اشرف علی (پیدائش:22اپریل 1952ءلاہور،پنجاب) پاکستانی سابق کرکٹ کھلاڑی تھے جنھوں نے 1980ء سے 1987ء تک 8 ٹیسٹ اور 16 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے وہ ٹیم میں وکٹ کیپر بیٹسمین تھے اشرف علی کے ایک بھائی سعادت علی نے بھی پاکستان کی طرف سے 8 ایک روزہ میچوں میں اپنے کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اشرف علی پاکستان کے علاوہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، لاہور، پاکستان ریلوے، پاکستان یونیورسٹیز اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی طرف سے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے بطور ریفری بھی اپنے فرائض ادا کیے۔

اشرف علی ٹیسٹ کیپ نمبر 93
ذاتی معلومات
پیدائشError: Need valid birth date: year, month, day
لاہور, پنجاب، پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازی-
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 93)14 مارچ 1982  بمقابلہ  سری لنکا
آخری ٹیسٹ16 دسمبر 1987  بمقابلہ  انگلینڈ
پہلا ایک روزہ (کیپ 32)05 دسمبر 1980  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
آخری ایک روزہ13 اکتوبر 1985  بمقابلہ  سری لنکا
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 8 16
رنز بنائے 229 69
بیٹنگ اوسط 45.79 17.25
100s/50s -/2 -/-
ٹاپ اسکور 65 19*
گیندیں کرائیں - -
وکٹ - -
بولنگ اوسط - -
اننگز میں 5 وکٹ - -
میچ میں 10 وکٹ - n/a
بہترین بولنگ - -
کیچ/سٹمپ 17/5 17/3
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006

اشرف علی کی شخصیت ترمیم

ایک دائیں ہاتھ کے متاثر بلے باز اور غیر معمولی طور پر وکٹوں کے پیچھے متحرک تھے اشرف علی اس وقت ٹیسٹ ٹیم سلیکشن کے لیے نظروں میں آئے جب انھوں نے 1980-81ء کے ڈومیسٹک سیزن میں 37 شکاروں کے علاوہ 1053 رنز بنائے۔ انھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 1981ء میں سری لنکا کے خلاف شاندار اسکور کرتے ہوئے کیا تھا لیکن وسیم باری کی واپسی کے بعد انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔ وسیم۔باری کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ سلیم یوسف کے بعد پاکستان کا دوسرا انتخاب تھے اور بالترتیب 1987-88ء اور 1988-89ء کے دورہ کرنے والی انگلش اور آسٹریلوی ٹیموں کے خلاف پاکستان کے لیے مختصر طور پر نظر آئے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں شمولیت ترمیم

اشرف علی کو سری لنکا کے خلاف 1982ء میں فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا۔ اس پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے پہلی اننگز میں 58 رنز اور دوسری میں 29 رنز ناٹ آئوٹ بنائے۔ یہ میچ جو برابری پر ختم ہوا تھا۔ وہ پاکستانی اننگز کے سکور 270 میں ٹاپ سکورر تھے۔ دوسری اننگ میں ارجنا رانا ٹنگا کو توصیف احمد کی گیند پر کیچ کرکے انھوں نے وکٹوں کے پیچھے اپنا پہلا شکار بنایا۔ انھوں نے سوما چندرا ڈی سلوا کو بھی توصیف احمد کی گیند پر ہی 8 رنز پر سٹمپ کیا۔ دوسری اننگ میں اشرف علی نے محسن حسن خان کے 74 کے بعد 29 ناقابل شکست بنا کر اننگ کا دوسرا بڑا سکور کیا۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر 45 ناٹ آئوٹ بنائے۔ 1984ء میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کے خلاف لاہور میں ان کی 65 رنز کی اننگز قابل دید تھی۔ اس دوران انھوں نے ظہیر عباس کے ساتھ مل کر 142 رنز کی ساتویں وکٹ کی شراکت قائم کی۔ ظہیر عباس اس میچ میں کپتانی کے فرائض ادا کر رہے تھے اور انھوں نے 341 گیندوں پر 6 چوکوں کی مدد سے 168 کی بڑی اننگ کھیلی۔ تاہم فیصل آباد دوسرے ٹیسٹ میں وہ گنوائے بغیر صرف 9 رنز ہی بنائے تھے۔ 1985ء میں فیصل آباد میں سری لنکا کے خلاف انھوں نے 3 کھلاڑیوں کو کیچ کیا۔ 2 سال کے وقفے کے بعد اشرف علی کو دوبارہ 1987ء میں انگلستان کے ساتھ ہوم سیریز میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ بیٹنگ میں تو ان کی کارکردگی کوئی مناسب نہ تھی تاہم وکٹوں کے پیچھے انھوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ان کی آخری ٹیسٹ سیریز تھی۔ اس کے بعد وہ ٹیم کا حصہ نہیں رہے۔

ون ڈے کرکٹ ترمیم

1980ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیالکوٹ کے ون ڈے میچ میں انھوں نے اپنا ون ڈے ڈیبیو کیا۔ ون ڈے میچوں میں بھی اشرف علی رنز بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ 1980ء سے 1985ء تک کے سیزن میں انھوں نے صرف 9 ہی اننگز میں بیٹنگ کی اور مجموعی طور پر 69 رنز تک ہی محدود رہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے اس محدود اوورز کی طرز کرکٹ میں کوئی بڑی اننگ نہیں کھیلی۔

اعداد و شمار ترمیم

اشرف علی نے 8 ٹیسٹوں کی 8 ہی اننگز میں 3 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 229 رنز بنائے۔ 45.80 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعے میں 65 ان کا بہترین انفرادی سکور تھا۔ 2 نصف سنچریاں، 17 کیچز اور 5 سٹمپ ان کی کارکردگی کا آئینہ دار تھے جبکہ 16 ایک روزہ مقابلوں میں انھوں نے 5 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 29 ناقابل شکست رنزوں کی بدولت 17.25 کی اوسط حاصل کی۔ ایک روزہ مقابلوں میں بھی انھوں نے 17 کیچز اور 3 سٹمپ کیے۔ فرسٹ کلاس مقابلوں کی بات کی جائے تو انھوں نے 156 میچوں کی 241 باریوں میں 62 دفعہ آئوٹ ہوئے بغیر 6850 رنز سکور کیے۔ 38.26 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 5 سنچریاں اور 45 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ 136 ناٹ آئوٹ ان کا کسی ایک اننگ کا بہترین سکور تھا۔ وکٹ کیپنگ کے شعبے میں 381 کیچ اور 82 سٹمپ کے ساتھ انھوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔ امپائرنگ کے شعبے میں انھوں نے صرف ایک میچ کور کیا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم