا کا یہ جواب دیا :
” اسماعیلؑ کے حق میں میں نے تیری سنی ‘دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اس کو بہت بڑھاؤں گا اور اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اس کو بڑی قوم بناؤں گا۔ “[6] اسمٰعیل ” اسمع “ اور ” ایل “دو لفظوں سے مرکب ہے عبرانی میں ” ایل “ اللہ کے مرادف ہے اور عربی میں اسمع اور عبرانی میں شماع کے معنی ہیں ” سن “ چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے بارے چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا سن لی اور ہاجرہ کو فرشتہ سے بشارت ملی اس لیے ان کا یہ نام رکھا گیا عبرانی میں اس کا تلفظ ” شماع ایل “ ہے۔

وادی غیر ذی زرعٍ اور ہاجرہ و اسماعیل ؑ

حضرت ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل (علیہ السلام)کا پیدا ہوجانا حضرت سارہ پر بے حد شاق گذرا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی اور بڑی بیوی ‘ قدیم سے گھر کی مالکہ ‘ہاجرہ چھوٹی بیوی اور ان کی خدمت گزار ‘یہ سب باتیں تھیں جنھوں نے بشری تقاضے کے پیش نظر اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کو حضرت سارہؑ کے لیے سوہان روح بنادیا تھا۔ اس لیے حضرت سارہؑ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اصرار کیا کہ ہاجرہ اور اس کا بچہ اسماعیلؑ میری نگاہ کے سامنے نہ رہیں ان کو علاحدہ کسی جگہ لے جاؤ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ اصرار بے حد ناگوار گذرا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو مطلع کیا کہ ہاجرہ ‘اسماعیل اور تیرے لیے مصلحت اسی میں ہے کہ سارہ جو کچھ کہتی ہے اس کو مان لے۔
” اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو وہ ابراہام سے جنی تھی۔ ٹھٹھے مارتا ہے تب اس نے ابراہام سے کہا کہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا پھر اپنے بیٹے کی خاطر یہ بات ابراہام کی نظر میں نہایت بری معلوم ہوئی خدا نے ابراہام سے کہا کہ وہ بات اس لڑکے اور تیری لونڈی کی بابت تیری نظر میں بری نہ معلوم ہو ‘ہر ایک بات کے حق میں جو سارہ نے تجھے کہی اس کی آواز پر کان رکھ کیونکہ تیری نسل اسحاق سے کہلائے گی ‘ اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی ایک قوم پیدا کروں گا اس لیے کہ وہ تیری نسل ہے۔ “ [7]
تورات کی اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہو چکے تھے ‘اس لحاظ سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچ چکے ہوں گے کیونکہ تورات ہی کی روایت کے مطابق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے تیرہ سال بڑے ہیں۔ لیکن اسی واقعہ میں تورات کی دوسری آیات مسطورہ بالا آیات کے خلاف یہ کہتی ہیں کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ابھی شیر خوار بچے تھے :
” تب ابراہام نے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور ہاجرہ کو اس کے کاندھے پر دھر کردی اور اس لڑکے کو بھی اور اسے رخصت کیا ‘وہ روانہ ہوئی اور بیر سبع کے بیابان میں بھٹکتی پھرتی تھی ‘اور جب مشک کا پانی چک گیا۔تب اس نے لڑکے کو ایک پہاڑی تب اس نے لڑکے کو ایک پہاڑی ایک پتھر کے ٹپے پر دور جا بیٹھی کیونکہ اس نے کہا کہ میں لڑکے کا مرنا نہ دیکھوں۔ “ [8]
اس لیے تورات کے ان مخالف و متضاد بیانات کے مقابلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ ہاجرہ و اسماعیل (علیہا السلام) کے خروج کے وقت اسماعیل شیر خوار بچہ تھے اور اسحاق ابھی تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے جو روایت منقول ہے وہ بھی اسی قول کی تائید کرتی ہے اس روایت کا مضمون یہ ہے :
” ابراہیم (علیہ السلام) ہاجرہ اور اس کے شیر خوار بچہ اسماعیل کو لے کر چلے اور جہاں آج کعبہ ہے اس جگہ ایک بڑے درخت کے نیچے زم زم کے موجودہ مقام سے بالائی حصہ پر ان کو چھوڑ گئے وہ جگہ ویران اور غیر آباد تھی اور پانی کا بھی نام و نشان نہ تھا۔اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور بھی ان کے پاس چھوڑ دیں اور پھر منہ پھیر کر روانہ ہو گئے ہاجرہ ان کے پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی چلیں اے ابراہیم تم ہم کو ایسی وادی میں کہاں چھوڑ کر چل دیے۔جہاں نہ آدمی ہے نہ آدم زاد اور نہ کوئی مونس و غمخوار ‘ہاجرہ برابر یہ کہتی جاتی تھیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) خاموش چلے جا رہے تھے۔ آخر ہاجرہ نے دریافت کیا ‘ کیا تیرے خدا نے تجھ کو یہ حکم دیا ہے ؟ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں ‘یہ خدا کے حکم سے ہے ‘ ہاجرہ نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں۔اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو بلاشبہ وہ ہم کو ضائع اور برباد نہیں کرے گا ‘ اور پھر واپس لوٹ آئیں ‘ ابراہیم چلتے چلتے جب ایک ٹیلہ پر ایسی جگہ پہنچے کہ ان کے اہل و عیال نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو اس جانب جہاں کعبہ ہے رخ کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی :
{ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ } [9]
” اے ہم سب کے پروردگار (تو دیکھ رہا ہے کہ) ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں ‘میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں (تاکہ یہ محترم گھر عبادت گزاران توحید سے خالی نہ رہے) پس تو (اپنے فضل و کرم سے ) ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کر دے تاکہ تیرے شکر گزار ہوں “
