پاک بھارت جنگ 1965ء

بھارت پاکستان کے مابین جنگ

بھارت اور پاکستان دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان میں ہونے والی یہ پہلی بین الاقوامی جنگ تھی جس میں ایک فریق (بھارت) نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے فریق ثانی(پاکستان) پر جنگ مسلط کی۔ آپریشن جبرالٹر اس کی بنیادی وجہ تھی۔ 17 روزہ اس جنگ میں دونوں فریق اپنی اپنی کامیابی کا دعوی کرتے ہیں۔

پاک بھارت جنگ 1965ء
Indo-Pakistani War of 1965
سلسلہ پاک بھارت جنگیں

متنازع علاقے
تاریخ5 اگست 1965ء23 ستمبر 1965ء(جھڑپوں سے جنگ کے اختتام تک)
6 ستمبر 1965ء23 ستمبر 1965ء (باقاعدہ جنگ)
مقامجنوبی ایشیاء
نتیجہ اقوام متحدہ لازمی جنگ بندی۔[1] کوئی مستقل علاقائی تبدیلیاں نہیں (دیکھیے اعلامیہ تاشقند
مُحارِب
 بھارت  پاکستان
کمان دار اور رہنما
بھارت کا پرچم رادھا کرشنن
(صدر بھارت)
بھارت کا پرچم لال بہادر شاستری
(وزیر اعظم بھارت)
جویانتو ناتھ چودھری
(چیف آف آرمی سٹاف)
لیفٹیننٹ جنرل ہوبکش سنگھ
(مغربی فوج کمان)
ایئر چیف مارشل ارجن سنگھ
(چیف آف ایئر اسٹاف)
میجر جنرل گر بخش سنگھ
(جی او سی، 15واں انفنٹری ڈویژن)
ایوب خان
(صدر پاکستان)
جنرل محمد موسى خان
(رئیسِ عملۂ پاک فوج)
وائس ایڈمرل سید محمد احسن
(چیف آف نیول اسٹاف)
ایئر مارشل نور خان
(چیف آف ایئر اسٹاف)
میجر جنرل ٹکا خان
(جنرل آفیسر کمانڈنگ، 12واں رجمنٹ آرٹلری)
میجر جنرل اختر حسین ملک
(جنرل آفیسر کمانڈنگ، 12واں انفنٹری ڈویژن )
میجر جنرل افتخار جنجوعہ
بریگیڈیئر جنرل عبدل علی ملک
(24واں آرمی انفینٹری)
کموڈور ایس۔ یم۔ انور
(کمانڈر، 25واں بحریہ گروپ)
طاقت

600 طیارے[2]

908 ٹینک

  • 220 سنچورین[3]
  • 346 شرمن[4]

755 توپ خانہ

  • 500 M-160 160mm [3]
  • 95 M-43 120mm [3]
  • 160 BL-5 5" Medium gun [3]
867،000 پیادہ فوج[5]

120 ہوائی جہاز[6]

548 ٹینک

  • 352 پیٹن[7]
  • 100 شرمن[8]
  • 96 چافی[7]

552 توپ خانہ[7]

200،000 پیادہ فوج[9]
ہلاکتیں اور نقصانات

غیر جانبدار دعوے[10][11]

  • 3,000 افراد[10]
  • 150[12]-190 ٹینک[10]
  • 60–75 ہوائی جہاز[10]
  • 540 کلومیٹر2 (210 mi2) کھوئے ہوئے علاقے (بنیادی طور پر رن کچھ)[13][14]

بھارتی دعوے

  • 75 ہوائی جہاز تباہ [15]
  • 322 کلومیٹر2 علاقہ کھو دیا[16]

پاکستانی دعوے

  • 8,200 افراد ہلاک یا گرفتار[16]
  • 110,[17] 113[16] طیارے تباہ
  • 500 ٹینکوں پر قبضہ یا تباہ [16]
  • 2602,[18] 2575 کلومیٹر2[16] فتح

غیر جانبدار دعوے[10]

  • 3,800 افراد[10]
  • 200

پاکستانی دعوے

  • 19 ہوائی جہاز تباہ

بھارتی دعوے

  • 5259 افراد ہلاک یا گرفتار [16]
  • 43,[19] 73 طیارے تباہ [16]
  • 471 ٹینک تباہ [16]
  • 1920,[20] 1078 کلومیٹر2 [16] فتح

جنگ سے پہلے کشیدگی

جنگ کشمیر

تقسیم ہند کے بعد ہی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان میں خاصی کشیدگیاں رہیں۔ اگرچہ تمام مسائل میں مسئلہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ رہا مگر دوسرے سرحدی تنازعات بھی چلتے رہے مثلا کا رن کچھ مسئلہ جس نے 1956ء میں سر اٹھایا۔

