بھارت میں عوامی صحت کا نظام
بھارت میں عوامی صحت کا نظام عموماً اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ معیاروں کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت بھارت عوامی صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے لیکن بھارت اس تناسب کو حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہے۔ دس برسوں میں کمی کی اس شرح میں تین گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے مرکزی وزیر صحت نے 2016ء میں راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ ملک بھر میں چودہ لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے اور ہر سال تقریبًا 5500 ڈاکٹر ہی تیار ہو پاتے ہیں۔[1]
ڈاکٹروں میں باہر قیام پزیر ہونے کا رجحان
ترمیمماہر ڈاکٹروں کے معاملے میں تو صورت حال اور بھی بدتر ہے۔ قومی صحت مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق جراحی (سرجری)، نسوانیات اور بچوں کے امراض جیسے طبی معاملوں کے بنیادی شعبوں میں 50 فی صد ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو یہ اعداد و شمار 82 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ مرکزی حکومت نے اگست 2015ء میں یہ فیصلہ لیا تھا کہ وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کو نو آبلی گیشن ٹو ریٹرن ٹو انڈیا سرٹپفیکیٹ (بھارت لوٹنا لازم نہیں ہونے کا صداقت نامہ) جاری نہیں کرے گی جس سے وہ ہمیشہ کے لیے بیرون ملک میں رہ سکتے تھے۔ اس فیصلے کے بعد مہاراشٹر کے ریزیڈنشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے حکومت کے اس فیصلے کو انسانی حقوق اور جینے کے حق کی خلاف ورزی قرار دے کر ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کی گئی اسی عرضی کے جواب میں وزارت صحت نے حلف نامہ دائر کرکے کہا ہے کہ ملک خود ڈاکٹروں کی بھاری کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹروں کو بیرون ملک بسنے کی اجازت دے اور یہ ثابت کرے گا کہ ملک کو ان کی خدمت کی ضرورت نہیں ہے۔ عالمیانے کے بعد باہر جاکر پڑھنے والے بھارتیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے، چین کے بعد بھارت سے ہی سب سے زیادہ لوگ پڑھنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔
ایسوچیم کے مطابق ہر سال تقریبًا چار لاکھ سے زیادہ بھارتی بیرون ملک میں تعلیم کے لیے جا رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف بیرون ملک سے ڈگری لینا ہی نہیں بلکہ ڈگری ملنے کے بعد ان کی ترجیح دنیا کے کسی بھی حصے میں زیادہ اجرت والے مقام پر پیشے کو کام میں لانا ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ ملک سے تعلیم یافتہ دماغوں کے اخراج کو روکنے کے 2012ء میں لیے گئے پالیسی فیصلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت دنیا کے اہم ممالک میں سب سے زیادہ ڈاکٹروں کی فراہمی کرتا ہے۔ بیرون ملک میں ملازم بھارتی ڈاکٹروں کی تعداد سال 2000ء میں 56000 تھی جو 2010ء میں 55 فیصد بڑھ کر 86680 ہو گئی۔ ان میں سے 60 فیصد بھارتی ڈاکٹر اکیلے امریکا میں ہی کام کر رہے ہیں۔[1]
طبی تعلیم اور طبی شعبہ
ترمیمایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت 412 میڈیکل کالج ہیں۔ ان میں سے 45 فیصد سرکاری شعبے میں اور 55 فیصد نجی شعبے میں ہیں۔ ملک کے کل 640 اضلاع میں سے صرف 193 اضلاع میں ہی میڈیکل کالج ہیں اور باقی 447 اضلاع میں طبی مطالعہ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ موجودہ وقت میں ڈاکٹر بننا بہت مہنگا سودا ہو گیا ہے اور ایک طرح سے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہی ہو گیا ہے۔ نجی اداروں میں داخلے کے لیے ڈونیشن کروڑوں تک پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی قرض لے کر تعلیم مکمل کر بھی لیتا ہے تو وہ اس پر ہوئے اخراجات کو سود سمیت وصول کی جلدی میں رہتا ہے۔ یہ ایک طرح سے نجکاری کو بھی فروغ دیتا ہے کیونکہ اس کی وصولی میں اس دوا کمپنیاں پوری مدد کرتی ہیں۔ ڈاکٹروں کو لالچ دیا جاتا ہے یا انھیں مجبور کیا جاتا ہے کہ مہنگی اور غیر ضروری ادویات اور معائنہ جات لکھیں۔ ملک میں آزادی کے بعد کے دور میں نجی ہسپتال تعداد کے لحاظ سے آٹھ سے بڑھ کر 93 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔[1]
