محمد مرسی
محمد مرسی (مکمل نام عربی زبان میں محمد مرسي عيسى العياط ، اگست 1951ء – 17 جون 2019ء) مصر کے سیاست دان اور 30 جون 2012ء تا 3 جولائی 2013ء مصر کے پانچویں صدر بھی رہے۔ عبدالفتاح السیسی نے انھیں ایک طویل عوامی مظاہرے کے بعد 2013ء مصری فوجی تاخت کے دوران میں معزول کر کے قید کر دیا۔[7]۔۔[8] بحیثیت صدر انھوں نے 2012ء میں ایک عبوری آئینی اعلان جاری کیا تھا جس کے تحت انھیں خود مختاری حاصل ہو گئی اور مکمل اختیارات ان کے ہاتھ میں آگئے یہاں تک کہ عدالت کی مداخلت کے بغیر قانون سازی کا حق بھی مل گیا۔
محمد مرسی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: مُحمَّد مُرسي) | |||||||
مناصب | |||||||
صدر مصر | |||||||
برسر عہدہ 30 جون 2012 – 3 جولائی 2013 |
|||||||
| |||||||
ناوابستہ ممالک کی تحریک کا جنرل سیکریٹری (27 ) | |||||||
برسر عہدہ 30 جون 2012 – 30 اگست 2012 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 8 اگست 1951ء [1] | ||||||
وفات | 17 جون 2019ء (68 سال)[2][3][4] | ||||||
وجہ وفات | دورۂ قلب | ||||||
مدفن | نصر شہر | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | مملکت مصر (1951–1952) جمہوریہ مصر (1953–1958) متحدہ عرب جمہوریہ (1958–1971) مصر (1971–2019) |
||||||
مذہب | اسلام | ||||||
عارضہ | ذیابیطس (1998–) امراض جگر [5] |
||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ قاہرہ جامعہ جنوبی کیلیفونیا (–1982)[6] |
||||||
تعلیمی اسناد | Doctor of Engineering | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، انجینئر ، استاد جامعہ | ||||||
مادری زبان | عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، انگریزی | ||||||
ملازمت | جامعہ زقازیق ، کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی، نارتھ ریج | ||||||
اعزازات | |||||||
دستخط | |||||||
ویب سائٹ | |||||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ | ||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیممحمد مرسی کی ولادت شمالی مصر کے محافظہ الشرقیہ کے گاؤں العدوان میں 8 اگست 1951ء کو ہوئی۔ یہ علاقہ قاہرہ کے شمال میں واقع ہے۔[9] والد کسان تھے اور والدہ امور خانہ داری تک ہی محدود تھیں۔[9] اپنے پانچ بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ بچپن میں وہ گدھے کی پیٹھ پر سوار ہو کر اسکول جایا کرتے تھے۔[10] 1960ء کی دہائی میں انھوں نے قاہرہ کا رخ کیا 1975ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے امتیازی نمبرات سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ مصری افواج کی کیمیکل وارفیئر یونٹ میں انھوں 1975ء تا 1976ء خدمات انجام دیں۔ پھر قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1978ء میں دھات کاری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔[11][12] ماسٹر کی ڈگری لینے کے بعد انھیں ریاستہائے متحدہ امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفہ مل گیا۔ انھوں نے سال 1982ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے اموادی علم میں علامہ فلسفہ حاصل کیا۔ ان کا تخصص ایلومینا (Al2O3) پر تھا۔[13][14]
انجینئری زندگی
ترمیم1982ء تا 1985ء وہ کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ انھوں نے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں ناسا میں بھی کام کیا۔ وہاں وہ خلائی شٹل کے انجن کو ڈویلپ کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ دھات کی سطح کو پہچاننے کی مہارت رکھتے تھے۔[15][16] 1985ء میں مرسی امریکا کی اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر مصر آگئے اور جامعة الزقازيق میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔ بعد ازاں وہ شعبہ انجیئرنگ کے صدر مقرر ہوئے۔ وہ 2010ء تک جامعة الزقازيق میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔[16]
سیاسی سفر
