اعجاز احمد اعظمی
اعجاز احمد اعظمی (1951–2013ء) بھارت کے مشہور عالم دین، بہترین مدرس، کہنہ مشق قلم کار، درجنوں کتب و رسائل کے مصنف، ماہنامہ المآثر اور ضیاء الاسلام کے مدیر رہے، نہایت سلیس و شستہ طرز تحریر کے مالک تھے۔ اعظم گڑھ خطہ کے مشہور دینی ادارہ "مدرسہ شیخ الاسلام، شیخو پورہ" میں کئی دہائیوں تک تدریسی خدمات انجام دی ہے۔
اعجاز احمد اعظمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 5 فروری 1951ء اعظم گڑھ ضلع |
تاریخ وفات | 28 ستمبر 2013ء (62 سال) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند احیاء العلوم مبارک پور |
استاذ | وحید الزماں کیرانوی |
تلمیذ خاص | اختر امام عادل قاسمی |
پیشہ | عالم ، مصنف |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیماعجاز احمد اعظمی کی پیدائش 28ربیع الثانی 1370ھ مطابق 5 فروری 1951ء کو موضع ”بھیرہ، ولید پور“ ضلع اعظم گڑھ، اتر پردیش میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم اپنے وطن ”بھیرہ ولید پور“ کے مدرسہ رحیمیہ میں حاصل کی، پھر ”بھیرہ“ کے ہی مولانا عبد الستار اور اُن کے صاحب زادے مولانا عزیزالرحمن سے فارسی اور عربی اوّل تک کی تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد جامعہ عربیہ اِحیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ میں درجہٴ دوم عربی میں داخل ہوئے، جہاں درجہٴ پنجم عربی تک تعلیم حاصل کی، یہاں 1385ھ سے 1388ھ تک قیام رہا۔ شوال 1388ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے؛ لیکن چند ماہ بعد طلبہ کے ایک ہنگامے کی وجہ سے انھیں یہاں سے جانا پڑا۔ پھر وہ مدرسہ حسینیہ امروہہ میں داخل ہو گئے، وہاں سے 1391ھ/1971ء میں فارغ ہوئے۔[1]
عملی زندگی
ترمیممولانا نے اپنی عملی زندگی کا آغاز شہر ”میسور“ کی ایک مسجد میں امامت وخطابت سے کیا، جس کے بعد 42 سالہ مدت انھوں نے تدریس وتالیف و تربیت اور وعظ وارشاد میں گزارا۔ جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس، مدرسہ دینیہ غازی پور، وصیت العلوم الہ آباد اور ریاض العلوم گورینی قابل ذکر ہیں۔اُن کی تدریس کا سنہرا دور وہ ہے جو اُنھوں نے 24 سالہ طویل دورانیے میں مدرسہ شیخ الاسلام موضع ”شیخوپور“ ضلع اعظم گڑھ میں گزارا جس کے بعد اس ادارہ کو شہرت ملی اور ملک بھر کے طالبین و علما کا مرجع بن گیا۔ لیکن بدقسمتی سے اُن کی وفات سے چند ماہ قبل ایسے حالات رونما ہو گئے کہ انھیں اس مدرسے سے الگ ہونا پڑا پھر وہ ضلع مئو کے گاؤں ”چھپرہ“ کے اپنے قائم کردہ مدرسہ ”سراج العلوم“ منتقل ہو گئے۔ اور تا دم وفات وہیں رہ گئے۔
تصانیف
ترمیماعظمی کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[2]
- تسہیل الجلالین شرح اردو جلالین شریف (جلد اوّل؛ سورۂ بقرہ تا سورۂ نساء مکمل)
- حدیثِ دوستاں (دینی و اصلاحی اور علمی و ادبی مکاتیب کا مجموعہ)
- کھوئے ہوؤں کی جستجو (مختلف شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ)
- حیاتِ مصلح الامت (شاہ وصی اللہ اعظمی، الٰہ آبادی (1895–1967ء) کی مفصل سوانح)
- مدارسِ اسلامیہ، مشورے اور گزارشیں (جدید اضافہ شدہ ایڈیشن، مدارس سے متعلق مضامین کا مجموعہ)
- بطوافِ کعبہ رفتم․․․․․ (سفر نامۂ حج)
- حرمین شریفین (مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے سفر کی روداد)
- تہجد گزار بندے (تہجد کی اہمیت وفضیلت اور تہجد گزار بندوں کا تفصیلی تذکرہ)
- ذکرِ جامی (ترجمانِ مصلح الامت مولانا عبد الرحمن جامی [متوفی: 1991ء] کے حالاتِ زندگی)
- حضرت چاند شاہ صاحب اور اُن کا خانوادۂ تصوف (چاند شاہ ٹانڈوی اور ان کے خلفا کے حالات)
- تذکرہ شیخ ہالیچوی (سندھ کے معروف شیخ طریقت و عالم حماد اللہ ہالیچوی کا مفصل تذکرہ)
- مودودی صاحب اپنے افکار ونظریات کے آئینے میں (محمد یوسف بنوری کی عربی کتاب ”الأستاذ المودودي“ کا ترجمہ)
- حکایتِ ہستی حصہ اوّل (خود نوشت سوانح، ابتداے حیات سے اختتامِ طالبِ علمی تک)
- کثرتِ عبادت، عزیمت یا بدعت؟
- قتلِ ناحق، قرآن وحدیث کی روشنی میں
- تعویذات وعملیات کی حقیقت وشرعی حیثیت
- اخلاق العلماء، علما کے لیے خاص چیز
- دین داری کے دو دشمن (حرصِ مال وحبِّ جاہ)
- فتنوں کی طغیانی (ٹی وی پر ایک فکر انگیز تحریر)
- اہل حق اور اہل باطل کی شناخت
- مالی معاملات کی کم زوریاں اور ان کی اِصلاح
- برکاتِ زمزم (آبِ زمزم کی فضیلت واہمیّت کا بیان)
- خواب کی شرعی حیثیت
- تسہیل المیبذی (شرح میبذی)
- حدیثِ دردِ دل (ماہ نامہ ”ضیاء الاسلام“ میں لکھے ہوئے اِداریوں کا مجموعہ)
- مسئلہ اِیصالِ ثواب! ایک ذہنی طغیانی کا احتساب
- المَدُّ التعظیمي لاسم الجلالة
وفات
ترمیماعظمی کا انتقال 21/22 ذی قعدہ 1434ھ مطابق 28 ستمبر 2013ء کو رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہوا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ”حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ، مختصر سوانحی خاکہ“ از؛ مولانا ضیاء الحق خیرآبادی
- ^ ا ب حبیب الرحمن اعظمی، مدیر (دسمبر 2013ء)۔ "مولانا اِعجاز احمد اعظمی از نور عالم خلیل امینی"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ 97 (12)