اشفاق اللہ خان برصغیر کے معروف انقلابی، مجاہد آزادی اور شاعر تھے جنھوں نے برصغیر کی آزادی کے لیے اپنی جان دے دی۔[1]

اشفاق اللہ خان
 

معلومات شخصیت
پیدائش 22 اکتوبر 1900ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاہجہاں پور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 دسمبر 1927ء (27 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات پھانسی   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ انقلابی ،  حریت پسند ،  فعالیت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش

ترمیم

اشفاق اللہ خان کی پیدائش 22اکتوبر 1900 کوشاہجہاں پوراتر پردیش کے معزز گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام شفیق اللہ خان اور والدہ کا نام مظہرالنساء بیگم تھا۔

خاندانی پسِ منظر

ترمیم

آپ کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی راج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اشفاق اللہ خان اپنے چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خانرام پرساد بسمل کے ہم جماعت تھے، وہ اشفاق اللہ خان کو اکثربسمل کی شاعری اور انقلابی کارروائیوں کے قصے سنایا کرتے تھے، جس سے اشفاق اللہ خان کے دل میں انقلابی فکرو کردارجاگزیں ہو گیا۔

عملی زندگی

ترمیم

شاعری

ترمیم

آپ ادب و شاعری کا شغف رکھتے تھے، کلام میں وہ ’’وارثیؔ‘‘ اور ’’ حسرت‘‘ کا تخلص استعمال کرتے تھے۔

انقلابی زندگی

ترمیم

اشفاق اللہ خان بچپن ہی سے مجاہدینِ آزادی سے کافی متاثر تھے۔ عمر کے 20ویں سال میں قدم رکھتے رکھتے آپ اپنے شہر اور اس دور کے ایک بڑے انقلابی رام پرساد بسمل سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بسمل سے رابطہ میں آتے ہی آپ عملی جدوجہدِ آزادی میں سرگرم ہو گئے۔ جن دنوں مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت چلا رہے تھے تب بسمل اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ مل کر آپ اس تحریک کے بارے میں عوام کو واقف کرانے اور آزادی کی جدوجہدکے لیے انھیں بیدار کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اس دور میں آزادی کی جدوجہد تو درکنار آزادی کا خواب دیکھنا بھی برطانوی راج کے ظلم کو دعوت دینا تھا۔ اشفاق اللہ خان بھی حکومت کی نظروں میں آنے سے نہیں بچ سکے اورحکومت کے باغیوں میں شامل ہو گئے۔

  • 1922ء میں تحریک خلافت کے دورانچوری چوراکا پر تشدد واقعہ پیش آیا، جس کے بعد گاندھی جی نے خلافت تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ تحریک عدم تعاون کی منسوخی سے پر جوش انقلابیوں میں ایک بے چینی پید ا ہو گئی اور کئی انقلابیوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ کر مسلح جدوجہد کو اپنا لیا۔ اشفاق اللہ خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے جا ملے اور حصول آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا مقصد بنالیا۔

کاکوری واقعہ : مسلح جنگِ آزادی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے لیے کثیر رقم کی حصولی کا تھا۔ انقلابیوں نے طے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے، چنانچہ یہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔ اس مقصد کے تحت انقلابیوں نے 8 اگست 1925ء کو ایک خفیہ نشست کی اور9 اگست1925ء کو کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جا رہی 8 ڈاؤن سہارنپور-لکھنؤ پیسنجر ٹرین روک کر خزانہ لوٹ لیا۔ اس ساری کارروائی میں اشفاق اللہ خان نے اکیلے ہی چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے آہنی تجوری کو تو ڑا۔ اس مہم کی سربراہی انقلابیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی۔ اس مہم میں بسمل اور اشفاق اللہ خان کے علاوہ دیگر 8 انقلابی بھی شامل تھے۔ کاکوری واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا۔ یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت، ان کے غرور و گھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا، جس سے برطانوی حکومت بوکھلا اُٹھی۔ ہندوستان میں موجود برطانوی وائسرائےلارڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولس محکمے کو تفتیش کے لیے نامزد کیا۔ خفیہ پولس نے مہینے بھر ہی میں اس واقعہ میں ملوث انقلابیوں کو شاہجہاں پور شاہجہاں پور سے گرفتا ر کر لیا۔ اشفاق اللہ خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بنارسپہنچ کر وہ ایک انجینئری کمپنی میں ملازمت کرنے لگے۔ وہ رات دن اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکر لالہ ہردیال سے ملیں۔ لالہ ہردیال ان دنوں امریکا میں مقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر و تقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ کر رہے تھے۔ شروعاتی دور میں لالہ ہردیال کمیونزم سے خاصے متاثر رہے۔ اشفاق اللہ خان لالہ ہردیال سے مل کر انھیں آزادی وطن کی سرگرمیوں میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی خاطر اشفاق اللہ خان بنارس سے دلی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں، لیکن ان کے ایک پٹھان دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔ اشفاق اللہ خان فیض آباد جیل روانہ کردیے گئے جہاں پر ان کے خلاف قتل، ڈکیتی اور حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا۔ اشفاق اللہ خان کے بھائی ریاست اللہ خان نے کرپا شنکر ہجیلہ کو ان کے مقدمے کی پیروی سونپی۔ کرپاشنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن برطانوی ظالم حکومت نے عدالتی کارروائی محض خانہ پوری کے لیے کی تھی، چنانچہ انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نے اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل، راجندر لہری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر 16 انقلابیوں میں سے چار کو سزائے عمر قید و باقی کو چار سال کے لیے قید بامشقت کی سزا تفویض کی۔ مقدمے کے دوران انگریزوں نے اشفاق اللہ خان کو سرکاری گواہ بنانے اور رام پرساد بسمل کے خلاف گواہی دینے کے لیے رضامند کرنے کی خاطر پولس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا، جس نے اشفاق اللہ خان کو مذہب کا واسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو جو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو، جو اس ملک کو ہندو راشٹربنانا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اشفاق اللہ خان نے کہا کہ رام پرساد کا ہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا۔ جن لوگوں نے اشفاق اللہ خان کو اسیری کے زمانے میں دیکھا ان کا بیان ہے کہ جیل میں بھی اشفاق اللہ خان پابندی سے پانچوں وقت کی نماز ادا کرتے اور روزانہ تلاوت قرآن بھی کرتے۔ یہ قرآن ہی کا اعزاز ہے کہ وہ انگریزوں کی چالوں میں نہیں آئے اور انھوں نے سرکاری گواہ بننے کی انگریزوں کی درخواست کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔ بھلا ایک شاہین صفت کرگس کے پھندوں میں کب آنے والا تھا۔ ایک دفعہ جب اشفاق اللہ خان نماز پڑھ رہے تھے، تب کچھ انگریز افسر وہاں آئے۔ ان میں سے ایک نے اشفاق اللہ خان پر فقرہ کسا کہ ’ دیکھتے ہیں جب ہم اس چوہے کو پھانسی پر لٹکائیں گے اس کا مذہب اور اس کی یہ عبادت اس کو کیسے بچائے گی،‘ اس پر اشفاق اللہ خان نے بالکل دھیان نہ دیا اور اپنی نماز میں مشغول رہے، گویا انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ اس پر وہ انگریز افسر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