رن آف کچھ

رن آف کچھ بھارتی گجرات کا ایک بنجر علاقہ ہے، اس مسئلے کا اختتام بھارت کے متنازع علاقے پر دوبارہ قبضے سے ہوا۔[21] کچھ اخبارات کے مطابق جنوری 1965ء میں پاکستانی سرحدی محافظوں نے بھارتی علاقے میں گشت شروع کر دیا جس کے بعد 8 اپریل 1965 کو دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرحدی پوسٹوں کے اوپر حملے شروع کر دیے۔[21][22] ابتدا میں دونوں ممالک کی سرحدی پولیس کے درمیان یہ تنازع چلتا رہا مگرجلد ہی دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آگئیں۔ جون 1965ء میںوزیر اعظم مملکت متحدہ مسٹر Harold Wilson نے دونوں ممالک کوقائل کر لیا کہ کشیدگی کم کر کے اپنے مسائل ایک ٹریبونل کی مدد سے حل کریں۔ فیصلے کے مطابق جو بعد میں 1968ء میں آیا پاکستان کو رن آف کچھ کا 350 مربع میل (910 کلومیٹر2) کا علاقہ دیا گیا جبکہ پاکستان نے 3,500 مربع میل (9,100 کلومیٹر2[23] کے علاقے کا دعویٰ کیا تھا۔

آپریشن جبرالٹر

اس کے بعد آپریشن جبرالٹر مزید کشیدگی کا باعث بنا۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے درگاہ حضرت بل کی بے حرمتی نے کشمیری مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا ہوا تھا۔ وادی کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارتی پارلیمان میں پیش ہونے والے قانون کی وجہ سے بھی کشمیری مسلمانوں میں شدید اضطراب کی سے کیفیت تھی اور وہ آزادی کے لیے مستعد نظر آتے تھے، کشمیر کی یہ وہ صورت حال تھی جس سے پاکستان نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ آپریشن جبرالٹر کے نتائج خاصے خطرناک نکلے اور اسی آپریشن کے بطن سے 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے جنم لیا۔

آپریشن گرینڈ سلام

آپریشن گرینڈ سلام

جنگ

25 اگست 1965ء کو 5,000 سے 7,000(پاکستانی دعوے) یا 30،000 سے 000، 40 (بھارتی دعوی) پاکستانی فوجیوں نے لائن آف کنٹرول کو عبور کیا، بھارتی افواج کو بتایا گیا 15 اگست کو سرحد عبور کی گئی ہے۔[24][1] ابتدائی طور پر، بھارتی فوج کو کافی کامیابی ملی، توپ خانہ کے ذریعے کی گئی گولہ باری سے بھارت نے تین اہم پہاڑی مقامات پر قبضہ کر لیا۔ اگست کے آخر تک، البتہ فریقین کی ایک جیسی پیشرفت رہی۔ پاکستان نے تتوال، پونچھ اور اوڑی کے علاقوں میں پیش رفت کی جبکہ بھارت نے حاجی پیر پاس میں پاکستانی کشمیر میں 8 کلومیٹر تک قبضہ کر لیا[25] 1 ستمبر 1965ء کو، پاکستان نے ایک جوابی حملے کا آغاز کیا، جسے آپریش گرینڈ سلام کا نام دیا گیا۔ جس کا مقصد جموں کے اہم شہر اکھنور پر قبضہ کرنا تھا، جہاں سے بھارتی فوجیوں تک رسد کا راستہ اور مواصلاتی سلسلہ کاٹ دیا جاتا۔ ایوب خان نے حساب لگایا کہ، ہندو صحیح وقت اور جگہ پر کھڑے رہنے کا حوصلہ نہیں کریں گے۔[26][27][28]

جنگ میں بیرونی طاقتوں کا کردار

انڈونیشیا:

1965 کی جنگ میں انڈونیشیا نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ اس وقت کے صدر سوئیکارنو نے ایک جانب تو اندمان اور نکوبار کے جزائر کا محاصرہ کروایا اور پاکستان کی مدد کے لیے فوری طور پر دو آبدوزیں اور دو میزائل بردار کشتیاں روانہ کیں لیکن اس وقت تک پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو چکی تھی۔۔[29]

ایران:

جنگ کے دوران ایران نے پاکستان کو مفت میں تیل فراہم کیا۔ زخمی فوجیوں کے لیے ادویات بھی فراہم کیں اور پاکستان کو دینے کے لیے جرمنی سے 90 طیارے بھی خریدے۔[30]

ترکی:

ایران کی طرح ترکی نے بھی پاکستانی فوجیوں ی مدد کے لیے نرسوں کے گروپ بھیجے[31]

جنگ کے نمایاں ہیروز

فضائیہ

فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ اور فلائٹ آفیسر عباس مرزا نے دو بھارتی طیاروں کو پسرور ائیر فیلڈ پر اتار لیا [32]

ایئر کموڈور ایم ایم عالم مرحوم [32]

فلائٹ لیفٹیننٹ یونس شہید ، فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز رفیقی، پھر وِنگ کمانڈر سیسل چوہدری (جو کرسچین تھے)

کرنل کے ایم رائے )کرسچین (

بری

میجر عزیز بھٹی شہید،[32]

بریگیڈیئر شامی شہید[32]

لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر  30 بھارتی سپاہیوں کو جنگی قیدی بنالیا[32]

بحریہ

نیول کمانڈر احسان ناگی بھی 1965 کی جنگ میں شہید -[32]--

نقصانات کا جائزہ

جنگی نقصانات اور تباہی کے متعلق بھارت اور پاکستان کی جانب سے ایک دوسرے کے بارے میں خاصے مختلف دعوے کیے گئے ہیں۔ ذیل کے جدول میں دونوں ملکوں کے دعووں کا خلاصہ پیش ہے۔

بھارت کے دعوے[33] پاکستان کے دعوے[34] آزادانہ ذرائع[1][35]
اموات  –  – 9,000 بھارتی فوجی، 3,800 پاکستانی فوجی
جنگ میں فضائیہ کا استعمال 4,073+ فضائی مڈبھیڑ 2,279 فضائی مڈبھیڑ
فضائیے کے نقصانات 59 بھارتی فضائیہ (سرکاری)، 43 پاکستانی فضائیہ۔[15] اس کے علاوہ بھارتی ذرائع کا دعوٰی ہے کہ تیرہ بھارتی فضائیہ کے جہاز حادثوں کی نذر ہوئے اور تین بھارتی شہری جہاز گرائے گئے تھے۔[36] 19 پاکستانی فضائیہ، 104 بھارتی فضائیہ 20 پاکستانی فضائیہ، 60-75 بھارتی فضائیہ; پاکستان کا دعوٰی ہے کہ بھارت نے غیر جانبدار مصالحت مسترد کردی تھی۔[37][38]
فضائی فتوح 17 + 3 (ما بعد جنگ) 30  –
تباہ شدہ ٹینک 128 بھارتی ٹینک، 152 پاکستانی ٹینک ضبط، 150 پاکستانی ٹینک تباہ۔ سرکاری طور پر 471 پاکستانی ٹینک تباہ اور 38 ضبط[39] 165 پاکستانی ٹینک[متنازع ][حوالہ درکار]
مقبوضہ علاقہ 1,500 مربع میل (3,900 کلومیٹر2) پاکستان کا علاقہ 250 مربع میل (650 کلومیٹر2) بھارت کا علاقہ India held 710 مربع میل (1,800 کلومیٹر2) پاکستان کا علاقہ یا اس کے زیراثر علاقہ 210 مربع میل (540 کلومیٹر2) بھارت کا علاقہ

فوجی اعزازات

جنگی اعزاز

جنگ کے بعد بھارت میں بھارتی فوج کی مختلف یونٹوں کو 16 جنگی اعزازات اور 3 میدان جنگ سے متعلق اعزازات (theatre honour) دیے گئے۔ ان میں سے کچھ یونٹیں درج ذیل ہیں:[40]

  • جموں اور کشمیر 1965 (theatre honour)
  • پنجاب 1965 (theatre honour)
  • راجستھان 1965 (theatre honour)
  • اصل اتر

  • برکی
  • دوگرائے
  • حاجی پیر

  • کالی دھار
  • او پی ہل
  • پھلورا

بہادری کے اعزازات

میدان جنگ میں بہادری دکھانے والوں کو بھارت نے پرام ویر چکر اور پاکستان نے نشان حیدر دیا۔

بھارت
  • کمپنی کوارٹر ماسٹر حوالدار عبد الحامد(بعد از شہادت)
  • لیفٹینٹ کرنل اردشھیر تارا پورے(بعد از شہادت)
پاکستان


مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ "Indo-Pakistani War of 1965"۔ Global Security 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث
  3. Bharat Rakshak۔ "Page 15" (PDF)۔ Official History۔ Times of India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2011 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح Lt.Gen Harbaksh SIngh (1991)۔ War Despatches۔ New Delhi: Lancer International۔ صفحہ: 7۔ ISBN 81-7062-117-8 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Thomas M. Leonard (2006)۔ Encyclopedia of the developing world۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 806–۔ ISBN 978-0-415-97663-3۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2011 
  6. "Indo-Pakistan Wars"۔ 01 نومبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2013 
  7. Spencer Tucker (2004)۔ Tanks: An Illustrated History of Their Impact۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 172۔ ISBN 978-1-57607-995-9۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2013 
  8. ^ ا ب David Praagh۔ The greater game: India's race with destiny and China۔ McGill-Queen's Press – MQUP, 2003۔ ISBN 0-7735-2639-0 
  9. ^ ا ب Robert Johnson (2005)۔ A region in turmoil: South Asian conflicts since 1947۔ Reaktion Books, 2005۔ ISBN 1-86189-257-8 
  10. ^ ا ب "Official History of IAF in 65 War" (PDF)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2012 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح Lon O' Nordeen (1985)۔ Air Warfare in the Missile Age۔ Washington, D.C.: Smithsonian Institution Press۔ صفحہ: 84–87۔ ISBN 978-0-87474-680-8 
  12. 1965 War: A Different Legacy: ALL THINGS PAKISTAN۔ Pakistaniat.com (1965-09-06)۔ Retrieved on 2011-04-14.
  13. 1965 War آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pakistanarmy.gov.pk (Error: unknown archive URL)۔ Pakistan army (2009-09-01)۔ Retrieved on 2011-04-14.
  14. The Sunday Tribune – Spectrum۔ Tribuneindia.com. Retrieved on 2011-04-14.
  15. Bharat Rakshak۔ "Page 22" (PDF)۔ Official History۔ Times of India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2011 
  16. ^ ا ب Michael Brecher، Jonathan Wilkenfeld (نومبر 1997)۔ A study of crisis۔ University of Michigan Press۔ صفحہ: 171–172۔ ISBN 978-0-472-10806-0۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2011 
  17. Press Trust of India, Islamabad bureau (14 ستمبر 2009)۔ "Pak's intrusions on borders triggered 1965 war: Durrani"۔ Times of India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2011 
  18. Bhushan, Chodarat. "Tulbul, Sir Creek and Siachen: Competitive Methodologies" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ southasianmedia.net (Error: unknown archive URL)۔ South Asian Journal. مارچ 2005, دائرۃ المعارف بریطانیکا and Open Forum – UNIDIR آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ unidir.ch (Error: unknown archive URL)
  19. "Operation Gibraltar" 
  20. Giving Haji Pir back to Pak a mistake: Gen Dyal
  21. "Underestimating India"۔ Indian Express۔ 4 ستمبر 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011 
  22. "Pakistan's Endgame in Kashmir – Carnegie Endowment for International Peace"۔ Carnegieendowment.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011 
  23. "Indian Air Force :: Flight of the Falcon"۔ Bharat-rakshak.com۔ 28 اگست 2010۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011 
  24. معرکہ 1965 اور پاک بحریہ کا مشن دوارکا
  25. "Pak-Iran Relations Since Islamic Revolution: Genisis of Cooperation and Competition"۔ 10 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  26. "Rare photos from 1965 Pakistan-India war" 
  27. ^ ا ب پ ت ٹ ث "جنگ ستمبر کے ہیروز کی اہمیت کو اجاگر کیاجائے"۔ 09 ستمبر ، 2014 
  28. "Ceasefire & After"۔ Bharat-rakshak.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  29. "Grand Slam – A Battle of Lost Opportunities"۔ Defencejournal.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  30. "onwar"۔ onwar۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  31. Rakshak.com http://www.bharat-rakshak.com/IAF/History/Misc/Loss1965.html آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bharat-rakshak.com (Error: unknown archive URL)
  32. Group Captain Cecil Chaudhry, SJ – Chowk: India Pakistan Ideas Identities.com آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ chowk.com (Error: unknown archive URL)۔ Chowk (2007-12-09)۔ Retrieved on 2011-04-14.
  33. Pushpindar Singh (1991)۔ Fiza ya, Psyche of the Pakistan Air Force۔ Himalayan Books۔ ISBN 81-7002-038-7 
  34. "IAF war kills in 1965 war" (PDF)۔ Orbat.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2011 
  35. Sarbans Singh (1993)۔ Battle Honours of the Indian Army 1757–1971۔ New Delhi: Vision Books۔ صفحہ: 242–256۔ ISBN 81-7094-115-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2011