کچھ چونکانے والے حقائق
ترمیمبھارت میں بچوں کی شرح اموات فی ایک ہزار پر 52 ہے جبکہ سری لنکا میں یہ 15، نیپال میں 38، بھوٹان میں 41 اور مالدیپ میں یہ ہندسہ 20 کا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال پر خرچ کا 70 فیصد نجی شعبے سے آتا ہے، جبکہ اس معاملے میں عالمی اوسط 38 فیصد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کرنے پرخاص طور پر یہ اعداد و شمار اور بھی زیادہ چونکانے والا ہے۔ اس کے علاوہ، طبی اخراجات کا 86 فیصد تک لوگوں کو اپنی جیب سے ادا کرنا ہوتا ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ ملک میں صحت کے بیمے کی رسائی کتنی کم ہے۔ بھارت کی کل صحت کی دیکھ ریکھ کے اخراجات اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی، دونوں کے ہی لحاظ سے بہت سے ترقی پزیر ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ برازیل جیسے ترقی پزیر ملک میں فی ہزار لوگوں پر ہسپتالوں میں پلنگوں کی دستیابی 2.3 ہے مگر بھارت میں یہ اعداد و شمار صرف 0.7 کو چھو پاتا ہے۔ پڑوسی ممالک سری لنکا میں یہ اعداد و شمار 3.6 اور چین میں 3.8 ہے۔ ڈاکٹروں کی دستیابی کا عالمی اوسط فی ایک ہزار افراد پر 1.3 ہے جبکہ بھارت میں یہ صرف 0.7 ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سال 2011 میں بھارت میں صحت پر فی شخص کل اخراجات 62 امریکی ڈالر (تقریبا پونے چار ہزار روپے) تھا جبکہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں 8467 ڈالر اور ناروے میں 9908 امریکی ڈالر تک تھا۔ پڑوسی ملک سری لنکا تک بھارت سے فی شخص تقریبا 50 فیصد تک زیادہ (93 امریکی ڈالر) خرچ کر رہا تھا۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر بھارت میں 400000 ڈاکٹروں، 700000 پلنگوں اور تقریبًا 40 لاکھ نرسوں کی کمی ہے۔ وسائل اور صحت کی سہولیات کی ناہموار تقسیم کے علاوہ بھارت میں بیماروں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی اپنے آپ میں ایک بڑا چیلنج ہے۔ مثال کے طور پر، بھارت میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد پہلے 2020ء تک 3.6 کروڑ تک اندازہ لگایا گیا تھا، اب یہ 7.5 کروڑ سے پہلے ہی آگے نکل چکی ہے۔ جلد ہی دنیا میں ہر پانچ ذیابیطس کے مریضوں میں ایک بھارتی ہوگا۔[2]
عوامی صحت کے شعبے کا کام اور حکومت کی دلچسپی
ترمیمبھارت کی وزارت صحت نے 12 ویں پنج سالہ منصوبہ (2012ء-2017ء) کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی صحت سے متعلق مسودے پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ اس مسودے میں صحت کی خدمات میں نجی شعبے کی شرکت بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے کیونکہ نجی شعبے میں خدمات بہتر ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ صحت پر عوامی شعبے کا خرچ مجموعی گھریلو پیداوار کا کم سے کم 2.5 فیصد (موجودہ 1.2 فیصد) ہونا چاہیے اور منصوبہ بندی کے اختتام یعنی 2017ء تک اسے بڑھا کر 2.85 فیصد کر دیا جائے۔ قابل ذکر ہے منصوبہ بندی کمیشن نے 12 ویں پنج سالہ منصوبہ میں اہم عوامی صحت کی خدمات پر خرچ مجموعی گھریلو مصنوعات کی صرف 1.87 فیصد کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ وزارت صحت کی رائے میں عوامی صحت کے نظام کو مضبوط کیے بغیر اپنی ذمہ داری نجی شعبے پر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ صحت کی دیکھ بھال کو عوامی صحت کے ڈھانچے پر اور انحصار کرنا چاہیے اور نجی شعبے کو صرف اتحادی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔[3]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ بھارت میں خدمات صحت[مردہ ربط]
- ↑ "بھارت میں صحت خدمات:صورت حال، چیلنج اور اس کا حل"۔ 10 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2018
- ↑ عوامی صحت کی صورت حال اور اس کا مستقبل[مردہ ربط]