ترمیمسال 2000ء میں مصر کی پارلیمان میں ان کا انتخاب ہوا۔[17] اور 2000ء تا 2005ء وہ ایک آزاد رکن کی حیثیت سے پارلیمان کے رکن رہے کیونکہ حسنی مبارک کے عہد میں اخوان المسلمین کو انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔[18] ان کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا مگر اخوان الیکشن لڑنے کی اہل نہیں تھی لہذا انھوں نے 2011ء میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی۔[19] اس نئی پارٹی کے وہی صدر مقرر ہوئے۔ 2010ء میں انھوں نے کہا کہ “دو قومی نظریہ ایک فریب ہے جس کا وہی نتیجہ ہونے والا ہے جو فلسطین کا ہوا ہے۔‘‘[20] مرسی نے سانحہ ستمبر 2001ء کو “معصوم عوام کے خاف ایک سنگین جرم“ قرار دیا تھا۔ تاہم انھوں نے امریکا پر الزام لگایا کہ اسی نے حملہ کی سازش رچی ہے اور اس کا مقصد افغانستان اور عراق پر حملہ کا جواز ثابت کرنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ حملہ آور مسلمان تھے۔[21] ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر طیاروں کے حملہ سے نہیں گرا تھا بلکہ عمارت کے اندر سے کچھ ہوا جس کی وجہ عمارت منہدم ہو گئی۔ ایسا نظریہ رکھنے والے مرسی تنہا نہیں تھے بلکہ اکثر مصریوں کا یہی ماننا ہے حتیٰ کہ آزاد خیال مصری بھی اسی نظریے کے قائل ہیں۔[22] ریاستہائے متحدہ امریکا میں ان کے ان تبصروں کی پرزور مخالفت ہوئی۔ [23]
2011ء میں حراست
ترمیم28 جنوری 2011ء کو مرسی اور اخوان کے 24 دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ [24] دو دن بعد وہ قاہرہ سے فرار ہو گئے۔ وادی نطرون قید خانہ کو توڑنے اور اس سے فرار ہونے کی خبر مصری میڈیا میں خوب پھیلی اور چند گھنٹوں میں پورے مصر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔[25] کچھ صحافیوں کا دعوی تھا کہ مصری تحریک کے ہجوم میں اخوانی سیاسی قیدی فوج کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے تھے اور انھیں قید ہی نہیں کیا گیا تھا۔[26][27] چار برس بعد جیل توڑنے کے جرم میں ان کے ساتھ 105 دیگر لوگوں پو سنوائی ہوئی اور 16 مئی 2015ء میں انھیں سزائے موت دی گئی۔[28]
2012ء مصری صدارتی مہم
ترمیم2012ء میں محمد خيرت سعد الشاطر کو صدارتی امیدوار کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ محمد مرسی کو اخوانیوں نے محفوظ امیدوار کے طور پر کھڑا کیا۔[29] مرسی کی امیدواری کو مشہور مصری عالم دین صفوت حجازی کی تائید بھی حاصل رہی۔ [30][31] انتخابات کے پہلے دور میں انھیں 25.5 ووٹ ملے اور اپنے مخالف امیدوار سے آگے رہے[32] ان کے ہزاروں حمایتوں نے تحریر چوک پر حشن منایا۔ 24 جون 2012ء کو مرسی کو 51.73 فیصد کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا۔[33] نتائج کے اعلان کے ما بعد انھوں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی صدارت سے استعفی دے دیا۔[34]
عقائد
ترمیمحکومت بدلنے پر
ترمیم” | مجھے امید ہے کہ عوام مجھے منتخب کرے گی، میں اخوان المسلمون اور فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کا ایک اسلام پسند امیدوار ہوں۔ اور اللہ کی مرضی ہے کہ اب یہ نظام ترقی اور استقامت کی طرف گامزن ہو۔ | “ |
مرسی نے کہا کہ “قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے“۔ لیکن فوج کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انھوں نے کہا فوج کا بجٹ پارلیمان طے کرے گی مگر اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔[35] انھوں نے آئین مصر کا تعظیم کرنے کا عہد کیا اور کہا کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی اپنے نظریات عوام پر نہیں تھوپے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مصری عوام ایک سماج میں رہنا چاہ رہی تھی جہاں مساوات ہو۔[36] انھوں نے مزید کہا کہ2011ء کی تحریک ایک اسلامی تحریک ہے جو مشرق وسطی میں امت اسلامیہ میں کو بیدار کرے گی۔[37]
اسلامی سماج اور مصر کی غیر مسلم عوام
