معرکہ کلی

1299 کی جنگ، ہندوستان پر منگول حملوں کے دوران لڑی گئی۔

معرکہ کِلی سنہ 1299ء میں خانیت چغتائی کے منگولوں اور سلطنت دہلی کے لشکر کے درمیان میں پیش آیا۔ اس دفعہ منگولوں نے قتلغ خواجہ کی سربراہی میں ہندوستان پر اس نیت سے حملہ کیا تھا کہ وہ تخت دہلی پر قابض ہوکر ہندوستان پر حکمرانی کریں گے۔ اسی ارادے کی وجہ سے وہ سیدھا دہلی کی طرف بڑھے چلے آئے اور راستے میں آنے والی آبادیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ جب منگول لشکر نواح دہلی کے ایک مقام کِلی کے پاس پہنچا تو سلطان علاء الدین خلجی اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔

معرکہ کِلی
سلسلہ وسطی ایشیاء پر منگول حملہ
تاریخ1299
مقامکِلی نزد دہلی
28°39′16″N 77°13′51″E / 28.65456°N 77.23090°E / 28.65456; 77.23090
نتیجہ سلطنت دہلی کی فتح
سرحدی
تبدیلیاں
منگول افواج کو ہندوستان سے کھدیڑ دیا گیا
مُحارِب
خانیت چغتائی سلطنت دہلی
کمان دار اور رہنما
طاقت
100,000-200,000 300,000 گھوڑے (محمد قاسم فرشتہ کے مطابق؛ غالباً مبالغہ آمیز)
2,700 ہاتھی
ہلاکتیں اور نقصانات
بھاری بھاری
معرکہ کلی is located in ٰبھارت
معرکہ کلی
معرکہ کلی کا محل وقوع

اس معرکے میں سلطان علاء الدین خلجی کے سالار ظفر خان نے سلطان کی اجازت کے بغیر منگول فوج کی اس ٹکڑی پر حملہ کیا جس کی کمان ہجلک کے ہاتھوں میں تھی۔ منگولوں نے ظفر خان کو کمال ہوشیاری سے اپنے تعاقب میں لگایا، لشکر گاہ سے بہت دور لے آئے اور اچانک پلٹ کر ان پر وار کر دیا۔ تاہم ظفر خان نے مرنے سے قبل لاتعداد منگول سپاہیوں کو تہ تیغ کرکے لشکر سلطانی کے نقصان کی تلافی کر دی تھی۔ بالآخر دو دنوں کی گھمسان کی جنگ کے بعد منگولوں کو پسپا ہونا پڑا۔

پس منظر

ترمیم

منگولوں کے اس حملے کے وقت ہندوستان پر سلطان علاء الدین خلجی حکمران تھے جنھوں نے سنہ 1296ء میں اپنے چچا جلال الدین خلجی کو قتل کرکے تخت سلطنت حاصل کیا تھا۔ خانیت چغتائی وسط ایشیا پر قابض تھا اور سنہ 1280ء کی دہائی سے اس کا حاکم دوا خان تھا۔ دوا خان اپنے عہد حکمرانی میں افغانستان کے علاقوں کو فتح کرنے میں مصروف رہا اور اب وہ ہندوستان کو اپنی قلمرو میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ نیگوداری حاکم عبد اللہ جو چغتائی خان کا پڑپوتا تھا، اپنی فوج کے ساتھ سنہ 1292ء میں پنجاب پر حملہ آور ہوا لیکن جلال الدین خلجی نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔ جو منگول قیدی بنے ان میں سے تقریباً چار ہزار منگولوں نے اسلام قبول کر لیا اور نواح دہلی میں آباد ہو گئے۔ جس علاقہ میں ان کا قیام تھا وہ مغل پورہ کہلاتا تھا۔ خانیت چغتائی کی افواج کو سلطنت دہلی کی فوجوں نے تیرہویں صدی کے اواخر میں متعدد دفعہ شکست فاش دی لیکن منگول بار بار شمالی ہندوستان پر چڑھ آتے تھے۔ کم از کم دو دفعہ وہ خاصا بڑا لشکر بھی لائے لیکن علاء الدین خلجی کی فوجوں نے انھیں ہر دفعہ پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

علاء الدین خلجی کے عہد حکومت میں منگول نویان نے سنہ 1297ء کے موسم سرما میں پنجاب پر حملہ کیا لیکن علائی سالار الغ خان نے اسے شکست فاش دی اور پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ منگولوں کے دوسرے حملے کو علائی سالار ظفر خان نے ناکام بنایا۔ پئے در پئے ذلت آمیز شکستوں کے بعد منگول پوری تیاریوں اور کیل کانٹوں سے لیس ہو کر تیسری مرتبہ ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔ اس دفعہ وہ محض لوٹ مار اور غارت گری کی بجائے اپنی آنکھوں میں ہندوستان پر حکمرانی کا خواب سجائے یہاں وارد ہوئے تھے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم

کتابیات

ترمیم
  • A R Fuller (1869)۔ "Translations from the Tarikh-i-Firuz Shahi"۔ Journal of the Asiatic Society of Bengal۔ XXXVIII (IV)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018 
  • Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ $1 میں Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206–1526)۔ 5 (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ OCLC 31870180 
  • Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290–1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC 685167335 
  • Peter Jackson (2003)۔ The Delhi Sultanate: A Political and Military History۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-54329-3۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018