امیر خان متقی
مولوی امیر خان متقی افغان سیاست دان اور تحریک اسلامی طالبان کے رہنماؤں میں سے ہیں، انھوں نے افغانستان کے اہم سیاسی اور انتظامی شعبوں میں کام کیا ہے۔
امیر خان متقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20ویں صدی ناد علی ضلع |
شہریت | افغانستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | سیاست دان |
درستی - ترمیم |
خاندانی پس منظر
ترمیممولوی امیر خان متقی کی قوم سلیمان خیل ہے۔ وہ مرحوم حاجی نادر خان کے صاحب زادے ہیں۔ وہ 1970ء کو افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع نادعلی کے گاؤں 'زرغون کلی' میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء و اجداد اصلاََ صوبہ پکتیا کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے وہاں سے ہلمند نقل مکانی کی تھی۔
تعلیم
ترمیممولوی امیر خان متقی نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے اسکول اور مسجد سے حاصل کی تھی۔ انھیں کمیونسٹوں کی بغاوت اور سوویت یونین کی جارحیت کے بعد 9 سال کی عمر میں اپنے خاندان سمیت پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔ انھوں نے پاکستان میں دینی علوم کی تحصیل کا آغاز کیا اور مہاجرین کے مختلف مدارس میں صرف، نحو، منطق، بیان، فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر مروج علوم حاصل کیے اور فراغت کی سند حاصل کی۔
ذمہ داریاں اور مناصب
ترمیمامیر خان متقی نے نوجوانی کے دور ہی سے سوویت نواز ڈاکٹر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف مسلح جہاد اور سیاسی جد و جہد میں بھرپور حصہ لیا۔ جب 1994ء میں افغانستان میں بے امنی اور انارکی کے دنوں میں طالبان تحریک اس انتشار کے خلاف اٹھی تو امیر خان متقی اس تحریک کے آغاز ہی سے اس کا حصہ بن گئے اور مکمل لگن کے ساتھ اس تحریک میں مصروف ہو گئے۔
طالبان کی جانب سے قندھار شہر پر کنٹرول حاصل ہونے کے کچھ عرصے بعد مولوی امیر خان متقی کو طالبان کی ہائی کونسل کی رکنیت کے ساتھ ساتھ 1994ء میں قندھار ریڈیو کی ذمہ داری بھی دے دی گئی۔
امیر خان متقی جولائی 1994ء میں صوبہ قندھار کے شعبہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ متعین ہوئے۔
جب اکتوبر 1996ء میں افغانستان کے دار الحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تو امیر خان متقی اسی ماہ شعبہ اطلاعات و ثقافت کے مرکزی وزیر متعین کر دیے گئے۔ انھوں نے کئی سال تک اطلاعات و ثقافت کے شعبے میں بھرپور کام کیا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ امارت اسلامیہ کے مرکزی ترجمان کی ذمہ داری بھی ادا کرتے اور میڈیا پر طالبان کا موقف پیش کرتے رہے۔ نومبر 1999ء میں ان کو 'ادارہ امور' کے سربراہِ اعلیٰ کے طور پر تقرر کیا گیا۔ وہ کچھ عرصے بعد مارچ 2000ء میں تعلیم و تربیت کے وزیر بنا دیے گئے۔ تا آں کہ وہ افغانستان پر امریکی جارحیت تک اسی منصب پر فائز رہے۔
مولوی امیر خان متقی نے اس وفد کی قیادت بھی کی، جو شمالی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کے امیر ملا محمد عمر مجاہد کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ ان کی قیادت میں مذکورہ وفد نے شمالی اتحاد کے ساتھ ازبکستان کے دار الحکومت تاشقند میں 2+6 ممالک کی موجودگی میں مذاکرات کیے۔ بعد ازاں انھوں نے ترکمانستان کے دار الحکومت اشک آباد اور پھر اسلامی کانفرنس کی ثالثی میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں مذاکرات میں حصہ لیا۔
امیر خان متقی امریکی جارحیت کے بعد مزاحمت کے مرحلے کئی سال تک امارت اسلامیہ کے کمیشن برائے اطلاعات و ثقافت کے سربراہ رہے۔ انھوں نے افغانستان پر امریکی جارحیت کے خلاف کام کرنے والے بہت سے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نیٹ ورک فعال کیے، جس کے ذریعے انھوں نے ہمیشہ اپنے لوگوں کا مورال بلند رکھنے اور مخالفین کے منفی پروپیگنڈوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کام کیا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رکن بھی متعین ہوئے۔ انھیں بین الافغان مذاکرات کے لیے امارت اسلامیہ کی جانب سے متعین مذاکراتی ٹیم کی رکنیت بھی دی گئی۔
وہ 25 شعبان 1439ھ کو امیر المومنین کے دفتر کے سربراہ متعین ہوئے۔ انھوں نے دو سال تک اس منصب کی ذمہ داریاں مکمل دلچسپی کے ساتھ نبھائیں۔
انھیں 6 جنوری 2021ء کو امارت اسلامیہ کے کمیشن برائے 'دعوت و ارشاد جلب و جذب' کے سربراہ کے طور پر متعین کر دیا گیا۔
طالبان کی اگست 2021 میں کابل کی فتح کے بعد انھیں وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔
ذوق
ترمیمامیر خان متقی تاریخ کے مطالعے کا خاص شوق رکھتے ہیں۔ وہ سنجیدہ شاعری پسند کرتے ہیں۔ کبھی وجد کی کیفیت ہو تو خود بھی شعر کہتے ہیں۔ وہ خصوصاً نئی نسل اور نوجوانوں کی بہتر تربیت اور اعلی تعلیم کی فکر اور اس کا درد رکھتے ہیں۔ وہ بالیقین طور پر انتظامی معاملات میں انتہائی حساس ہیں۔ کہا جاتا ہے طالبان تحریک کو منظم کرنے اور تحریک کے لیے قانونی شقوں کی تحریری تیاری میں ان کا قابلِ ذکر کردار رہا ہے۔