اشوک کے کتبے
اشوک کے کتبے (Asokan Edicts) اشوک اعظم کے ذریعے کندہ کروائے کتبے ہیں جو برصغیر کے مختلف علاقوں میں پائے گئے۔ ان کتبوں میں اشوک نے گوتم بدھ کی تعلیمات اور اپنے سیاسی اصولوں اور بعض واقعات کو پتھروں اور ستونوں پر کندہ کروایا ہے۔ مورخین کے مطابق ان کتبوں کی تعداد کئی ہزار تھی جن میں سے صرف 42 کتبے ہی امتدادِ زمانہ سے بچ گئے۔
اشوک کے کتبوں کی فہرست | |
---|---|
تخلیق | تیسری صدی قبل مسیح |
موجودہ مقام | بھارت، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش |
تعارف
ترمیماشوک کے زمانے کی سب سے دلچسپ یادگار اس کے کتبے ہیں۔ یہ تعداد میں تیس سے کچھ زیادہ ہیں اور چٹانوں، بڑے بڑے پتھر، غاروں کی کی دیواریں اور ستونوں پر کندہ ہیں۔ یہی کتبے اس زمانے کی تاریخ کے بہترین اور معتبر اسناد ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم کتبے وہ ہیں جن سے اس کی حکومت کے نظم و نسق اور اس کے فلسفہ اخلاق کا تفصیلی پتہ چلتا ہے اور اس کی شخصیت اور عادات و خصائل پر بھی بہت کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ مختصر کتبات میں نذرانوں کی عبارتیں، یادگار کے طور پر مختصر بیانات اور دوسری باتیں ملتی ہیں۔ مگر بہر حال سب سے مختصر کتبوں کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتبے تقریباً تمام ہندوستان میں یعنی کوہستان ہمالیہ سے لے کر میسور تک اور خلیج بنگالہ سے لے کر بحیرہ عرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔
تمام کتبے مختلف قسم کی پراکرت زبان میں لکھے ہوئے ہیں۔ یعنی مقامی زبانوں میں جن کا تعلق ایک طرف تو علمی سنسکرت زبان سے تھا اور دوسری طرف لنکا کے بدھ مذہب کی پالی زبان سے تھا۔ مگر خالصاً ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ اس لیے بظاہر ان کا مقصد اور ان کی اصل غاءت یہ ہے کہ عوام اس کو پڑھیں اور سمجھیں۔ ان کے وجود ہی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا علم عام تھا۔ یہ کتبے بالتخصیص عوام کی تعلیم کے لیے شایع کیے گئے تھے۔ یہ شاہراہوں پر یا جاترے کے ایسے مقامات پر جہاں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہو اور جہاں ان کی اشاعت آسانی سے ہو سکے کندہ کرائے گئے ہیں۔
چودہ سنگین فرامین کے دو نسخے جو ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کے قریب کے مقامات پر کندہ ہیں۔ اس زبان کے الفاظ میں لکھے ہیں جو اس وقت وہاں مقامی طور پر راءج تھے اور جن کو آج کل علما کروشتھی کہتے ہیں۔ یہ حروف قدیم آرامی حروف سے ماخوذ ہیں اور داہنی جانب سے بائیں جانب لکھے جاتے ہیں۔ انھوں نے پنجاب کے علاقہ میں چوتھی یا پانچویں صدی قبل عیسوی میں رواج پایا۔ ان کے علاوہ تمام کتبے براہمی حروف کی کسی نہ کسی شکل میں کندہ ہیں۔ یہی وہ حروف ہیں جن سے موجودہ دیو ناگری حروف اور مغربی اور شمالی ہند کی زمانہ حال کی طرز تحریر ماخوذ ہیں۔ یہ بائیں سے دائیں جانب کو لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔
کتبات کی اقسام
ترمیمیہ تمام کتبے آٹھ قسموں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں اور ان کو اس طرح ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
1 چھوٹا سنگی فرمان اس نمبر 1 کے چھ مختلف نسخے پائے گئے ہیں اور وہ تقریباً سب کے سب چودہ سنگین فرمانوں سے قبل ہی کے زمانے 275 ق م کے ہیں۔ نمبر 2 غالباً اس سے ذرا بعد کا ہے۔
2 بھابرو کا فرمان۔ یہ بھی تقریباً اس سن کا ہے، جس کا سنگی فرمان نمبر ا ہے۔
3 چودہ سنگی فرمان : جس کے سات نسخے ملتے ہیں اور اس کی حکومت کے تیرہویں یا چودہویں سے ان کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ یعنی 257 ق م یا 256 ق م سے۔
