انور سدید

پاکستانی اردو کے مشہور مدیر، نقاد اور شاعر

ڈاکٹر انور سدید پاکستان میں اردو کے مشہور مدیر، نقاد اور شاعر تھے۔[2]

انور سدید
معلومات شخصیت
پیدائش 4 دسمبر 1928ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میانی ،  ضلع سرگودھا ،  برطانوی پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 مارچ 2016ء (88 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  ادبی نقاد ،  مدیر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

پیدائش

ترمیم

4 دسمبر 1928ء کو انور سدید کی ولادت سرگودھا میں ہوئی تھی۔ ان کا پیدائشی نام محمد انوار الدین تھا۔ ان کے والد کا تعلق محنت کش راجپوت قبائل سے تھا۔ والد مولوی امام الدین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ اقبال اور رومی کو اپنا مرشد سمجھتے تھے۔[2]

تعلیم

ترمیم

انوار الدین نے اسکولی تعلیم سرگودھا میں مکمل کی۔ انھوں نے جامعہ پنجاب سے ادیب فاضل کیا۔ پھر ایف اے اور بی اے کے امتحانات انگریزی میں مکمل کیے۔ 1966ء میں انسٹی ٹیوٹ آف انجنئرس ڈھاکا سے سول انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے کچھ سال بعد وزیر آغا کے ایما پر انھوں نے ایم اے اردو کیا اور اردو ادب کی تحریکیں کے عنوان سے مقالہ لکھ پی ایچ ڈی مکمل کیا۔[2]

ملازمتیں

ترمیم

1954ء میں انوار الدین کے والد گذر گئے۔ اسی کے پیش نظر وہ اول اول آبپاشی کے محکمے میں محرر بنے۔ پھر وہ دوبارہ تعلیم پر متوجہ ہوئے اور جیساکہ اوپر لکھا گیا ہے، سول انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر وہ محکمہ آبپاشی میں انجنئر بنے اور 1988ء میں سپرنٹینڈنگ انجنیر کے طور پر وظیفہ حسن خدمت پر سبک دوش ہوئے۔[2]

ادبی دنیا میں قدم

ترمیم

انوار الدین نے ساتویں جماعت سے شاعری شروع کی تھی مگر جلد ہی اسے بند کر کے انھوں نے ایک کہانی لکھی جو گلدستہ رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ ابتدا میں انھوں نے قلمی نام ایم میانوی منتخب کیا تھا۔ 1942ء میں پہلا افسانہ مجبوری ایک فلمی رسالہ چِترا میں شائع ہوا۔ انور سدید کا قلمی نام وزیر آغا کی ادبی رہنمائی سے انھوں نے چنا تھا۔[2][3]

ادارت

ترمیم

1948ء سے 1966ء تک انور سدید سرگودھا سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ اردو زبان کی ادارت کی۔ 1988ء سے 1992ء تک وہ وزیر آغا کے اوراق سے جڑے تھے۔ اس کے علاوہ وہ 1990ء سے 1995ء تک قومی آواز کے مدیر اعلٰی تھے اور 1995ء میں روزنامہ خبریں ، لاہور کے مدیر بنے۔ اس کے بعد وہ کچھ سال روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی عملے کی قیادت بھی کیے تھے۔[2] نوائے وقت میں گفتنی کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔

تصانیف

ترمیم
  1. اردو ادب میں سفر نامہ
  2. بہترین نظمیں (1976ء)
  3. غالب کے نئے خطوط (1982ء)
  4. ڈاکٹر وزیر آغا (1983ء)
  5. اردو ادب کی تحریکیں (1985ء)
  6. میر انیس کی اقلیم سخن (1986ء)
  7. مولانا صلاح الدین احمد (کتابیات) (1989ء)
  8. اقبال شناسی اور ادبی دنیا (1988ء)
  9. اردو افسانہ کی کروٹیں (1991ء)
  10. اردو ادب کی مختصر تاریخ (1991ء)
  11. اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش (1997ء)
  12. فکرو خیال
  13. اختلافات
  14. کھردرے مضامین
  15. موضوعات
  16. بر سبیل تنقید
  17. شمع اردو کا سفر‘
  18. نئے ادبی جائزے
  19. میر انیس کی اقلم سخن
  20. محترم چہرے
  21. پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ
  22. اردو ادب میں سفر نامہ
  23. اردو ادب میں انشائیہ
  24. اقبال کے کلاسیکی نقوش
  25. اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش
  26. غالب کے نئے خطوط
  27. دلاور فگاریاں
  28. قلم کے لوگ
  29. ادیبان رفتہ
  30. آسمان میں پتنگیں
  31. دلی دور نہیں
  32. ادب کہانی 1996ء
  33. ادب کہانی 1997ء
  34. اردو افسانہ: عہد بہ عہد
  35. میر انیس کی قلمرو
  36. وزیر آغا ایک مطالعہ
  37. مولانا صلاح الدین احمد، فن اور شخصیت
  38. حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی، حالات و آثار
  39. جدید اردو نظم کے ارباب اربعہ
  40. کچھ وقت کتابوں کے ساتھ
  41. مزید ادبی جائزے‘

انتقال

ترمیم

20 مارچ 2016ء کو انور سدید کا انتقال ہو گیا۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب https://www.rekhta.org/authors/anwar-sadeed
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج اسلم مرزا، ڈاکٹر انور سدید: محبتوں کا سفیر،ماہنامہ سب رس، حیدرآباد (بھارت)، اپریل 2016، صفحات 29-32
  3. Google Groups