ہاجرہ چند روز تک مشکیزہ سے پانی اور خورجی سے کھجوریں کھاتی اور اسماعیل کو دودھ پلاتی رہیں لیکن وہ وقت بھی آگیا کہ پانی رہا نہ کھجوریں تب وہ سخت پریشان ہوئیں ‘چونکہ وہ بھوکی پیاسی تھیں اس لیے دودھ بھی نہ اترتا تھا اور بچہ بھی بھوکا پیاسا رہا جب حالت دگرگوں ہونے لگی اور بچہ بیتاب ہونے لگا تو ہاجرہ اسماعیل کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں تاکہ اس حالت زار میں اس کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھیں ‘کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ نظر آجائے یا پانی نظر آجائے مگر کچھ نظر نہ آیا۔پھر بچہ کی محبت میں دوڑ کر وادی میں آگئیں اس کے بعد دوسری جانب کی پہاڑی مروہ پر چڑھ گئیں اور وہاں بھی جب کچھ نظر نہ آیا تو پھرتیزی سے لوٹ کر وادی میں بچہ کے پاس آگئیں اور اس طرح سات مرتبہ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام پر پہنچ کر فرمایا کہ یہی وہ ” سعی بین الصفا والمروہ “ ہے۔جو حج میں لوگ کرتے ہیں آخر میں جب وہ مروہ پر تھیں تو کانوں میں ایک آواز آئی ‘ چونکیں اور دل میں کہنے لگیں کہ کوئی پکارتا ہے کان لگایا تو پھر آواز آئی ہاجرہ کہنے لگیں۔اگر تم میری مدد کرسکتے ہو تو سامنے آؤ تمھاری آواز سنی گئی دیکھا تو خدا کا فرشتہ (جبرئیل) ہے۔فرشتہ نے اپنا پیر (یا ایڑی) اس جگہ مارا جہاں زم زم ہے اس جگہ سے پانی ابلنے لگا ہاجرہ نے یہ دیکھا تو پانی کے چاروں طرف باڑ بنانے لگیں مگر پانی برابر ابلتا رہا۔ اس جگہ پہنچ کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم کرے اگر وہ زم زم کو اس طرح نہ روکتیں اور اس کے چار جانب باڑھ نہ لگاتیں تو آج وہ زبردست چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور پھر اسماعیل (علیہ السلام) کو دودھ پلایا فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا خوف اور غم نہ کر اللہ تعالیٰ تجھ کو اور اس بچہ کو ضائع نہ کرے گا ‘ یہ مقام ” بیت اللہ “ ہے۔جس کی تعمیر اس بچہ (اسمٰعیل) اور اس کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی قسمت میں مقدر ہو چکی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس خاندان کو ہلاک نہیں کرے گا۔بیت اللہ کی یہ جگہ قریب کی زمین سے نمایاں تھی مگر پانی کا سیلاب داہنے بائیں اس حصہ کو برابر کرتا جارہا تھا ‘ اسی دوران میں بنی جرہم کا ایک قبیلہ اس وادی کے قریب آکر ٹھہرا ‘دیکھا تو تھوڑے سے فاصلہ پر پرندے اڑ رہے ہیں جرہم نے کہا یہ پانی کی علامت ہے وہاں ضرور پانی موجود ہے جرہم نے بھی قیام کی اجازت مانگی ہاجرہ نے فرمایا قیام کرسکتے ہو ‘ پانی بھی استعمال کرسکتے ہو ‘ لیکن پانی میں ملکیت کے حصہ دار نہیں ہو سکتے۔ بنی جرہم نے یہ بات بخوشی منظور کرلی اور وہیں مقیم ہو گئے۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاجرہ خود بھی باہمی انس ورفاقت کے لیے یہ چاہتی تھیں کہ کوئی یہاں آکر مقیم ہو اس لیے انھوں نے مسرت کے ساتھ بنی جرہم کو قیام کی اجازت دے دی ‘بنی جرہم نے آدمی بھیج کر اپنے باقی ماندہ اہل خاندان کو بھی بلا لیا اور یہاں مکانات بنا کر رہنے سہنے لگے۔ ان ہی میں اسماعیل (علیہ السلام)بھی رہتے اور کھیلتے اور ان سے ان کی زبان سیکھتے ‘ جب اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہو گئے تو ان کا طرز و انداز اور ان کی خوبصورتی بنی جرہم کو بہت بھائی اور انھوں نے اپنے خاندان کی لڑکی سے ان کی شادی کردی ‘اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہاجرہ کا انتقال ہو گیا ابراہیم (علیہ السلام) برابر اپنے اہل و عیال کو دیکھنے آتے رہتے تھے ایک مرتبہ تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) گھر پر نہ تھے۔ان کی اہلیہ سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ روزی کی تلاش میں باہر گئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے دریافت کیا ‘ گزران کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہنے لگی سخت مصیبت و پریشانی میں ہیں اور سخت دکھ اور تکلیف میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ سن کر فرمایا اسماعیل سے میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کر دو ‘اسماعیل (علیہ السلام) واپس آئے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے نور نبوت کے اثرات پائے پوچھا کہ کوئی شخص یہاں آیا تھا ‘ بی بی نے سارا قصہ سنایا اور پیغام بھی ‘ اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ میرے باپ ابراہیم تھے اور ان کا یہ مشورہ ہے کہ میں تجھ کو طلاق دے دوں ‘ لہٰذا میں تجھ کو جدا کرتا ہوں۔
اسمٰعیل (علیہ السلام) نے پھر دوسری شادی کرلی ایک مرتبہ ابراہیم (علیہ السلام) پھر اسمٰعیل (علیہ السلام) کی غیوبت میں آئے ‘اسی طرح ان کی بی بی سے سوالات کیے ‘بی بی نے کہا خدا کا شکر و احسان ہے اچھی طرح گذر رہی ہے ‘ دریافت کیا کھانے کو کیا ملتا ہے ؟ اسماعیل کی بی بی نے جواب دیا گوشت ‘ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا اور پینے کو ؟ اس نے جواب دیا ‘ پانی ‘ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا مانگی :
( (اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِی اللَّحْمِ وَالْمَائِ ) ) ” اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ “
اور چلتے ہوئے پیغام دے گئے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو محفوظ رکھنا ‘ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) آئے ‘ تو ان کی بی بی نے تمام واقعہ دہرایا اور پیغام بھی سنایا ‘ اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ میرے باپ ابراہیم تھے اور ان کا پیغام یہ ہے کہ تو میری زندگی بھر رفیقہ حیات رہے۔ “ (الخ)
یہ طویل روایت بخاری کتاب الرؤیا اور کتاب الانبیاء میں دو جگہ منقول ہے اور دونوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) وادی غیر ذی زرع (بن کھیتی کی سر زمین) یعنی مکہ میں بحالت شیر خوارگی پہنچے تھے۔ مگر سید سلیمان ندویؒ ارض القرآن میں تورات کی روایت کی تردید یا تصحیح کرتے ہوئے یہ تحریر فرماتے ہیں کہ اسماعیل (علیہ السلام) اس وقت سن رشد کو پہنچ چکے تھے ‘اور قرآن کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں :
{ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰیط قَالَ یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّااِبْرٰہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَـلَائُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلَامٌ عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ } [10]
” اے پروردگار عطا کر مجھ کو نیک لڑکا پس بشارت دی ہم نے اس کو بردبار لڑکے کی ‘پھر جب پہنچا وہ اس سن کو کہ باپ کے ساتھ دوڑے تو باپ نے کہا میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں ‘ دیکھو تم کیا سمجھتے ہو ‘ بیٹے نے کہا میرے باپ جو حکم کیا گیا ہے کر گزرو ‘مجھے صابر پاؤ گے۔۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی جو نبی ہوگا ‘ اور نیکوکاروں میں سے ہوگا اور اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی۔ “ ” اے ہمارے پروردگار میں نے بسایا ہے اپنی اولاد میں سے بن کھیتی کی سرزمین میں تیرے محترم گھر کے پاس “ اور آخر میں ہے :