سزائے موت

ترمیم

19 دسمبر1927ء کو اشفاق اللہ خان تختہ دار کی طرف اس شان سے کوچ کرنے لگے کہ ان کا ہر قدم دگنا فاصلہ طے کرتا، اس درمیان وہ کہہ رہے تھے کہ

مجھ پر جو قتل کا مقدمہ چلایا گیا وہ جعلی ہے۔میرا یقین اللہ پر ہے، وہ ہی مجھے انصاف دے گا

پھانسی کی جگہ پر پہنچتے ہی پھندے کو بے ساختہ چوم لیا۔ کچھ دیر تک اللہ رب العزت سے دعائیں کرتے رہے پھر کلمہ طیبہ کا مسلسل ورد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پھندا کسا گیا اور آپ شہید ہو گئے۔

اشفاق اللہ خان کے اقوال

ترمیم

اشفاق اللہ خان مجاہد آزادی کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ اپنا کلام وارثی ؔاور حسرتؔ کے تخلص سے لکھتے تھے۔ زمانہ اسیری میں انھوں نے فیض آباد جیل میں ایک ڈائری بھی قلم بند کی اور کچھ نصیحتیں اپنے دوست واحباب اور رشتہ داروں کے نام لکھے گئے خطوط میں کیں۔ ذیل میں اشفاق اللہ خان کے انہی اقوال کوقارئین کے لیے مختصر اً پیش ہے۔

  • حب الوطنی اپنے ساتھ بے شمار تکالیف و مصیبتیں لے کر آتی ہے مگر جس شخص نے اسے اپنے لیے چن لیااس کے لیے یہ ساری مصیتیں و تکالیف راحت و سکون بن جاتی ہیں۔
  • میں نے سب کچھ وطنِ عزیز کی محبت میں برداشت کر لیا۔
  • میری کوئی خواہش نہیں میرا کوئی خواب نہیں، اگر وہ ہے تو صرف اتنا کہ اپنی اولاد کو بھی اسی جذبے کے تحت لڑتے دیکھوں جس کے لیے میں قربان ہو رہا ہوں۔
  • میرے احباب و اقربا میرے لیے رو رہے ہیں اور میں وطنِ عزیر کے لیے رو رہا ہوں۔
  • اے میرے بچوں مت رونا، اے میرے بزرگان مت رونا، میں زندہ ہوں، میں زندہ ہوں۔

نمونہ اشعار

ترمیم
زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرت
تیرا جینا، تیرے مرنے کی بدولت ہوگا
کچھ آرزو نہیں ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک ِ وطن کفن میں

آخری خط

ترمیم

درج ذیل تحریر اشفاق اللہ خان نے اپنے رشتہ داروں کو لکھے اپنے آخری خط میں لکھی:

کیے تھے کام ہم نے بھی جو کچھ بھی ہم سے بن پائے
یہ باتیں تب کی ہیں آزاد تھے اور تھا شباب اپنا
مگر اب جوکچھ بھی امیدیں ہیں وہ تم سے ہیں
جواں تم ہو لب بام آچکا ہے آفتاب اپنا[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Great Muslims of undivided India - Nikhat Ekbal - Google Books
  2. "LOVE"۔ 25 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2015