برہان الدین ربانی
پروفیسر برہان الدین ربانی (پیدائش 20 ستمبر 1940ء) سنہ 1992ء سے 1996ء تک افغانستان میں سوویت اتحاد کی شکست کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے صدر رہے اور 1994ء میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے معزول ہو گئے۔برہان الدین ربانی افغانستان کے بڑے لیڈروں میں شمار ہوتے تھے، وہ مشہور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے استاذ تھے۔ انھوں نے سنہ 2002ء میں افغانستان پر امریکی حملے کی حمایت کی تھی۔برہان الدین ربانی کا تعلق تاجک برادری سے تھا اور وہ 1992ء سے 1996ء تک افغانستان کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔
برہان الدین ربانی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(فارسی میں: برهان الدین رباني) | |||||||
صدر افغانستان | |||||||
مدت منصب 13 نومبر 2001 – 22 دسمبر 2001 | |||||||
وزیر اعظم | عبدالغفور روان فرهادی | ||||||
| |||||||
مدت منصب 28 جون 1992 – 27 ستمبر 1996 | |||||||
وزیر اعظم | عبدالصبور فريد کوهستاني گلبدين حكمتيار ارسلا رحماني (قائم مقام) احمد شاه احمدزی (قائم مقام) | ||||||
| |||||||
صدر شمالی اتحاد | |||||||
مدت منصب 27 ستمبر 1996 – 13 نومبر 2001 | |||||||
وزیر اعظم | گلبدين حكمتيار عبدالرحیم غفورزی عبدالغفور روان فرهادی | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 20 ستمبر 1940ء باڈون، |
||||||
وفات | 20 ستمبر 2011ء (71 سال)[1][2][3] کابل [4] |
||||||
مدفن | کابل [5] | ||||||
طرز وفات | خودکش حملہ ، انفجاری آلہ ، قتل | ||||||
شہریت | افغانستان مملکت افغانستان (–1973) |
||||||
مذہب | سنی اسلام | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ کابل (1959–1963) جامعہ الازہر (1966–1968) |
||||||
تخصص تعلیم | قانون اور اسلامی الٰہیات ،اسلامی فلسفہ | ||||||
تعلیمی اسناد | ایم اے | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، ماہر تعلیم ، استاد جامعہ | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
ملازمت | جامعہ کابل | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ افغانستان | ||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
امن کونسل کی سربراہی
ترمیمسال 2010ء میں انھیں عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے قائم کی گئی اعلیٰ امن کونسل کا سربراہ نامزد کیا گیاتھا۔
خود کش حملہ و وفات
ترمیمستمبر 2011ء میں کابل میں امریکی سفارتخانے کے باہران پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ جاں بحق ہو گئے۔نیٹو حکام کے مطابق دو خودکش حملہ آوروں نے انھیں مفاہمت کا جھوٹا تاثر دیا تھا جنھوں نے ان پر حملہ کیا۔ طالبان کے ایک ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ عسکریت پسند تنظیم نے دو انتہائی تربیت یافتہ جنگجوؤں کو پروفیسر ربانی سے روابط قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
پسماندگان
ترمیمپروفیسر برہان الدین ربانی نے پسماندگان میں دو بیٹے صلاح الدین ربانی شجاع الدین ربانی اور ایک بیٹی فاطمہ ربانی چھوڑی ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.bbc.co.uk/news/world-south-asia-14985779
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/rabbani-burhanuddin — بنام: Burhanuddin Rabbani — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ بنام: Burhanuddin Rabbani — Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000020314 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/1028171862 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ https://www.theguardian.com/world/gallery/2011/sep/23/funeral-burhanuddin-rabbani-kabul-pictures
ویکی ذخائر پر برہان الدین ربانی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |