بھارت میں مزدوری سے مراد بھارت کی معیشت میں ملازمت کے مواقع ہیں۔ 2012ء میں یہاں 487 ملین مزدور تھے، جو چین کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔[1] ان میں سے 94 فی صد غیرمسلمہ کاروباروں اور غیر منظم تجارتی اداروں سے وابستہ تھے جو ٹھیلے فروشوں سے لے کر گھروں سے ہیروں اور موتیوں کی صفائی سے جڑے تھے۔[2][3] منظم شعبے میں وہ مزدور شامل ہیں جو حکومت، ریاست کے ملکیتی کاروبار اور نجی کاروبار شامل ہیں۔ 2008ء میں منظم شعبہ 27.5 ملین مزدوروں کو روزگار فراہم کر رہا تھا، جن میں سے 17.3 ملین حکومت یا حکومت کی ملکیت میں چلنے والے اداروں میں کام کر رہے تھے۔[4]

عالمی مزدوروں کی موجودگی کا نقشہ۔ 2011ء میں بھارت میں 487 ملین مزدور تھے جبکہ چین میں 795 تھے اور ریاستہائے متحدہ امریکا میں 154 ملین تھے۔.

بھارت میں مزدوری کا ڈھانچا

ترمیم
 
بھارت کے زیادہ تر مزدور غیر منظم شعبوں میں برسرخدمت ہیں۔ ان میں خاندانوں کی ملکیت والی دکانیں اور سڑک کے بیوپاری شامل ہیں۔ اوپر ایک خودروزگار کے تحت کم سنی کا مزدور (بچوں کی مزدوری) ہے جو بھارت کے غیر منطم ریٹیل شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔
 
دستی مصنوعات کی تیاری کے ادارے پر موجود غیر منظم مزدور.
 
حیدرآباد، دکن، بھارت میں ایک برآمدے کے فرش کی تیاری کا کام

بھارت کی برسرخدمت آبادی کا 94 فیصد سے زیادہ حصہ غیر منظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔[2] عام اصطلاح میں بھارت میں منظم شعبہ یا رسمی شعبہ کا مطلب لائسنن یافتہ ادارہ ہوتا ہے، یعنی وہ ادارہ جس کا اندراج ہو چکا ہے اور جو سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس ادا کرتا ہو۔ اس میں عوامی شعبے میں زیرتجارت کمپنیاں، کمپنی قانون کے تحت مسلمہ کمپنیاں یا رسمی طور پر اندراج پا چکی کمپنیاں، فیٹکٹریاں، شاپنگ مال، ہوٹل اور بڑے کاروباری ادارے شامل ہیں۔ غیر منظم شعبے کو سُبھم مِتل یا خود کا کاروبار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق سبھی غیر لائسنس یافتہ، خودملازمت یا غیر مندرجہ شعبے کی سرگرمیوں پر ہوتا ہے جس میں مالک کی دیکھ ریکھ والے عام ضرورت کی دکانیں، دستکاری سے جڑے مزدور، دیہی تاجر، کسان وغیرہ پر ہوتا ہے۔[5][6]

بھارت کی وزارت مزدوری 2008ء کی اپنی رپورٹ میں غیر منطم شعبے کو چار زمروں میں تقسیم کر چکی ہے۔[7] اس تقسیم میں بھارت کے غیر منظم مزدوروں کو پیشے، ملازمت کی نوعیت، خصوصًا آزردہ زمروں اور خدمات کے زمروں کا تذکرہ موجود ہے۔ غیر منظم پیشہ مزدوروں کا طبقہ چھوٹے اور مجھولے کسان، بے زمین زرعی مزدور، فصل بونے کے دوران شامل ہونے والوں، مچھواروں، جانواروں کی افزائش نسل سے وابستہ افراد، بیڑی بنانے والوں، لیبل اور پیکیجنگ سے جڑے لوگوں، عمارت سازی، چمڑے کے کاروبار سے جڑنے والوں، بنکروں، کاریگروں، نمک کے کاروبار سے جڑنے والوں، اینٹ کی بھٹی میں کام کرنے والوں، کپڑاسازی اور تیل کے مِلوں میں کام کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ ملازمت کی نوعیت پر ایک علٰحدہ زمرہ ہے جس میں زراعت سے منسلک بندھوا مزدور، عام بندھوا مزدور، نقل مقام کرنے والے مزدور، معاہدہ کے تحت اور عارضی طور پر کام کر رہے مزدور، جانوروں سے چلنے والی گاڑیوں کو چلانے والے اور حمال شامل ہیں۔ آخری غیر منظم مزدوروں کا زمرہ برسر خدمت مزدوروں پر مشتمل ہے جن میں دائی، گھریلو خدمت گزار، حجام، سبزی اور پھل فروش، اخبارفروش، فُٹ پاتھ کے فروشندے، ٹھیلا چلانے والے اور غیر منظم ریٹیل شامل ہیں۔[8][9]

غیر منطم شعبہ کم مائیگی رکھتا ہے اور کم اجرت فراہم کرتا ہے۔ حالاں کہ یہ 94 فیصد مزدوروں پر محیط ہے، پھر بھی بھارت کا غیر منطم شعبہ بھارت کی قومی گھریلو پیداوار کا 2006ء میں 57 فیصد حصہ بنا تھا یا تقریبًا منظم شعبے کے مزدوروں سے نو گنا کم حصہ تھا۔[10] بھلا کے مطابق، پیداوار کی خلا اور بھی بگڑ جاتی ہے جب دیہی غیر منطم شعبے کا تقابل شہری غیر منطم شعبے سے کیا جاتا ہے، جب مجموعی قدر پیداوار کی خلا کو دو سے چار گنا پیشے کے اعتبار سے بڑھا دیتے ہیں۔ کچھ اقل ترین اجرت والی ملازمتیں دیہی غیر منطم شعبے میں ہیں۔ غربت کی شرحیں ان خاندانوں میں قابل ذکر حد تک زیادہ ہیں جہاں خدمت گزاری کی عمر کا ہر فرد تا حیات غیر منظم شعبے میں کام کرتا رہا ہے۔[11][12]