ترمیممرسی نے کہا کہ “قبطی مسیحی میری ہی طرح مصر کی عوام ہیں اور ان کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے کسی اور مصری کے ہیں“ انھوں نے کہا کہ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی اللہ کی دین ہے اور شریعت اسلامیہ مسلمان کو حکم دیتی ہے کہ غیر مسلم کے عقائد و نظریات کی بھی تعظیم کی جائے۔[38]
صدر مصر
ترمیم30 جون 2012ء کو محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر بنے۔[39] انھوں نے حسنی مبارک کی جانیشنی کی جنہیں 11 فروری 2011ء کو استعفی دینا پڑا تھا۔[40][41][42]
داخلہ پالیسی
ترمیم10 جولائی 2012ء کو مرسی نے مصری پارلیمان کو پرانی حالت پر واپس لا دیا اور اسی وجہ سے ان کے اور فوج کے درمیان میں ایک خلیج قائم ہو گئی کیونکہ پرانی پارلیمان کو فوج کے تحلیل کر دیا تھا۔ مرسی نے نئے آئین مصر کو نئے سرے سے ترمیم کرنے کی کوشش کی جس میں شہری حقوق کا خیال رکھا گیا ہو اور شریعت کا رنگ غالب ہو۔[43]
ذاتی زندگی
ترمیممرسی کی شادی 1979ء میں ان کی ایک رشتے دار نجلا علی محمود سے ہوئی۔ [44] انھوں نے اعلان کیا کہ انھیں “فرسٹ لیڈی“ نہ کہا جائے۔[45] مرسی کی پانچ اولادیں ہوئیں: [46] احمد محمد مرسی، وہ سعودی عرب میں ڈاکٹر ہیں؛ شائمہ، جامعہ زقازیق سے گریجویٹ ہیں؛ اوسامہ، اٹارنی ہیں؛ عمر، جامعہ زقازیق سے گریجویٹ ہیں؛ اور عبد اللہ، ہائی اسکول کے طالبعلم ہیں۔[47] مرسی کی دو اولادیں کیلیفورنیا میں پیدا ہوئیں اور ان کے پاس ریاستہائے متحدہ امریکا کی شہریت ہے۔[48] ان کی پاکستان آمد پر انھیں 18 مارچ 2013ء کو دنیا میں امن و سکون کی راہ ہموار کرنے اور مسلم ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ان کی کاوشوں کے عوض انھیں اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا۔[49][50]
وفات
ترمیم17 جون 2019ء کو اچانک میڈیا میں خبر نشر ہوئی کہ قاہرہ میں عدالت میں سنوائی کے دوران مرسی اچانک گرگئے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق دورہ قلب کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔[51][52][53] انھیں اخوان المسلمون کے دیگر قائدین کے پاس قاہرہ میں دفن کیا گیا۔[54] مصری حکومت کے ناقدین نے مرسی کی وجات کی وجہ ان کی سنوائی کو بتایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مرسی سنوائی میں کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔ اخوان المسلمون کے ایک بڑے رہنما محمد سودان نے کہا کہ ان کی موت دراصل قبل از وقت قتل ہے۔[55] کرپسن بلنٹ، جنھوں نے برطانوی پارلیمان میں مرسی کی حالت اور سنوائی کو لے کر ایک پینل کی قیادت کی تھی، کہا “ہمیں خدشہ تھا ڈاکٹر محمد مرسی کو اگر بروقت طبی مدد نہ دی گئی تو ان کی صحت ہمیشہ کے لیے جواب دے جائے گی، ہمیں افسوس ہے کہ ہم صحیح ثابت ہوئے۔“[56] ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے مصری حکومت کو مرسی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور انھیں شہید کہا ہے۔[57] استنبول میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھی گئی۔[58]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://pantheon.world/profile/person/Mohamed_Morsi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ تاریخ اشاعت: 17 جون 2019 — Meghalt a bíróságon az előző egyiptomi elnök, Mohamed Murszi
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mursi-mohammed — بنام: Mohammed Mursi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000029178 — بنام: Mohammed Mursi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ https://www.nytimes.com/2019/06/17/world/middleeast/mohamed-morsi-dead.html — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جون 2019
- ↑ ProQuest document ID: https://search.proquest.com/docview/303079427
- ↑ "Egypt's army chief Abdel Fattah al-Sisi receives a promotion ahead of likely presidency bid"۔ Australian Broadcasting corporation۔ 28 جنوری 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی 2015
- ↑ "Muslim Brotherhood's candidate and first president after Mobarak"۔ 27 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2012
- ^ ا ب "Profile: Egyptian presidential frontrunner Mohamed Mursi"۔ Asharq Alawsat۔ 25 مئی 2012۔ 20 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2013
- ↑ "Muhammad Morsi: An ordinary man"۔ The Economist۔ 30 جون 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2012
- ↑ "Who is Mohamed Morsi? - Presidential elections news – Presidential elections 2012 – Ahram Online"۔ ahram.org.eg
- ↑ CNN Library (28 دسمبر 2012)۔ "Mohamed Morsy Fast Facts"۔ CNN
- ↑ David Matthews (19 جولائی 2012)۔ "Academic-turned-politician aims to fix engine of state"۔ The Times of Higher Education۔ 13 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ Alexis Driggs (26 جون 2012)۔ "Egyptians elect USC alumnus"۔ Daily Trojan۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2012
- ↑ Mertz, Ed (25 جون 2012)۔ "Egyptian President-Elect Has Ties To USC, CSUN"۔ KNX (CBS News)۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2013
- ^ ا ب Katherine Jane O'Neill (12 اپریل 2013)۔ "How Morsi's English 'destroyed' his US students"۔ Saudi Gazette۔ 1 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ Mayy El Sheikh، David D Kirkpatrick (27 جون 2012)۔ "Egypt's Everywoman Finds Her Place is in the Presidential Palace"۔ The New York Times۔ 12 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ Yolande Knell (24 جون 2012)۔ "Egypt president: Muslim Brotherhood's Mohammed Mursi"۔ BBC News۔ 12 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ "Egypt's Muslim Brotherhood selects hawkish leaders"۔ Egypt Independent۔ 30 اپریل 2011۔ 31 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2011
- ↑ "Morsy calls for a national uprising to save Al-Aqsa Mosque"۔ Ikhwan Web
- ↑ Ben Birmbaum (31 مئی 2012)۔ "Top Egyptian presidential candidate doubts al Qaeda role in 9/11"۔ The Washington Times
- ↑ Shadi Hamid (7 جون 2012)۔ "Brother Number One"۔ Foreign Policy۔ 03 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2019
- ↑ Robert Satloff، Eric Trager (11 ستمبر 2012)۔ "Getting Egypt's Morsi to give up his 9/11 'truther' talk"۔ The Washington Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2012
- ↑ "Mohamed Morsi – Meet the candidates – Presidential elections 2012 – Ahram Online"۔ ahram.org.eg
- ↑ Reuters (30 جنوری 2011)۔ "Egypt Muslim Brotherhood says 34 key members escape prison"۔ Reuters۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2019
- ↑ Simon Tisdall (30 جنوری 2011)۔ "Egypt protests: Cairo prison break prompts fear of fundamentalism"۔ The Guardian۔ London
- ↑ Molly Hennessy-Fiske (30 جنوری 2011)۔ "Egypt: Muslim Brotherhood members escape prison, rally in Tahrir Square"۔ Los Angeles Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2017
- ↑ "Update: Morsi, Badie sentenced to death in "prison break case""۔ The Cairo Post۔ 16 مئی 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2015
- ↑ "Egypt Brotherhood candidate: army wants to retain power"۔ Al Akhbar۔ Agence France-Presse۔ 18 اپریل 2012۔ 21 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ "Dr. Morsi Presidential Campaign Kickoff in Mahalla Al-Kubra on مئی Day" (full coverage)۔ اخوان المسلمون۔ 1 مئی 2012
- ↑ Perry, Tom. Newsmaker: Egypt's Morsy goes from prisoner to president۔ MSNBC۔ Original published by روئٹرز۔ 24 جون 2012.