{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ } [11] ” سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے بخشا مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق۔ “
وجہ استدلال یہ ہے کہ صافات کی پہلی آیت میں بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) سن رشد تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ رہے اور آخر کی آیت بتاتی ہے کہ اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہو چکے تھے اور اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) سے ١٣ سال بڑے تھے۔ اور سورة ابراہیم کی آیتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل جب مکہ میں لائے گئے ہیں تو وہ سن رشد کو پہنچ چکے تھے تب ہی تو ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا میں دونوں کا ذکر فرمایا ہے۔ [12]
اس استدلال کے بعد سید صاحب بخاری کی روایت کو ابن عباس ؓ پر موقوف اور اسرائیلیات سے قرار دیتے ہیں مگر سید صاحب کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اور نہ ان کی پیش کردہ آیات سے اس کی تائید نکلتی ہے۔
اول۔۔ اس لیے کہ صافات میں بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ کا یہ مطلب لینا کہ اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ فلسطین ہی میں پرورش پاتے رہے تب صحیح ہو سکتا تھا کہ اس جملہ کے بعد آیت میں کوئی دوسرا جملہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے مکہ پہنچنے کے متعلق مذکور ہوتا تاکہ ذبح اسماعیل کے واقعہ کے ساتھ صحیح جوڑ لگ سکتا کیونکہ اس پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے اور سید صاحب بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ ذبح اسماعیل کا واقعہ مکہ کی زندگی سے وابستہ ہے ‘اور آیت یہ کہتی ہے کہ ” جب اسماعیل (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچے تو ان کے باپ نے ان سے اپنا خواب بیان کیا “ پس سید صاحب کی توجیہ کے مطابق اس آیت میں سخت ابہام ہے ‘ حالانکہ قرآن عزیز کے طرز خطابت اور اصول بیان کے یہ قطعاً خلاف ہے کہ ایک آیت کے اندر اس طرح کا ابہام پیدا کر دے جس سے دو اہم زندگیوں کے درمیان کوئی ربط قائم نہ رہ سکے۔
دوم۔۔ اس لیے کہ صٰفٰت میں اسماعیل (علیہ السلام) سے متعلق جس واقعہ کا ذکر ہے۔ وہ ذبح عظیم کا تذکرہ ہے نہ کہ مکہ پہنچنے کا اور وہ بلاشبہ اسماعیل (علیہ السلام) کے سن رشد کا زمانہ ہے اور اسحاق (علیہ السلام) اس وقت پیدا ہو چکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اگرچہ ہاجرہ اور اسماعیل (علیہا السلام) کو مکہ کے بیابان و صحرا میں چھوڑ آئے تھے لیکن باپ تھے ‘ نبی و پیغمبر تھے ‘ اہلیہ اور بیٹے کو کیسے بھول سکتے ‘ اور ان کی نگہداشت سے کیسے بے پروا ہو سکتے تھے ‘ وہ برابر اس بے آب وگیاہ صحرا میں آتے رہتے اور اپنے خاندان کی نگرانی کرتے رہتے تھے اور آیت ” بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ “ سے یہی مراد ہے لہٰذا اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت کا ذکر بالکل برمحل ہے ‘خود سید صاحب تورات کے ایک فقرہ کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” تورات میں یہ مذکور نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ساتھ آئے تھے۔لیکن کون شقی ہوگا جو اپنے عزیز بچہ کو جس کی پیدائش کی اس نے خود دعا کی ہو جس کے لیے زندگی اس نے خدا سے مانگی ہو ‘ اس کو تنہا بے آب وگیاہ مقام میں ہمیشہ کے لیے جانے دے۔ “[13] اسی طرح سورة ابراہیم (علیہ السلام) کی آیت میں عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمْ کے بعد یہ جملہ ہے :
{ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ }[14] ” اے ہمارے پروردگار (میں نے کعبہ کے پاس ان کو اس لیے بسایا) تاکہ یہ نماز کو قائم کریں پس تو لوگوں کو ان کی طرف پھیر دے۔ “
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بیت اللہ کی تعمیر کے بعد سے متعلق ہے اور آیت کا سیاق وسباق صاف صاف اسی پر دلالت کرتا ہے اس میں قیام صلوٰۃ کا ذکر ہے اس میں حج کی طرف اشارہ ہے اور اس میں یہاں کے بسنے والوں کے لیے رزق کی وسعت کی تمنا جھلکتی ہے اور یہ سب باتیں جب ہی موزوں ہو سکتی ہیں کہ بیت اللہ اپنی تعمیر کے ساتھ موجود ہو البتہ ابن عباس ؓ کی روایت میں بھی اس دعا کا ذکر آتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خاندان کو یہاں چھوڑتے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو دعا مانگی تھی وہ اسی دعا کے قریب قریب تھی ‘ اس لیے ابن عباس ؓ کی روایت میں اس آیت کو بطور استشہاد نقل کر دیا گیا ہے ‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ بعینہٖ یہی وہ دعا ہے جو اس وقت انھوں نے مانگی تھی اور اس میں اسحاق (علیہ السلام) کا بھی ذکر تھا۔جب ابن عباس ؓ خود روایت کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ اسماعیل (علیہ السلام) کی شیر خوارگی کا ہے تو وہ کس طرح یہ کہہ سکتے تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت ایسی دعا مانگی جس کے آخر میں اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا بھی ذکر تھا۔
سوم۔۔ اس بن کھیتی کی سرزمین (مکہ) کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ میں شور پانی کے سوائے شیریں پانی کا نام و نشان نہیں ہے اور آج بھی آلات جدیدہ کی اعانت کے باوجود اس زمین سے شیریں پانی کا اخراج ناممکن بنا ہوا ہے تو ” زمزم “ کا وجود یہاں کیسے ہوا ؟ یہ مذہبی اور تاریخی دونوں حیثیت سے اہم سوال ہے۔سو اس کے متعلق اگرچہ آیات قرآنی کوئی تصریح نہیں کرتیں ‘ مگر بخاری کی یہی ابن عباس ؓ والی ہر دو روایات اس کے وجود کی تاریخ بیان کرتی ہیں جس میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو شیر خوار ظاہر کیا گیا ہے ‘ اور تورات میں بھی جس طرح اس کا ذکر ہے وہ ان ہی آیات میں سے ہے جو اسماعیل (علیہ السلام) کو شیر خوار ظاہر کرتی ہیں۔ بہرحال اگرچہ قرآن عزیز کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسماعیل (علیہ السلام) اس سرزمین (مکہ) میں کس سن میں پہنچائے گئے ‘مگر بخاری کی روایات کہتی ہیں کہ یہ زمانہ اسماعیل (علیہ السلام) کی شیر خوارگی کا تھا ‘ اور یہی صحیح ہے پس ابن عباس ؓ کی یہ روایت اسرائیلیات میں سے نہیں ہے بلکہ زبان وحی ترجمان کی بیان کردہ تفصیلات کی صحیح ترجمانی ہے۔

