اکرم خان درانی
سابقہ وزیر اعلیٰٰ صوبہ خیبر پختونخوا۔ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اٹھارویں وزیر اعلیٰٰ تھے۔ سیاسی تعلق جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ سے ہے۔
اکرم خان درانی | |
---|---|
مناصب | |
رکن چودہویں قومی اسمبلی پاکستان | |
رکن سنہ 1 جون 2013 |
|
حلقہ انتخاب | حلقہ این اے۔26 |
پارلیمانی مدت | چودہویں قومی اسمبلی |
رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا [1] | |
رکن سنہ 13 اگست 2018 |
|
پارلیمانی مدت | 13ویں صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 مارچ 1960ء (64 سال) بنوں |
شہریت | پاکستان |
جماعت | جمیعت علمائے اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | سیاست دان |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیم1960 میں پیدا ہوئے۔ اکرم درانی کا تعلق جنوبی ضلع بنوں کے علاقے سورانی میوا خیل کے ایک متوسط خاندان سے ہے۔ اکرم درانی اپنے والدین کی واحد اولاد ہیں، ان کے والد اُس وقت فوت ہوئے جب اکرم درانی دو برس کے تھے اکرم درانی نے اپنی ابتدائی تعلیم سورانی میں سکندر خیل پرائمری اسکول سے حاصل کی - اپنا گریجویشن انھوں نے نوشہرہ سے کی اور وکالت کی ڈگری کراچی سے حاصل کی- واپس بنوں آکر خاندانی کام یعنی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا–
سیاست
ترمیم3 مرتبہ صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے اکرم درانی جمعیت علمائے اسلام کے پرانے رہنماؤں میں سے ایک ہیں - وہ 1988ء میں جمعیت میں شامل ہوئے اور اس وقت سے تاحال اس کے ساتھ رہے ہیں -
وہ 1997ء میں مختصر عرصے کے لیے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور جنگلات بھی رہے- ان کا خاندان سیاست میں پچھلی کئی پشتوں سے فعال ہے - انھوں نے خود سیاست کا آغاز پشتون قوم پرست طلبہ تنظیم پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا تھا لیکن بعد میں اسلامی جماعتوں کی جانب راغب ہوئے-
وزیر اعلیٰ
ترمیم10 اکتوبر کے انتخابات میں جمعیت کے ان دو ارکان میں سے وہ ایک ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن بعد میں انھوں نے داڑھی رکھ لی۔ اپنے دور حکومت میں انھوں حسبہ بل جیسا متنازع بل اسمبلی میں پیش کیا جو ابھی تک متنازع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں ان کی حکومت نے بہت زیادہ کام کیا۔ اور بہت سے کالجز اور اسکول قائم کیے۔ اپنے آبائی ضلع بنوں کے لیے انھوں نے ریکارڈ کام کیے۔ جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے بیٹے زیاد اکرم درانی قومی اسمبلی کے رکن رہے جب کہ ان کے چچا زاد اعظم خان درانی ضلع بنوں کے ضلعی ناظم رہے ہیں۔
استعفی
ترمیمستمبر 2007ء میں اے پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے۔ تاکہ پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات کو متنازع بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے وزیر اعلیٰ کو 2 اکتوبر کو گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دینا تھا۔ لیکن اس سے پہلے اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ ق نے تحریک عدم اعتماد پیش کردی جس کی وجہ صدارتی انتخابات سے پہلے خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جاسکا۔ اس کے بعد ایم ایم اے کی اتحادی پارٹی جماعت اسلامی نے صدارتی انتخاب سے پہلے ہی استعفی دے دیا۔ وزیر اعلیٰٰ عدم اعتماد کا سامنا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ان استعفوں کے بعد ان کی اکثریت برقرار نہ رہ سکی۔ اس بنا پر جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کے درمیان میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ اور آخر کار وزیر اعلیٰٰ خیبر پختونخوا کو مجبوراً گورنر کو اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کرنا پڑی۔ گورنر نے 10 اکتوبر 2007ء کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرکے شمس الملک کو نگران وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا۔ اس پورے کھیل میں جمعیت علما کا کردار کافی متنازع رہا اور اسے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اور سیاسی حلقوں نے یہ الزام لگایا کہ صدر اور جمعیت کے درمیان میں پہلے سے ساز باز ہو چکی تھی اس لیے خیبر پختونخوا اسمبلی کو بروقت تحلیل نہ کیا جاسکا۔
صوبائی قائد حزب اختلاف
ترمیم2008ء میں ان کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارتی کی مخلوط حکومت میں ان کو اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنا پڑا۔ ان کو اپوزیشن پارٹیوں نے متفقہ طور پر قائد حزب اختلاف مقرر کیا۔