انتصار عامر
انتصار عامر (انگریزی: Entissar Amer) (عربی: انتصار عامر; پیدائش 3 دسمبر 1956ء) مصر کی موجودہ خاتون اول ہیں، کیونکہ ان کے شوہر عبدالفتاح السیسی 8 جون 2014ء کو مصر کے چھٹے صدر بنے۔ [2]
انتصار عامر | |
---|---|
مناصب | |
مصر کی خاتون اول | |
آغاز منصب 8 جون 2014 |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 دسمبر 1956ء (68 سال) قاہرہ |
شہریت | مصر |
مذہب | اسلام [1] |
شریک حیات | عبدالفتح السیسی (1977–) |
اولاد | محمود السیسی |
تعداد اولاد | 4 |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ عین شمس |
پیشہ | سیاست دان |
مادری زبان | مصری عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، مصری عربی |
درستی - ترمیم |
تعلیم
ترمیمانتصار عامر نے اپنا ہائی اسکول ڈپلوما 1977ء میں العباسیہ ہائی اسکول سے حاصل کیا۔ اس نے جامعہ عین شمس سے اکاؤنٹنگ میں بی کام کی ڈگری حاصل کی۔ [2]
خاندان
ترمیمانتصار عامر نے 1977ء میں اپنے کزن عبدالفتاح السیسی سے شادی کی جب عبد الفتاح السیسی نے ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن کیا۔ [2][3] ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں: محمود، مصطفٰی، حسن اور آیہ۔ [4] جون 2013ء کے مصری مظاہروں کے بعد اپنے شوہر کی مصر کے صدر کے طور پر تقرری پر انتصار عامر مصر کی خاتون اول بن گئیں۔ جس نے ایک مصری فوجی تاخت، 2013ء کے ذریعے محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹانے پر مجبور کیا۔ 3 جولائی 2013ء کو مصری فوج کے جامع عبد لفتح السیسی نے مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی تاخت برپا کر دیا۔ مرسی کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر قاہرہ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے بڑے مظاہرے کیے جس پر فوج نے مرسی کو حزب اختلاف سے معاملات طے کرنے کے لیے 48 گھنٹے کی مہلت دی اور پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اخوان المسلمین نے تاخت کے خلاف مظاہرے کیے جس پر فوج نے گولی چلا کر سینکڑوں افراد کو شہید کر دیا۔[5] فوجی سیسی نے عوام کو کہا کہ وہ سڑکوں پر نکل کر اخوان کی مخالفت اور فوج کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف مظاہرے کریں۔ مرسی کو قید میں ڈال کر دہشت گردی کے الزام لگائے گئے۔ جج عدلی منصور کو 3 جولائی 2013ء سے 7 جون 2014ء تک عبوری مدت کے دوران قائم مقام صدر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ پھر عبدالفتاح السیسی نے صدارتی انتخاب جیت لیا جو بعد میں منعقد ہوا اور 8 جون 2014ء کو اپنے عہدے کا حلف لیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.youm7.com/story/2013/11/29/%D8%B5%D8%A7%D8%A6%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D9%81%D8%A7%D8%B9%D9%89-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D9%84%D9%82%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D8%A7%D8%AF%D8%B3%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%81%D8%A7%D8%AA%D9%8A%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D8%A8%D8%B9%D8%A9-%D9%84%D8%B4%D8%AE%D8%B5%D9%8A%D8%A9-%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%8A%D8%B3%D9%89-%D8%A3%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%B1/1369672
- ^ ا ب پ AfricaNews (2019-06-01)۔ "Celebrating African First Ladies: Senegal's Marieme Faye Sall"۔ Africanews (بزبان انگریزی)۔ 17 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2019
- ↑ Ashraf al-Hameed (12 مئی 2014)۔ "Egypt's next first lady? Meet Mrs. Sisi and Mrs. Sabbahi"۔ al-Arabiya۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اپریل 2018 [مردہ ربط]
- ↑ Egypt’s next First Daughter? Meet Aya al-Sisi[مردہ ربط]
- ↑ "Egypt clashes: at least 130 Mohamed Morsi supporters killed in Cairo"۔ گارجین۔ 27 جولائی 2013ء۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