بمباںوالی-راوی-بیدیاں نہر

بمباں والی-راوی-بیدیاں نہر (Bambawali-Ravi-Bedian Canal) جسے اچوگل نہر (Ichogil Canal) [1] یا عام طور پر بی آر بی نہر کہا جاتا ہے لاہور، پنجاب، پاکستان کے مشرق میں واقع ایک طویل نہر ہے۔ یہ لاہور نہر کا منبع ہے۔ اس کی وجہ شہرت پاک بھارت جنگ 1965ء میں اس کے کنارے معرکہ بھی ہے۔

بمباںوالی-راوی-بیدیاں نہر

تاریخ

ترمیم

اچوگل نہر 1950ء کی دہائی میں جزوی طور پر لاہور پر حملے کو روکنے کے لیے ایک دفاعی رکاوٹ کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ 45 میٹر (148 فٹ) چوڑی اور 5 میٹر (16 فٹ) گہری یہ نہر فوجی دستوں کی پیش قدمی کے لیے ایک مشکل رکاوٹ ہے۔ پاک بھارت جنگ 1965ء میں اس پر ایک معرکہ بھی پیش آیا تھا۔ [2]

دیپالپور نہر جو حسین والا ہیڈ ورکس فیروز پورسے دریائے ستلج کے دائیں جانب سے نکلتی تھی جس کا ہیڈ تو بھارت میں تھا مگر ساری نہر پاکستان کے اندر سے بہہ رہی تھی۔ جب پاکستان بنا تو بھارت نے دریائے راوی کا پانی مادھو پور ڈیم بنا کر روک لیا۔ 14 مئی 1948ء کو ہندوستان سے معاہدے کے بعد پاکستان نے مرالہ کے قریب سے دریائے چناب میں ایک نہر تعمیر کی جو سدھنوالی گائوں کے قریب دریائے روای میں ملتی ہے۔ یہ نہر دریائے روای کے نیچے سے بہتی ہے اور بیئیاں گاؤں کے قریب دیپالپور نہر میں مل جاتی ہے۔ اس کی تکمیل 1958ء کو ہوئی، اس لنک نہر بی آر بی ڈی کا اصل اور مکمل نام ’بمبانوالا راوی بیدیاں دیپالپور‘ نہر ہے۔ اس بی آر بی نہر سے لاہور کی نہر کو بھی پانی فراہم کیا گیا۔ گویا راوی کے کنارے آباد لاہور شہر کی اس نہر میں راوی کی بجائے چناب کا پانی دوڑتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع یہ نہر لاہور کی عوام کی جانب سے 1948ء میں کھودی گئی تھی۔ زندہ دلان لاہور نے صوبہ پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰٰ افتخار حسین ممدوٹ کی اپیل پر یہ نہر اس وقت کھودی جب انھوں نے اعلان کیا کہ اس مقام پر نہر کھودنے سے پاکستان کو بھارتی افواج کی جانب سے ممکنہ شر انگیزی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ ان کی اپیل پر شہریوں نے 8 کلومیٹر رقبہ پر محیط یہ نہر محض چند دنوں میں بلا معاوضہ ہی کھود ڈالی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی اس نہر کی وجہ سے ہی بھارتی افواج کا لاہور میں ناشتا کرنے کا خواب تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

بھارتی افواج جب پاکستان کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں تو اس وقت بی آر بی نہر نے پاکستان کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان آرمی کی جانب سے بی آر بی نہر کا پانی سرحدی علاقوں میں چھوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے سرحد پر دلدل بن گئی اور دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی رک کئی جبکہ دوسری جانب چونکہ پاکستانی فوج نے کامیابی سے اس نہر پر موجود پلوں کی حفاظت کی اور جہاں ان کی پوزیشن کمزور تھی ان پلوں کو تباہ کر دیا گیا۔ یوں پاکستانی جوانوں نے بھارتی افواج کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک کہ انھیں فوجی کمک نہ پہنچ گئی۔ جس کے بعد بھارتی افواج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ میجر عزیز بھٹی نے بھی اسی نہر پر جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور نشان حیدر کے حق دار ٹھہرے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Muhammad Saad Khan، Fatima Javeed، Dr. Shama Anbrine (2015)۔ "The Impact of Urbanisation on Avian Communities of Lahore" (PDF)۔ Department of Architecture,UET, Lahore.۔ Journal of Research in Architecture and Planning۔ 18 (First Issue): 1 
  2. Capt, R.S.G. (2005)۔ Major Defence Operations Since 1947۔ Ocean Books۔ ISBN 9788188322671۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2017