قرآن عزیز نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے متعلق ان کا نام لے کر صاف صاف کوئی ذکر نہیں کیا ‘البتہ بغیر نام لیے ہوئے ان کی ولادت کی بشارت کا تذکرہ موجود ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) ابھی تک اولاد سے محروم ہیں اس لیے درگاہِ الٰہی میں ایک نیک اور صالح فرزند کے لیے دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشتا اور ولادت فرزند کی بشارت دیتا ہے :
{ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ } [15] ” اے پروردگار مجھ کو ایک نیکوکار لڑکا عطا کر ‘پس ہم نے اس کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ “ یہ ” غلام حلیم “ کون ہے ؟وہی اسماعیل ((علیہ السلام)) جو ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا ‘اس لیے کہ قرآن عزیز کی اس آیت سے دوسری آیت کے بعد حضرت اسحاق کی بشارت کا ذکر ہے :
{ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ } [16] ” اور بشارت دی ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی جو نیکوکاروں میں سے ہوگا ‘ نبی ہوگا اور برکت دی ہم نے اس پر اور اسحاق پر۔ “ پس جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ابھی دو بیٹے تھے اسماعیل ((علیہ السلام)) اور اسحاق ((علیہ السلام)) اور تورات و تاریخ کی متفقہ نقل کے پیش نظر اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہیں اور اسحاق (علیہ السلام) چھوٹے تو صاف ظاہر ہے کہ سورة صافات کی پہلی آیت میں جس لڑکے کی بشارت مذکور ہے اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرا کون مراد ہو سکتا ہے ؟ اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ہاجرہ و اسماعیل (علیہا السلام) کو مکہ میں آباد کیا تھا تو ان کے لیے دعا کرتے ہوئے اس طرح اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا :
{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ } [17] ” تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحاق عطا کیے۔ “ یہ آیت بھی اسی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سورة الصافات کی آیت میں جس بشارت کا ذکر ہے اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی مراد ہیں۔