- ↑ David D. Kirkpatrick (2012-06-24)۔ "Mohamed Morsi of Muslim Brotherhood Declared as Egypt's President"۔ The New York Times (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0362-4331۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2019
- ↑ "Muslim Brotherhood's Mursi declared Egypt president"۔ BBC News۔ 24 جون 2012۔ 13 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ Yasmine Fathi (24 جون 2012)۔ "Brotherhood campaigners elated as Mursi is named Egypt's next president"۔ Al Ahram۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑
- ↑ An interview with the MB's Mohamed Morsi by Issandr El Amrani. The Arabist, مئی 2011
- ↑ Egyptian presidency denies Morsi gave interview on stronger ties with Iran. آرکائیو شدہ 22 فروری 2014 بذریعہ وے بیک مشین Al Arabiya, جون 2012
- ↑ with Dr. Mohammed Morsy, president of Egypt's 'Freedom and Justice' party.[مردہ ربط] France 24. Retrieved مئی 2011.
- ↑ "Mohamed Morsi sworn in as Egypt's first popularly-elected president"۔ CNN۔ 30 جون 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2012
- ↑ Conal Urquhart (30 جون 2012)۔ "Mohamed Morsi sworn in as Egyptian president"۔ دی گارڈین۔ London۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2012
- ↑ Hamza Hendawi (16 جون 2012)۔ "Egypt votes for president to succeed Mubarak"۔ گوگل۔ Associated Press۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2012 [مردہ ربط]
- ↑ with Dr. Mohammed Morsy, president of Egypt's 'Freedom and Justice' party.[مردہ ربط] France 24. Retrieved مئی 2011.
- ↑ Jeffrey Fleishman (25 جنوری 2012)۔ "Egypt's Mohammed Morsi moves into Mubarak's presidential office, meets with military"۔ ٹورانٹو اسٹار۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ Mayy El Sheikh (27 جون 2012)۔ "Egypt's Everywoman Finds Her Place is In The Presidential Palace"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2012
- ↑ Aya Batrawy (28 جون 2012)۔ "Morsi's wife prefers 'first servant' to first lady"۔ The Globe and Mail۔ Toronto۔ 2 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جولائی 2012
- ↑ "Egyptian president's son is Saudi-based urologist"۔ Asharq Alawsat۔ 26 جون 2012۔ 09 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2013
- ↑
- ↑ Tom Perry (24 جون 2012)۔ "Newsmaker: Egypt's Morsy goes from prisoner to president"۔ Reuters۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2012
- ↑ "NUST awards honourary doctorate degree to Egyptian President Mohamed Morsi"۔ 18 مارچ 2013۔ 22 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2013
- ↑ "Morsi gets an honourary doctorate"۔ 18 مارچ 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2013
- ↑ "Former Egyptian president Morsi dies during court hearing"۔ The Jerusalem Post۔ 17 جون 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2019
- ↑ "Egypt's ousted president Mohammed Morsi dies in court"۔ BBC News۔ 17 جون 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2019
- ↑ "Egypt's former president Mohamed Morsi dies: state media"۔ Al Jazeera۔ 17 جون 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2019
- ↑ "Former Egyptian president Mursi buried in Cairo, son says"۔ The Reuters۔ 17 جون 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2019 [مردہ ربط]
- ↑ Samy Magdy (17 جون 2019)۔ "Egypt's ousted president Morsi dies in court during trial"۔ Associated Press۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2019
- ↑ Declan Walsh، David D. Kirkpatrick (17 جون 2019)۔ "Mohamed Morsi, Egypt's First Democratically Elected President, Dies"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2019
- ↑ "Egypt's Mohammed Morsi: Ex-leader buried after court death"۔ BBC News۔ 17 جون 2019
- ↑ Clémence Barral (18 جون 2019)۔ "À Istanbul, des milliers de personnes prient à la mémoire de Morsi"۔ www.lefigaro.fr (بزبان فرانسیسی)