4 کلنگ ملک کے دو فرامین : جو غالباً 252 ق م میں نافذ ہوئے اور ان کا تعلق صرف جدید مفقوحہ ملک ہی سے تھا۔
5 : گیا کے قریب برابر کے مقام پر تین نذرانے کے غار کے کتبات جو 257 ق م اور250 ق م میں لکھے گئے۔
6 : ترائی کے علاقے کے دو ستونی کتبے 249 ق م میں۔
7 : سات ستونی فرمان۔ یہ چھ مختلف صورتوں میں پائے جاتے ہیں اور 234 ق م، 242 ق م میں شاءع ہوئے
8 : چھوٹے ستونی فرمان تقریباً 240 ق م میں یا اس کے بعد کندہ کرائے گئے۔
چھوٹے چٹانی فرامین
اشوک کے کتبوں میں سب سے زیادہ مشکل کا پہلے چھوٹے سنگی فرمان کو سمجھنے ہوا۔ فرمان نمبر2 میں محض قانون یا دھرم کا خلاصہ دیا گیا ہے۔
بھابرو کا فرمان
بھابرو کے فرمان کی خاص اہمیت بدھ مت کے مذہبی قانون کی تاریخ سے وابستہ ہے، کیوں کہ اس میں ان کی مذہبی کتابوں کی سات عبارتیں ایسی منقول ہیں جن کی طرف راجا نے خاص طور پر اپنی رعایا کو توجہ دلانا چاہتا تھا۔ ان عبارتوں کا اب پتہ لگا لیا گیا ہے۔ ممکن ہے جب اس نے اس فرمان کی تیاری کا حکم دیا ہو تو اشوک خود بیرات کے مقام پر کسی خانقاے میں مقیم ہو۔
چودہ چٹانی فرمان
ترمیمان چودہ فرامین میں اشوک نے اپنے اصول سلطنت اور فلسفہ اخلاق کی تشریح کی ہے اور ان میں سے ہر ایک فرمان صرف ایک ہی مضمون کے لیے مخصوص ہے۔ مختلف نسخوں میں بہت کچھ اختلاف ہے اور بعض میں سب کے سب چودہ فرامین میں بھی شامل ہیں۔ مگر بہرحال یہ سلسلہ مع اس کے تمام اختلافات کے دور دراز سرحدی صوبے تک ہی محدود ہے جو صوبوں کے زیر حکومت تھے۔ غالباً راجا کا خیال تھا کہ مرکزی صوبوں میں جو اس کی ذاتی طور پر زیر نگرانی تھے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کی تعلیمات کو پتھروں پر کندہ کریا جائے۔ کیوں کہ ان کے علاوہ اور بھی ایسی صورتیں موجود تھیں۔ جن سے کہ ان کی اشاعت کی جا سکتی تھی۔ مگر کچھ سال بعد اس نے اپنے قانون کو ان مرکزی صوبوں میں بھی پتھروں کے ستونوں پر کندہ کراکے بقاء
دائمی بخش دی۔
کلنگ کے فرامین
ترمیمیہ فرمان دراصل ان ہی چودہ سنگی فرامین کے سلسلے کا ایک خاص ضمیہ ہیں اور ان کی اصل غایت یہ تھی کہ اصول کو قائم کر دیا جائے، جن کی رو سے کہ نو مفقوحہ علاقے اور ان نیم وحشی اقوام پر حکومت کی جاسکے جو اس کی سرحد پر آباد تھے۔ ان کو بعض باقیدہ فرامین کی جگہ قائم کیا گیا ہے ( نمبر 11 ، 12 ، 13 ) اور ان فرامین کو کلنگ کے فرامین سے یہ سمجھ کر محذوف کر دیا گیا ہے کہ وہ مقامی حالات کے موافق نہیں۔
غار کے فرامین
ترمیمضلع گیا میں برابر کے مقام کے غار کے تینوں کتبے درحقیقت نہایت ہی مختصر نذرانے کی عبارتیں ہیں۔ ان خانقاءوں کو اجیوک فرقے کے سنیاسی لوگوں کو دیے جانے کے وقت لکھی گئی تھیں، اس فرقے کے لوگ عام طور پر ننگے پھرا کرتے تھے اور ریاضت ہائے شاقہ کی وجہ سے مشہور تھے۔ عبارتیں خاص طور پر اس وجہ سے زیاہ اہم ہیں کہ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشوک نے اکثر اعلان کیا تھا کہ وہ تمام مذاہب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے تو اس نے کرکے دیکھایا۔ چونکہ اجیوک فرقہ کے لوگ قضاء و قدر کے قائل تھے اور بدھ مذہب کے ساتھ ان کا یا تو بالکل تعلق تھا ہی نہیں اور اگر تھا تو برائے نام۔
ترائی کے ستونی کتبے