ختنہ

جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر ننانوے سال ہوئی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی تیرہ سال تو اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ ختنہ کرو ‘ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیل حکم میں پہلے اپنی ختنہ کی ‘اور اس کے بعد اسماعیل (علیہ السلام) اور تمام خانہ زادوں اور غلاموں کی ختنہ کرائیں :
” تب ابراہام نے اپنے بیٹے اسماعیل اور سب خانہ زادوں اور اپنے سب زر خریدوں کو یعنی ابراہام کے گھر کے لوگوں میں جتنے مرد تھے۔سب کو لیا اور اس روز ان کا ختنہ کیا جس طرح خدا نے اس کو فرمایا تھا جس وقت ابراہام کا ختنہ ہوا تو وہ ننانوے برس کا تھا اور جب اس کے بیٹے اسماعیل کا ختنہ ہو وہ تیرہ برس کا تھا۔ “ [18] یہی رسم ختنہ آج بھی ” ملت ابراہیمی “کا شعار ہے اور سنت ابراہیمی کے نام سے مشہور ہے۔

ذبح عظیم

مقربین بارگاہ الٰہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ وہ نہیں ہوتا جو عام انسانوں کے ساتھ ہے ان کو امتحان و آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گذرنا پڑتا اور قدم قدم پر جاں سپاری اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم گروہ انبیا اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعو بتوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) بھی چونکہ جلیل القدر نبی اور پیغمبر تھے اس لیے ان کو بھی مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا اور اپنی جلالت قدر کے لحاظ سے ہر دفعہ امتحان میں کامل و مکمل ثابت ہوئے۔ جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تو اس وقت جس صبر اور رضا بہ قضائے الٰہی کا انھوں نے ثبوت دیا ‘اور جس عزم و استقامت کو پیش کیا وہ انہی کا حصہ تھا ‘اس کے بعد جب اسماعیل اور ہاجرہ (علیہا السلام) کو فاران کے بیابان میں چھوڑ آنے کا حکم ملا تو وہ بھی معمولی امتحان نہ تھا ‘آزمائش اور سخت آزمائش کا وقت تھا۔بڑھاپے اور پیری کی تمناؤں کے مرکز ‘ راتوں اور دنوں کی دعاؤں کے ثمر اور گھر کے چشم و چراغ اسماعیل کو صرف حکم الٰہی کی تعمیل و امتثال میں ایک بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑتے ہیں اور پیچھے پھر کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور امتثال امر الٰہی میں کوئی لغزش ہوجائے۔
ان دونوں کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب ایک تیسرے امتحان کی تیاری ہے جو پہلے دونوں سے بھی زیادہ زہرہ گداز اور جاں گسل امتحان ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تین شب مسلسل خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابراہیم تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے۔ انبیا (علیہم السلام) کا خواب ” رویائے صادقہ “اور وحی الٰہی ہوتا ہے اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) رضا و تسلیم کا پیکر بن کر تیار ہو گئے کہ خدا کے حکم کی جلد سے جلد تعمیل کریں ‘مگر چونکہ یہ معاملہ تنہا اپنی ذات سے وابستہ نہ تھا بلکہ اس آزمائش کا دوسرا جزء وہ بیٹا تھا۔جس کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا ‘اس لیے باپ نے بیٹے کو اپنا خواب اور خدا کا حکم سنایا ‘بیٹا ابراہیم جیسے مجدد انبیا ورسل کا بیٹا تھا فوراً سر تسلیم خم کر دیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر پائیں گے اس گفتگو کے بعد باپ بیٹے اپنی قربانی پیش کرنے کے لیے جنگل روانہ ہو گئے۔باپ نے بیٹے کی مرضی پا کر مذبوح جانور کی طرح ہاتھ پیر باندھے ‘ چھری کو تیز کیا اور بیٹے کو پیشانی کے بل بچھاڑ کر ذبح کرنے لگے ‘فوراً خدا کی وحی ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ‘اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھلایا ‘بیشک یہ بہت سخت اور کٹھن آزمائش تھی ‘اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو بیٹے کے بدلہ میں ذبح کر ‘ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح نوازا کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جھاڑی کے قریب ایک مینڈھا کھڑا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کا شکر شکرادا کرتے ہوئے اس مینڈھے کو ذبح کیا۔
یہی وہ ” قربانی “ ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہوئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ کے لیے ملت ابراہیمی کا شعار قرار پائی اور آج بھی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو تمام دنیائے اسلام میں یہ ” شعار “اسی طرح منایا جاتا ہے۔ مگر اس پورے واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ” ذبیح “کون ہے ‘ اسماعیل ((علیہ السلام)) یا اسحاق ((علیہ السلام)) ؟ قرآن عزیز نے اگرچہ ” ذبیح “ کا نام نہیں لیا مگر جس طرح اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے اس سے بغیر کسی کنج وکاؤ کے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نص قرآنی اسماعیل کو ذبیح بتاتی ہے اور یہی واقعہ اور حقیقت ہے۔سورة الصافات میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
{ رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُـلَامٍ حَلِیْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰیط قَالَ یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّا اِبْرٰہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَـلَائُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَـلَامٌ عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنْ الصَّالِحِیْنَ وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ } [19] ” اے پروردگار مجھ کو ایک نیکوکار لڑکا عطا کر پس بشارت دی ہم نے ان کو بردبار لڑکے کی پھر جب وہ اس سن کو پہنچا کہ باپ کے ساتھ دوڑنے لگے ‘ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس تو دیکھ کیا سمجھتا ہے ؟ کہا اے میرے باپ جس بات کا تجھے حکم کیا گیا ہے وہ کر ‘ اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھ کو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پس جب ان دونوں نے رضا و تسلیم کو اختیار کر لیا اور پیشانی کے بل اس (بیٹے) کو پچھاڑ دیا ہم نے اس کو پکارا اے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا بیشک ہم اسی طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں بلاشبہ یہ کھلی ہوئی آزمائش ہے اور بدلہ دیا ہم نے اس کو بڑے ذبح (مینڈھے) کے ساتھ ‘ اور ہم نے آنے والی نسلوں میں اس کے متعلق یہ باقی چھوڑا کہ ابراہیم پر سلام ہو ‘اس طرح ہم نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے اور بشارت دی ہم نے اس کو اسحاق کی جو نبی ہوگا اور نیکوکاروں میں سے ہوگا اور برکت دی ہم نے اس پر اور اسحاق پر۔ “
ان آیات میں ابراہیم (علیہ السلام) کے دوصاحبزادوں کی بشارت کا ذکر ہے پہلے لڑکے کا نام نہیں لیا اور غُلَام حَلِیْمٍ کہہ کر اس کے ذبح عظیم کے واقعہ کا تذکرہ کیا اور اس کے بعد دوسرے لڑکے کی بشارت کا ذکر نام لے کر کیا بَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰق اور یہ طے شدہ امر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق ((علیہا السلام)) میں سے اسماعیل بڑے ہیں اور اسحاق چھوٹے۔پس جبکہ چھوٹے لڑکے کا ذکر بعد کی آیت میں نام لے کر کر دیا گیا تو پہلی آیت میں اسماعیل (علیہ السلام) کے علاوہ اور کس کا ذکرہو سکتا ہے ؟ بلاشبہ وہ اسماعیل (علیہ السلام) ہی ہیں جنھوں نے سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ کہہ کر اور وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ کا مظاہرہ کرکے وَفَدَیْنٰــہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ کا اعزاز حاصل کیا علاوہ ازیں صرف قرآن عزیز ہی اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبیح نہیں کہتا بلکہ تورات کی عبارت کو اگر غور سے مطالعہ کیجئے تو وہ بھی یہی بتاتی ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) اور صرف اسماعیل (علیہ السلام) ہی ذبیح ہیں :
” ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہام کو آزمایا اور اسے کہا کہ تو اپنے بیٹے ہاں اپنے ” اکلوتے بیٹے “ کو جس کو تو پیار کرتا ہے ” اسحاق کو لے “اور زمین موریاہ میں جا اور اسے وہاں پہاڑوں میں سے ایک پر جو میں تجھے بتاؤں گا ‘ سو ختنی قربانی کے لیے چڑھا۔ “ [20] ” تب خداوند کے فرشتے نے دوبارہ آسمان پر سے ابراہام کو پکارا اور کہا کہ : خداوند فرماتا ہے اس لیے کہ تو نے ایسا کام کیا اور ”اپنا اکلوتا ہی بیٹا “ دریغ نہ رکھا ‘ میں نے اپنی قسم کھائی کہ میں تجھے برکت دوں گا۔ “ [21] تورات کی ان ہر دو عبارات کے نشان زدہ فقروں ” اپنے اکلوتے بیٹے “ اور ” اپنا اکلوتا ہی بیٹا “ کو دیکھیے اور پھر تورات کی ان گذشتہ آیات کو پڑھیے کہ جن میں اسماعیل (علیہ السلام) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اکلوتابیٹا بتایا گیا ہے کیونکہ اسماعیل جب چودہ برس کے ہو چکے ہیں تب اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ہے کیا ان سے یہ صاف طور سے واضح نہیں ہوتا کہ ”ذبیح “ جیسے اعزاز کو بنی اسرائیل کے ساتھ وابستہ کرنے کی یہ غلط حرص تھی جس نے یہود کو اس تحریف پر آمادہ کیا کہ انھوں نے اس عبارت میں ” اکلوتے بیٹے “ کے فقرے کے ساتھ ” اسحاق “ کا نام بے محل جوڑ دیا ؟ پس یہ اضافہ تورات کی تصریحات کے بھی خلاف ہے اور نص قرآنی کے بھی اور واقعہ و حقیقت کے بھی قطعاً خلاف ہے۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ” ذبیح اللہ “ کا عظیم الشان شرف اسماعیل (علیہ السلام) ہی کے لیے مقسوم تھا۔ { ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ } [22] ” یہ اللہ کا فضل ہے جس کو وہ چاہے اس کو دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “
سخت تعجب ہے کہ چند علما اسلام بھی اس غلطی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ ” ذبیح “ اسماعیل ((علیہ السلام)) نہ تھے ‘ اسحاق ((علیہ السلام)) تھے اور جو دلائل انھوں نے اس سلسلہ میں بیان کیے ہیں افسوس کہ ہم ان سے متفق نہیں ہو سکتے ‘کیونکہ ان کی بنیاد و اساس محض وہم وظن پر قائم ہے نہ کہ یقین کی روشنی پر مثلاً ان کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ” سورة الصافات “ کی مسطورہ بالا آیات میں سے پہلی آیت ” بَشَّرْنٰہُ بِغُـلَامٍ حَلِیْم “ میں کوئی نام مذکور نہیں ہے اور اس کے بعد کی آیات میں اس کے ذبح سے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” بَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ “ تو کیا ” غُلَامٍ حَلِیْمٍ “ بھی یہی ”اسحاق “ نہیں ہیں ؟ مگر آپ خود اندازہ کیجئے کہ یہ کس قدر غلط استدلال ہے اول ان آیات کے سیاق وسباق کا مطالعہ کیجئے اور پھر غور کیجئے کہ وَبَشَّرَنٰہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ کے بعد وَبَشَّرْنٰـہُ بِاِسْحٰق کو عطف کے ذریعہ جس طرح جدا کیا گیا ہے عربی اصول نحو کے مطابق کون سی گنجائش ہے کہ ان دونوں کو ایک ہی شخصیت قرار دیا جائے خصوصاً جب کہ دونوں کی بشارت کے ذکر کے ساتھ ساتھ جدا جدا ان کے اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں ‘صاحب قصص الانبیاء عبد الوہاب نجار نے اس موقع پر آیت وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحٰقَ میں عَلَیْہِ کی ضمیر ” ذبیح “کی جانب راجع کی ہے اور یہ ترجمہ کیا ہے ” ہم نے برکت نازل کی اس ” ذبیح “ پر اور اسحاق پر “ اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ پورا قصہ بیان کرنے کے بعد اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت کا ذکر اس بات کے لیے ” نص “ ہے کہ صاحب قصہ لڑکا اسحاق ((علیہ السلام)) کے علاوہ ہے اور وہ صرف اسماعیل ((علیہ السلام)) ہی ہو سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ واقعہ مکہ کے قریب منیٰ میں پیش آیا ہے اور تورات کا جملہ ” اکلوتا بیٹا “ اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ ابھی تک حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت بھی نہیں ہوئی لہٰذا تورات کا اس واقعہ کو موریاہ کے قریب بتانا اسی قسم کی تحریف ہے جس سے تورات کا کوئی باب خالی نہیں اور جس کا انکار بداہت کا انکار ہے۔ ١ ؎ (١ ؎ تحریف کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی قدس اللہ سرہٗ کی کتاب ” اظہار الحق “ قابل مطالعہ ہے۔ یہ مسئلہ اگرچہ بہت زیادہ تفصیل طلب ہے لیکن ہم نے صرف ضروری امور کے بیان کردینے پر اکتفا کیا ہے۔ [23]

