ایران بھارت تعلقات
ایران بھارت تعلقات سے مراد بھارت اور ایران کے دوطرفہ تعلقات ہیں۔ آزاد بھارت اور ایران نے 15 مارچ 1950ء کو سفارتی تعلقات قائم کیے۔ سرد جنگ کے عرصے میں، جمہوریہ بھارت اور ایران کی سابق شاہی ریاست مختلف سیاسی مفادات کی وجہ سے الگ الگ اتحاد بنائے رکھے، غیر وابستہ ایران نے سوویت اتحاد کے ساتھ مضبوط فوجی روابط کو فروغ دیا جب کہ ایران نے امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کا اظہار کیا۔[1] 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد، ایران اور بھارت کے درمیان میں تعلقات عارضی طور پر مضبوط ہوئے۔ البتہ، پاکستان کے لیے ایران کی مسلسل حمایت اور ایران عراق جنگ کے دوران میں بھارت کے عراق سے قریبی تعلقات نے بھارت ایران تعلقات کو پنپنے نہ دیا۔[2] 1990ء کی دہائی میں، بھارت اور ایران دونوں نے طالبان حکومت کے خلاف صف آرا شمالی اتحاد کی حمایت کی۔ دونوں ممالک اشرف غنی کی قیادت میں وسیع پیمانے پر امریکا کی حمایت یافتہ اور طالبان مخالف حکومت کی حمایت میں تعاون کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے دسمبر 2002ء میں ایک دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔[3]
ایران |
بھارت |
---|
اقتصادی نقطہ نظر سے، ایران بھارت کو خام تیل مہیا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو روزانہ 425,000 تیل مہیا کرتا ہے، نتیجتا بھارت ایران کی تیل اور گیس کی صنعت میں سب سے بڑے غیر ملکی سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے۔[4] 2011ء میں، بھارت اور ایران 12 بلین امریکی ڈالر تیل کی تجارت کر رہے تھے، وہ ایران کے خلاف وسیع اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روک دی گئی تھی اور بھارتی تیل کی وزارت کو مجبور کیا گیا وہ وہ بقایا رقم ترکی کے ذریعے بینکاری نظام سے ادا کرے۔[5][6]
جغرافیائی نقطہ نظر سے، اگرچہ دونوں ملکوں کے کچھ مشترکہ اسٹریٹجک مفادات ہیں، لیکن بھارت اور ایران بنیادی خارجہ امور متعلقہ مسائل میں بالکل مختلف ہیں۔بھارت نے ایران کے جوہری منصوبے کے خلاف سخت مخالفت کا اظہار کیا ہے، اس کے باوجود دونوں ممالک طالبان کی مخالفت کرتے ہیں، بھارت ایران کے برعکس افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی کی حمایت کرتا ہے۔[7] بی بی سی ورلڈ سروس کے 2005ء کے پول کے مطابق 71% ایرانی بھارت کے متعلق مثبت رائے رکھتے ہیں اور 21% منفی، باقی ساری دنیا کے مقابلے میں یہ بھارت متعلقہ جذبات کی سب سے اچھا تناسب ہے۔[8] اس کے علاوہ، پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ ایران ان دونوں ممالک کے درمیان میں ثالثی کرتا رہتا ہے۔[9]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Prakash Nanda۔ Rising India: Friends and Foes۔ Lancer Publishers, 2008۔ ISBN 978-0-9796174-1-6
- ↑ Shireen Hunter۔ Iran's foreign policy in the post-Soviet era: resisting the new international order۔ ABC-CLIO, 2010۔ ISBN 978-0-313-38194-2
- ↑ Rizwan Zeb (12 فروری 2003)۔ "The emerging Indo-Iranian strategic alliance and Pakistan"۔ CACI Analyst۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2013
- ↑ "Iran's major oil customers, energy partners"۔ tehrantimes.com۔ 7 جون 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2017
- ↑ Jay Solomon، Subhadip Sircar (29 دسمبر 2010)۔ "India Joins U.S. Effort to Stifle Iran Trade"۔ Wall Street Journal magazine۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2011
- ↑ "India paid $5 bn Iran oil debt in full: central bank, AFP, 4 ستمبر 2011"۔ google.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2017
- ↑ "India's Iran calculus"۔ فارن پالیسی (رسالہ) magazine۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2011
- ↑ BBC World Service Poll آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ globescan.com (Error: unknown archive URL) GlobeScan
- ↑ Dawn.com (4 دسمبر 2016)۔ "Iran offers to mediate between Pakistan and India"۔ dawn.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2017
مزید پڑھیے
ترمیم- Chopra, R.M. Indo-Iranian Cultural Relations through the Ages. published by Iran Society, Kolkata.
- Chopra, R.M. Indo-Iranian Cultural Relations in the 20th century. Indo-Iranica Vol.57 (1–4)
- Clawson, Patrick. (2005). Eternal Iran: Continuity and Chaos. آئی ایس بی این 1-4039-6276-6. 2005. MacMillan.
- Multiple authors (2004)۔ "India"۔ Encyclopædia Iranica (series of entries that cover Indian history and its relations with Iran)
- Keddie, Nikki; Matthee, Rudolph P. (ed.). (2002). Iran and the Surrounding World: Interactions in Culture and Cultural Politics. University of Washington Press. آئی ایس بی این 0-295-98206-3۔
- Tikku, G.L. (1971). Persian poetry in Kashmir 1339–1846. آئی ایس بی این 0-520-09312-7
- Section on Persian literature in India: Rypka, January (1968). History of Iranian Literature. Reidel Publishing Company. OCLC 460598. آئی ایس بی این 90-277-0143-1
- Chopra, R.M.، "The Rise Growth And Decline of Indo-Persian Literature", 2012, published by Iran Culture House, New Delhi and Iran Society, Kolkata. 2nd Edition published in 2013.
- Maini,T.S., Sachdeva, S. What Does Iran’s Changing Foreign Policy Mean for India?, IndraStra Global Vol. 003, Issue No: 09 (2017)، Article No: 0024, ISSN 2381-3652
- "INDIA ix. RELATIONS: QAJAR PERIOD, EARLY 20TH CENTURY"۔ Encyclopædia Iranica۔ XIII۔ Dec 15, 2004۔ صفحہ: 34–44۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2018
- "INDIA viii. RELATIONS: QAJAR PERIOD, THE 19TH CENTURY"۔ Encyclopædia Iranica۔ XIII۔ دسمبر 15, 2004۔ صفحہ: 26–32۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2018
بیرونی روابط
ترمیمسفارت خانہ
- Official Embassy of India, Tehranآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ indianembassy-tehran.ir (Error: unknown archive URL)
مزید مطالعہ
- India-Iran Relations: A farewell to the gas pipeline?
- US concerns not to sway India-Iran relationsآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindustantimes.com (Error: unknown archive URL)
- India-Iran Relations Cannot Be Hostage To USآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pd.cpim.org (Error: unknown archive URL)
- India-Iran Relations: Key Security Implications[مردہ ربط]