ترمیمترائی کے علاقے کے دو ستونی کتبے اگرچہ نہایت ہی مختصر ہیں البتہ بعض وجوہ سے بہت دلچسپ ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان سے ادبی راویت کی صحت کا ثبوت ملتا ہے کہ اشوک واقعی جاترا کے لیے بدھ مت کی ارض مقدس کے مذہبی مقامات پر خود گیا تھا۔ رُمنڈئی یا پدرایا کتبے کی جو اس وقت بالکل صحیح سالم موجود ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ کسی بلاشبہ و شک کے اس باغ کے اصلی اور صحیح موقعے کا پتہ چل جاتا ہے کہ جہاں منقول ہے کہ گوتم بدھ پیدا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کے کتبے سے جو نلگیو کے مقام پر اس سے کم محفوظ حالت میں ملا ہے۔ اس سے یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی ہے کہ راجا اشوک صرف گوتم بدھ ہی کو اپنا مذہبی پیشواہ سمجھتا تھا بلکہ اس کے پیشرو یعنی پہلے بدھ بھی شامل تھے۔
ستونی فرامین
ترمیمسات ستونی فرامین 242 ق م میں یا اس کے قریب قریب اپنی کامل صورت میں اس وقت نافذ کیے گئے جب کہ اشوک تیس سال حکومت کرچکا تھا اور اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا۔ ان فرامین کو چودہ سنگی فرامین کو سامنے رکھ کر غور کرنا چاہیے۔ ان میں ان سنگی فرامین کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان ساتوں کو ایک قسم کا ضمیہ تصور کرنا چاہیے۔ وہ اصول جن کو شروع کے فرامین میں شاءع کیا تھا، اب آخر زمانے میں ان کا اعادہ کیا گیا ہے اور ان پر زور دیا گیا ہے اور اہنسا کے متعلق قوانین کو باقیدہ طور پر شاءع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آخر میں ستونی فرمان نمبر 7 ہے جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔ یہ صرف ایک ہی یاد گار میں محفوظ ہے اور اس میں سلسلہ وار ان تمام باتوں کا ذکر ہے جو راجا نے پرہیز گاری کو اپنی سلطنت رواج دینے کے لیے کی ہیں۔
چھوٹے ستونی کتبات
ترمیممیں سارناتھ کے فرمان سے معلوم ہونے سے قبل ان چھوٹے ستونی فرمان کتبات کی اصل تاریخی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ مگر اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سانجی اور کوسمبی کے فرامین جو ایک مدت سے دینا کے سامنے تھے۔ سارناتھ کے بہتر اور محفوظ کتبے باختلاف عبارت نقل ہیں اور کیوں کہ ان تینوں فرمانوں میں مذہبی تفرقہ اندازی کی سزاؤں کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے یہ فرض کرلینا قرین قیاس ہے کہ ان میں کونسل کے فیصلے درج ہیں جو اختلافات و تفرقات کو مٹانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ بلکہ اس فرمان محکمہ خیرات کے متعلق ہے۔
کتبات اور روایات کی شہادت کا تعلق
ترمیموہ تمام ملخص جو ان کتبات کا درج کیا ہے ان سے ان کتبات کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے جو اشوک نے 257 ق م اور 232 ق م کے مابین نافذ کیے تھے۔ کیوں کہ یہی وہ چیز ہیں جن کی بنا پر اشوک کی عظیم انشان عہد حکومت کی داستان لکھی جا سکتی ہے۔ مگر ان کے علاوہ ادبی روایتوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ اصلی نہیں تو کم از کم اس سے کم درجہ کی شہادتیں ضرور ہیں بہم پہنچاتی ہیں اور اسی وجہ سے راجا اشوک کے عہد کے طور پر چند کلمات لابدی اور ضروری ہیں۔
ماخذ
ترمیمقدیم تاریخ ہند۔ ویسنٹ اے اسمتھ
ایوانِ عکس
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر اشوک کے کتبے سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- اشوک کے کتباتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ accesstoinsight.org (Error: unknown archive URL)
- گندھارا میں اصل میں کتبہ
- Inscriptions of India – Complete listing of historical inscriptions from Indian temples and monuments
- Ashoka Library in Bibliotheca Polyglotta with all inscriptions, Māgadhī and English
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Reference: "India: The Ancient Past" p.113, Burjor Avari, Routledge, ISBN 0-415-35615-6