بنائے کعبہ

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے مگر برابر مکہ میں ہاجرہ و اسماعیل (علیہا السلام) کو دیکھنے آتے رہتے تھے ‘ اسی اثناء میں ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ” کعبۃ اللہ “ کی تعمیر کرو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے تذکرہ کیا اور دونوں باپ بیٹوں نے بیت اللہ کی تعمیر شروع کردی۔
حافظ ابن حجر عسقلانؒ نے فتح الباری ٢ ؎[24] میں ایک روایت نقل کی ہے ‘ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور ملائکۃ اللہ نے ان کو وہ مقام بتادیا تھا جہاں کعبہ کی تعمیر ہوئی تھی ‘مگر ہزاروں سال کے حوادث نے عرصہ ہوا اس کو بے نشان کر دیا البتہ اب بھی وہ ایک ٹیلہ یا ابھری ہوئی زمین کی شکل میں موجود تھا یہی وہ مقام ہے جس کو وحی الٰہی نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتایا اور انھوں نے اسماعیل (علیہ السلام) کی مدد سے اس کو کھودنا شروع کیا تو سابق تعمیر کی بنیادیں نظر آنے لگیں ‘انہی بنیادوں پر بیت اللہ کی تعمیر کی گئی ‘مگر قرآن عزیز نے بیت اللہ کی تعمیر کا معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے شروع کیا ہے اور اس سے پہلی حالت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ حاصل یہ کہ اس واقعہ سے قبل تمام کائنات اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں بتوں اور ستاروں کی پرستش کے لیے ہیکل اور مندر موجود تھے اور ان ہی کے ناموں پر بڑی بڑی تعمیرات کی جاتی تھیں۔
مصریوں کے یہاں سورج دیوتا ‘ اِزریس ‘ اُزریس ‘حوریس اور بعل دیوتا سب ہی کے نام پر ہیکل اور مندر تھے اشوریوں نے بعل دیوتا کا ہیکل بنایا اور ابوالہول کا مجسمہ بنا کر اس کی جسمانی عظمت کا مظاہر کرایا ‘کنعانیوں نے مشہور قلعہ بعلبک میں اسی بعل کا مشہور ہیکل بنایا تھا جو آج تک یادگار چلا آتا ہے ” غزہ کے باشندے “ ” داجون “ مچھلی دیبی کے مندر پر چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ جس کی شکل انسان کی اور جسم مچھلی کا بنایا گیا تھا عمونیوں نے سورج دیوتا کے ساتھ عشتارون (قمر) کو دیبی بنا کر پوجا اور اس کے لیے عظیم الشان ہیکل تیار کیے فارس نے آگ کی تقدیس کا اعلان کرکے آتش کدے تیار کیے رومیوں نے مسیح اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے بت بنا کر کلیساؤں کو زینت دی اور ہندیوں نے مہاتما بدھ ‘ شری رام چندر ‘شری مہاویر اور مہادیو کو دیوتا اور اوتارمان کر اور کالی دیوی ‘ سیتلا دیوی ‘ سیتا دیوی اور پاربتی دیوی ناموں سے ہزاروں بتوں کی پرستش کے لیے کیسے کیسے عظیم الشان منادر تیار کیے ‘ہر دوار ‘ پر یاگ ‘ کاشی پوری ‘ ٹیکسلا ‘سانچی اور بودہ گیا جیسے مذہبی مقامات اس کی زندہ شہادتیں ہیں۔ مگر ان سب کے برعکس صرف خدائے واحد کی پرستش اور اس کی یکتائی کے اقرار میں سر نیاز جھکانے کے لیے یا یوں کہیے کہ توحید الٰہی کی سر بلندی کے اظہار کے لیے دنیا کے بتکدوں میں پہلا گھر جو خدا کا گھر کہلایا وہ یہی ” بیت اللہ “ ہے۔
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا

خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ }[25] ” بیشک سب سے پہلا وہ گھر جو لوگوں کے لیے (خدا کی یاد کے لیے) بنایا گیا البتہ وہہے جو مکہ میں ہے ‘ وہ سرتا پا برکت ہے اور جہان والوں کے لیے ہدایت (کا سرچشمہ) “ اسی تعمیرکو یہ شرف حاصل ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) جیسا جلیل القدر پیغمبر اس کا معمار ہے اور اسماعیل (علیہ السلام) جیسا نبی و ذبیح اس کا مزدور ‘باپ بیٹے برابر اس کی تعمیر میں مصروف ہیں اور جب اس کی دیواریں اوپر اٹھتی ہیں اور بزرگ باپ کا ہاتھ اوپر تعمیر سے معذور ہوجاتا ہے تو قدرت کی ہدایت کے مطابق ایک پتھر کو باڑ بنایا جاتا ہے جس کو اسماعیل (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے سہارا دیتے اور ابراہیم (علیہ السلام) اس پر چڑھ کر تعمیر کرتے جاتے ہیں یہی وہ یادگار ہے جو آج مقام ابراہیم کے نام سے موسوم ہے جب تعمیر اس حد پر پہنچی جہاں آج حجر اسود نصب ہے تو جبرائیل امین نے ان کی راہنمائی کی اور حجراسود کو ان کے سامنے ایک پہاڑی سے محفوظ نکال کر دیا جس کو جنت کا لایا ہوا پتھر کہا جاتا ہے تاکہ وہ نصب کر دیا جائے۔
بیت اللہ تعمیر ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتایا کہ یہ ملت ابراہیمی کے لیے (قبلہ) اور ہمارے سامنے جھکنے کا نشان ہے اس لیے یہ توحید کا مرکز قرار دیا جاتا ہے تب ابراہیم و اسماعیل (علیہا السلام) نے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی ذریت کو اقامت صلوٰۃ و زکوۃ کی ہدایت دے اور استقامت بخشے اور ان کے لیے پھلوں ‘میووں اور رزق میں برکت عطا فرمائے اور تمام اقطاع عالم کے بسنے والوں میں سے ہدایت یافتہ گروہ کو اس طرف متوجہ کرے کہ وہ دور دور سے آئیں اور مناسک حج ادا کریں اور ہدایت ورشد کے اس مرکز میں جمع ہو کر اپنی زندگی کی سعادتوں سے دامن بھریں۔ قرآن عزیز نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیم و اسماعیل (علیہا السلام) کی مناجات ‘ اقامت صلوٰۃ اور مناسک حج کی ادا کے لیے شوق و تمنا کے اظہار اور بیت اللہ کے مرکز توحید ہونے کے اعلان کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے اور نئے نئے اسلوب و طرز ادا سے اس کی عظمت اور جلالت و جبروت کو ان آیات میں واضح فرمایا ہے :
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰ یٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ ٥ ج وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاط وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْـلًاط وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ } [26] ” بلاشبہ پہلا گھر جو انسان کے لیے (خدا پرستی کا معبد و مرکز) بنایا گیا ہے وہ یہی (عبادت گاہ) ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ‘اس میں (دین حق کی) روشن نشانیاں ہیں ‘ ازاں جملہ مقام ابراہیم ہے (یعنی ابراہیم کے کھڑے ہونے اور عبادت کرنے کی جگہ جو اس وقت سے لے کر آج تک بغیر کسی شک و شبہ کے مشہور و معین رہی ہے) اور (ازاں جملہ یہ بات ہے کہ) جو کوئی اس کے حدود میں داخل ہوا وہ امن و حفاظت میں آگیا اور (ازاں جملہ یہ کہ) اللہ کی طرف سے لوگوں کے لیے یہ بات ضروری ہو گئی کہ اگر اس تک پہنچنے کی استطاعت پائیں تو اس گھر کا حج کریں ‘(بایں ہمہ) جو کوئی (اس حقیقت سے) انکار کرے (اور اس مقام کی پاکی و فضیلت کا اعتراف نہ کرے) تو یاد رکھو اللہ کی ذات تمام دنیا سے بے نیاز ہے (وہ اپنے کاموں کے لیے کسی فرد اور قوم کا محتاج نہیں ) “
{ وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاط وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّیط وَ عَھِدْنَآ اِلٰیٓ اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط قَالَ وَ مَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ اِلٰی عَذَابِ النَّارِط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَص وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [27]

” اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ کے) اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کی گروہ آوری کا مرکز اور امن و حرکت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنائی جائے اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں ‘عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا (اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا ) اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی اے پروردگار اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمینوں سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن وامان کا ایک آباد شہر بنا دے ‘ اور اپنے فضل و کرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہو جائے اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمھاری دعا قبول کی گئی اور یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا ‘ جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا ‘سو اسے بھی ہم (سروسامانِ رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے ‘البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا ‘کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں ) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور (جو بدبخت نعمت کی راہ چھوڑ کر عذاب کی راہ اختیار کرلے تو کیا ہی بری اس کی راہ ہے اور) کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہے اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی بنیاد چن رہا تھا اور اسماعیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ تو پتھر چن رہے تھے ‘ اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار (ہم تیرے دو عاجز بندے تیرے مقدس نام پر اس گھر کی بنیاد رکھ رہے ہیں) ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کو سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے۔ اے پروردگار (اپنے فضل و کرم سے) ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم سچے مسلم (یعنی تیرے حکموں کے فرماں بردار) ہوجائیں اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی امت پیدا کر دے جو تیرے حکموں کی فرماں بردار ہو خدایا ہمیں عبادت کے (سچے) طور طریقے بتادے ‘ اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر ‘ بلاشبہ تیری ہی ذات ہے۔جو رحمت سے درگزر کرنے والی ہے اور جس کی رحیمانہ در گذر کی کوئی انتہا نہیں اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کرنا کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول مبعوث ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے کتاب اور حکمت کی انھیں تعلیم دے اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے ‘ اے پروردگار بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے۔ “
{ وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِج فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ذٰلِکَق وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖط وَ اُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَآئَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖط وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ ذٰلِکَق وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ } [28]

” اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کردی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر ‘اور میرا یہ گھر ان لوگوں کے لیے پاک رکھ جو طواف کرنے والے ہوں ‘ عبادت میں سر گرم رہنے والے ہوں ‘ رکوع و سجود میں جھکنے والے ہوں اور (حکم دیا کہ) ” لوگوں میں حج کا اعلان پکار دے ‘ لوگ تیرے پاس دنیا کی تمام دور دراز راہوں سے آیا کریں گے پاپیادہ اور ہر طرح کی سواریوں پر ‘ جو (مشقت سفر سے) تھکی ہوئی ہوں گی ‘وہ اس لیے آئیں گے کہ اپنے فائدہ پانے کی جگہ میں حاضر ہوجائیں اور ہم نے جو پالتو جانور پائے ان کے لیے مہیا کردیے ہیں ان کی قربانی کرتے ہوئے مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں ‘ پس قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ ‘ پھر قربانی کے بعد وہ اپنے جسم و لباس کا میل کچیل دور کر دیں (یعنی احرام اتار دیں) نیز اپنی نذریں پوری کریں اور اس خانہ قدیم (یعنی خانہ کعبہ) کے گرد پھیرے پھر لیں۔ “ تو دیکھو (حج کی) بات یوں ہوئی اور جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی عظمت مانے ‘ تو اس کے لیے اس کے پروردگار کے حضور بڑی ہی بہتری ہے ‘ اور (یہ بات بھی یاد رکھو کہ) ان جانوروں کو چھوڑ کر جن کا حکم قرآن میں سنا دیا گیا ہے تمام چارپائے تمھارے لیے حلال کیے گئے ہیں ‘ پس چاہیے کہ بتوں کی ناپاکی سے بچتے رہو ‘ نیز جھوٹ بولنے سے ‘ صرف اللہ ہی کے ہو کر رہو ‘ اس کے ساتھ ‘کسی کو شریک نہ کرو ‘ جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اس کا حال ایسا سمجھو جیسے بلندی سے اچانک نیچے گرپڑا ‘ جو چیز اس طرح گرے گی ‘اسے یا تو کوئی پرندہ اچک لے گا یا ہوا کا جھونکا کسی دور دراز گوشہ میں لے جا کر پھینک دے گا (حقیقت حال) یہ ہے پس (یاد رکھو) جس کسی نے اللہ کی نشانیوں کی عظمت مانی ‘ تو اس نے ایسی بات مانی جو فی الحقیقت دلوں کی پرہیزگاری کی باتوں میں سے ہے ‘ ان (چارپایوں) میں ایک مقررہ وقت تک تمھارے لیے (طرح طرح کے) فائدے ہیں۔ پھر اس خانہ قدیم تک پہنچا کر ان کی قربانی کرنی ہے “
{ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌق صلے فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّج فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْط وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ } [29]
” اور (دیکھو ) قربانی کے یہ اونٹ (جنہیں دور دور سے حج کے موقع پر لایا جاتا ہے) تو ہم نے اسے ان چیزوں میں سے ٹھہرا دیا ہے جو تمھارے لیے اللہ کی (عبادت کی) نشانیوں میں سے ہیں ‘ اس میں تمھارے لیے بہتری کی بات ہے پس چاہیے کہ انھیں قطار در قطار ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام یاد کرو پھر جب وہ کسی پہلو پر گرپڑیں (یعنی ذبح ہوجائیں) تو ان کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور فقیروں اور زائروں کو بھی کھلاؤ ‘ اس طرح ہم نے ان جانوروں کو تمھارے لیے مسخرکر دیا تاکہ (احسانِ الٰہی کے) شکر گزار ہو یادرکھو اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون ‘ اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ صرف تمھارا تقویٰ ہے (یعنی تمھارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمھارے لیے مسخر کر دیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار ہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آوازہ بلند کرو ‘اور نیک کر داروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔ “

اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد

اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کا ذکر قرآن عزیز یا احادیث نبویہ میں تفصیل کے ساتھ نہیں آتا ‘البتہ تورات نے ان کے ناموں کا علاحدہ علاحدہ تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ تورات کے قول کے مطابق اسماعیل (علیہ السلام) کے بارہ لڑکے تھے جو بارہ سردار کہلائے اور عرب کے مستقل قبائل کے جد قبیلہ بنے اور ایک لڑکی تھی جس کا نام بشامہ یا محلاۃ تھا۔
” اور ابراہام کے بیٹے اسماعیل کا جسے سری کی لونڈی مصری ہاجرہ ابراہیم کے لیے جنی تھی یہ نسب نامہ ہے اور یہ اسماعیل کے بیٹوں کے نام ہیں مطابق ان کے ناموں اور نسبوں کی فہرست کے ‘اسماعیل کا پہلو ٹھانبایوت ‘ قیدار ‘ ادبئیل ‘ مبسام ‘ مشماع ‘دومہ ‘ منشا ‘ عدار ‘ تیما ‘ یطور ‘ نافیس ‘ قدمایہ ‘یہ اسماعیل کے بیٹے ہیں ‘ اور ان کے نام ان کی بستیوں اور قلعوں میں یہ ہیں اور یہ اپنی امتوں کے بارہ رئیس تھے۔ “ [30]</ref>
ان میں دو بڑے بیٹے نابت یا نبایوت اور قیدار بہت مشہور ہیں اور ان کا ذکر تورات میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے اور عرب مورخین بھی ان کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہیں ‘ یہی وہ نابت ہیں جن کی نسل اصحاب الحجر کہلائی اور قیدار کی نسل اصحاب الرس کے نام سے مشہور ہوئی ان کے علاوہ دوسرے بھائیوں اور ان کے خاندانوں کے حالات بہت کم ملتے ہیں۔

قرآن عزیز میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ

حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر قرآن عزیز میں متعدد بار ہوا ہے ‘ ان میں سے ایک جگہ صرف اوصاف مذکور ہیں ‘ یہ ” ذبح عظیم “ والی آیت ہے اور دو مقام پر اس بشارت کے موقع پر ذکر آیا ہے جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کی پسری اولاد کی بشارت دی گئی ہے اور سورة مریم میں ان کا نام لے کر ان کے اوصاف جمیلہ کا ذکر کیا گیا ہے :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَز اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِوَ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا وَ کَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِص وَ کَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا } [31] ” اور یاد کر کتاب میں اسماعیل کا ذکر ‘ تھا وہ وعدہ کا سچا اور تھا رسول نبی اور حکم کرتا تھا اپنے اہل کو نماز کا اور زکوۃ کا اور تھا وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ۔ “

حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی وفات

حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی وفات سال کی ہوئی تو ان کا انتقال ہو گیا اس وقت ان کے سامنے ان کی اولاد اور نسل کا سلسلہ بہت پھیل گیا تھا جو حجاز ‘ شام ‘ عراق ‘ فلسطین اور مصر تک پھیلی۔تورات ایک موقع پر اشارہ کرتی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قبر فلسطین ہی میں ہے اور یہیں ان کی وفات ہوئی اور عرب مورخین کہتے ہیں کہ وہ اور ان کی والدہ ہاجرہ بیت اللہ کے قریب حرم کے اندر مدفون ہیں۔

حوالہ جات

  1. (پیدائش باب ١٥ آیات ٢ تا ٤)
  2. (پیدائش باب ١٦ آیت ٤)
  3. (پیدائش باب ١٦ آیات ٧ تا ١٢ )
  4. (پیدائش ١٦ آیات ١٥‘ ١٦)
  5. (پیدائش باب ١٧ آیت ١٨ )
  6. (پیدائش باب ١٧ آیت ٢٠)
  7. (پیدائش ٣١ آیات ٩۔ ١٣)
  8. (پیدائش ٢١ آیات ١٤۔ ١٦)
  9. (ابراہیم : ١٤/٣٧)
  10. (الصافات : ٣٧/١٠٠ تا ١١٣)
  11. (ابراہیم : ١٤/٣٩)
  12. (ارض القرآن جلد ٢ ص ٤٣‘ ٤٤)
  13. (ارض القرآن جلد ٢ ص ٣٦)
  14. (ابراہیم : ١٤/٣٧)
  15. (الصافات : ٣٧/١٠٠‘ ١٠١)
  16. (الصافات : ٣٧/١١٢‘ ١١٣)
  17. (ابراہیم : ١٤/٣٩)
  18. (پیدائش باب ١٧ آیات ٢٣۔ ٢٥)
  19. (الصافات : ٣٧/١٠٠ تا ١١٣)
  20. (پیدائش باب ٢٢ آیات ١۔ ٢)
  21. (پیدائش باب ٢٢ آیات ١٥۔ ١٧)
  22. (جمعۃ : ٦٢/٤)
  23. ١ ؎)” الرائے النجیح فی من ہوالذبیح “
  24. ٢ ؎ فتح الباری ج ٨‘ ص ١٣٨۔ )
  25. (آل عمران : ٣/٩٦)
  26. (آل عمران : ٣/٩٦‘ ٩٧)
  27. (البقرۃ : ٢/١٢٥ تا ١٢٩)
  28. (الحج : ٢٢/٢٦ تا ٣٣)
  29. (الحج : ٢٢/٣٦‘ ٣٧)
  30. (پیدائش باب ٢٥ آیات ١٢۔ ١٦)
  31. (مریم : ١٩/٥٤‘ ٥٥)