جلال الدین رومی
محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) ان کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، ان کا مکان پیدائش ایران میں ہے اور ان کا مزار ترکی میں واقع ہے۔
مولانا جلالالدین محمد بلخی | ||||
---|---|---|---|---|
| ||||
(فارسی میں: جلالالدین مُحمَّد بلخی) | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 30 ستمبر 1207ء [1][2][3][4] بلخ [5][6][7]، وخش، تاجکستان [8][9] |
|||
وفات | 17 دسمبر 1273ء (66 سال)[10][1][2][3][4] قونیہ [11][7] |
|||
اولاد | سلطان ولد | |||
تعداد اولاد | 4 | |||
والد | بہاء الدین پیدا ہوئے۔ [12] | |||
عملی زندگی | ||||
استاد | بہاء الدین پیدا ہوئے۔ | |||
پیشہ | شاعر [13]، عالم ، مصنف [14]، ادیب ، فلسفی ، متصوف | |||
مادری زبان | فارسی | |||
پیشہ ورانہ زبان | فارسی [15]، عربی [16]، قدیم اناطولی ترکی ، وسطی یونانی | |||
شعبۂ عمل | اسلامی فلسفہ ، تصوف | |||
کارہائے نمایاں | فیہ ما فیہ ، مثنوی مولانا روم ، دیوان شمس تبریزی | |||
مؤثر | شمس تبریزی ، ابن عربی ، شيخ عبدالقادر جيلانی | |||
درستی - ترمیم |
پیدائش اور نام و نسب
ترمیماصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ اور آپ جلال الدین، خداوندگار اور مولانا خداوندگار کے القاب سے نوازے گئے۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے : محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انھیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول 604ھ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاولدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک انھی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
علم و فضل
ترمیممولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ درویش احمد چشتی ٹوپاماری
اولاد
ترمیممولانا کے دو فرزند تھے، علاؤ الدین محمد، سلطان ولد۔ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہے کہ انھوں نے شمس تبریز کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو فرزند اکبر تھے، خلف الرشید تھے، گو مولانا کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہو سکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔
سلسلہ باطنی
ترمیممولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔
وفات
ترمیمبقیہ زندگی وہیں گزار کر تقریباً 66 سال کی عمر میں سنہ 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رھتاہے اور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔قافلہ سالار عشق حضرت مولانا جلال الدین رومی رضی اللہ عنہ نے شہر قونیہ (ترکی) کو اپنا دائمی مسکن بنایا جو ترکی کے مشہور تاریخی شہر استنبول سے 665 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ھوتے رہیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت و دلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک موجود ہے۔حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت و دلکش اور ڈیزائن کے لحاظ سے ایک منفرد مزار مبارک ہے، ظاہری خوبصورتی اور جاہ وجلال کے علاوہ انوار و تجلیات کے بھی کیا کہنے. حضرت مولانا روم کے مزار مبارک کے ایک حصہ میں شیشے کی ایک الماری میں حضرت مولانا روم کے تبرکات محفوظ ہیں جن میں حضرت مولانا روم کا لباس مبارک، حضرت مولانا کی جائے نماز، کندھے پر ڈالنے والا رومال، مولانا کی تین ٹوپیاں اور دو عدد جبے سرفہرست ہیں۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔
مثنوی رومی
ترمیمان کی سب سے مشہور تصنیف ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب ’’فیہ مافیہ‘‘ بھی ہے۔
” | باقی ایں گفتہ آید بے زباں در دل ہر کس کہ دارد نورِ جان ترجمہ: ’’جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خود بخود اتر جائے گا‘‘ |
“ |
اقبال اور رومی
ترمیمعلامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں:
” | آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است |
“ |
علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے:
” | خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں |
“ |
رومی بین الاقوامی سال
ترمیمان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغا بھی جاری کیا۔
28 اکتوبر سے یکم نومبر 2007 ء تک حضرت مولانا جلال الدین بلخی رومی کے 800 سالہ جشن ولادت کی تقریبات کے سلسلہ میں ایران میں پانچ روزہ عظیم عالمی کانگرس کا انعقاد ھوا جو دو روز تہران اور تین روز تک تبریز میں جاری رھی۔ کانگرس میں 30 ممالک کے تقریباً 80 اسکالر کے علاوہ کثیر تعداد میں ایرانی اسکالرز نے بھی شرکت کی۔
تہران میں اس عظیم کانگرس کا افتتاحی اجلاس بروز اتوار 28 اکتوبر 2007 ء کو ایران کے صدر محترم جناب آقای محمود احمدی نژاد کی زیر صدارت تہران کے کانفرنس ہال میں منعقد ھوا۔اجلاس کی ابتدا قرآن پاک کی آیات بینات سے ھوئی۔
کانگرس کے منتظم اعلیٰ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ صدر محترم نے اپنے طویل و مفید خطاب میں حضرت مولانا روم کی عالمگیر شخصیت اور ان کے فلسفہ عشق پر جامع انداز میں روشنی ڈالی اور حاضرین و سامعین سے داد حاصل کی۔ استاد جلال ذوالفنون نے سہ تار پر مثنوی کے ابتدائی اشعار پیش کیے جس کے بعد افتتاحی اجلاس اختتام پزیر ھوا۔
30 اکتوبر 2007ء بروز منگل غیر ملکی مندوبین بذریعہ ہوائی جہاز حضرت شمش الدین تبریزی کے شہر تبریز روانہ ھوئے جہاں حضرت مولانا روم کے علاوہ حضرت شمس تبریزی کی یاد میں جشن شمس تبریزی کی تقریبات کا اھتمام کیا گیا تھا۔
تبریز کے گورنر نے اپنے صدارتی خطبہ میں حضرت مولانا روم اور حضرت شمس تبریزی کے بارے میں نہایت پر مغز گفتگو فرمائی اور اس اجلاس کا اختتام موسیقی کی تقریب سے ھوا جس میں ایرانی موسیقاروں نے موسیقی کے ساتھ مثنوی اور دیوان شمس کے اشعار پیش کیے۔
مذکورہ تقریبات میں پاکستان سے جسٹس جاوید اقبال، ان کی اہلیہ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد اکرام شاہ، ڈاکٹر محمد سلیم مظہر، ڈاکٹر محمد ناصر، ڈاکٹر عفان سلجوق، ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، ڈاکٹر خالدہ آفتاب، جناب افتخار احمد حافظ قادری اور مجلہ پیغام آشنا کے مدیر ڈاکٹر محمد سلیم اختر نے شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔
مزید دیکھیے
ترمیمویکی اقتباس میں جلال الدین رومی سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w60c516m — بنام: Rumi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/945714 — بنام: Jalal al-din Rumi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/djalal-od-din-rumi — بنام: Djalal od-Din Rumi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Babelio author ID: https://www.babelio.com/auteur/wd/14209 — بنام: Djalâl-od-Dîn Rûmî
- ↑ عنوان : Джеллаль-эддин-Руми
- ↑ عنوان : Джелаледдин Руми
- ^ ا ب عنوان : Encyclopaedia of Islam — جلد: 2 — صفحہ: 393
- ↑ جلد: 4 — Christian-Muslim Relations
- ↑ صفحہ: 11 — Internet Archive ID: https://archive.org/details/rumisworldlifewo0000schi
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Jalal-al-Din-al-Rumi — بنام: Rumi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118716158 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ عنوان : Encyclopædia Iranica — ناشر: جامعہ کولمبیا — ایرانیکا آئی ڈی: https://www.iranicaonline.org/articles/rumi-jalal-al-din-teachings
- ↑ https://cs.isabart.org/person/122079 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/13534307
- ↑ صفحہ: 12-13 — Internet Archive ID: https://archive.org/details/rumisworldlifewo0000schi