زراعت، دودھ کا کاروبار، باغبانی اور متعلقہ پیشے ہی بھارت کے 52 فی صد مزدوروں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔

تقریبًا 30 ملین مزدور نقل مقام کر کے روزگار کماتے ہیں، جن کی اکثریت زراعت میں ہے۔ ان لوگوں کو مستقل طور پر مقامی ملازمت کے مواقع حاصل نہیں ہیں۔

بھارت کے نیشنل سیمپل سروے آفس کی 67 ویں رپورٹ سے پتہ چلا کہ غیر منظم اشیاسازی، غیر منظم تجارت/ ریٹیل اور غیر منظم خدمات قومی سبھی سطح کے مزدوروں کے دس فیصد کو ملازمت فراہم کرتے ہیں، جیساکہ 2010ء کے اعدادو شمار میں پایا گیا تھا۔ یہ بھی اطلاع دی گئی تھی کہ بھارت میں 58 ملین غیر اندراج شدہ زرعی کمپنیاں 2010ء کام کر رہی تھی۔

منظم شعبے میں 2008ء میں فی کمپنی دس سے زیادہ مزدوروں کو ملازمت دینے والا نجی شعبہ سب زیادہ ملازمت فراہم کرنے والا تھا۔ اشیاسازی پانچ ملین، سماجی خدمات 2.2 ملین، اس میں نجی اسکول اور اسپتال شامل تھے، مالیہ 1.1 ملین پر محیط تھا، اس میں بینک، بیمہ، تعمیری شعبہ شامل تھے؛ اور زراعت ایک ملین پر محیط تھا۔ اسی سال بھارت میں مرکزی اور ریاستی ملازمین عوامی شعبے کے ملازمین کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھے۔ جنسی تناسب میں مرد و خواتین کے اعداد و شمار سرکاری شعبے اور سرکاری ملکیت والی کمپنیوں میں 5:1 تھا۔ یہ تناسب نجی شعبے کہیں بہتر یعنی 3:1 تناسب تھا۔ مجموعی اعتبار سے اگر صرف دس سے زیادہ ملازمین والی کمپنیوں کو دیکھا جائے تو منطم عوامی اور نجی شعبے میں 5.5 ملین عورتوں اور 22 ملین آدمیوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔[4]

اپنی فطری شرح اضافۂ آبادی اور عمرکے اضافے کے لحاظ سے بھارت 13 ملین نئے مزدور ہر سال اپنے مزدوروں کی تعداد میں بڑھا رہا ہے۔ بھارت کی معیشت 8 ملین نئی ملازمتیں فراہم کرتی ہے جو زیادہ تر کم اجرت اور غیر منظم شعبے میں ہیں۔[13] مابقی 5 ملین نوجوان کم اجرت والی جزوی ملازمت، عارضی ملازمت کے افراد جو بنیادی ڈھانچوں اور تعمیری ملازمتوں کا حصہ بنتے ہیں یا اکثر بے روزگار رہتے ہیں۔

مزدوروں سے تعلقات

ترمیم

2000ء میں 400 ملین افراد پر مشتمل مزدوروں کا 7 فی صد حصہ رسمی شعبے میں شامل تھا (جس میں حکومت اور کمپنیاں شامل تھے)۔[14] یہ شعبہ برائے نام قوم کی گھریلو پیداوار (انگریزی: nominal GDP) کا 60 فی صد حصہ تھا۔ ٹریڈ یونین قانون 1926ء نے بھارت کی نوخیز مزدور یونینوں کو مسلمہ حیثیت اور تحفظ فراہم کیا تھا۔ بھارت کی آزادی کے بعد ٹریڈ یونینوں کی تعداد کافی حد تک بڑھ گئی، مگر زیادہ تر یونینیں چھوٹی ہیں اور عمومًا صرف ایک کمپنی میں برسرخدمت ہیں۔ [حوالہ درکار]

1997ء میں بھارت میں 59,000 ٹریڈ یونین حکومت ہند کے تحت تسلیم شدہ حیثیت رکھتے تھے۔[15] ان میں سے صرف 9,900 یونین آمدنی اور اخراجات کی رپورٹ پیش کیے تھے اور یہ دعوٰی کیے تھے کہ وہ 7.4 ملین مزدوروں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ کیرلا ریاست میں 9,800 ٹریڈ یونین تھے اور اندراج کے حساب سے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ مگر ان میں سے چند ہی آمدنی اور اخراجات کی رپورٹ حکومت ہند کو پیش کرتے تھے۔ 1950ء سے 1990ء کے دہے میں کیرلا میں سب سے تیزی سے یونینوں کی تعداد بڑھی ہے۔

1995ء میں بھارت میں دس ٹریڈ یونینوں کے اتحاد موجود تھے (1980ء میں ارکان کی تعداد کے حساب سے ): آئی این ٹی یو سی، سیٹو (CITU)، بی ایم ایس، اے آئی ٹی یو سی، ایچ ایم ایس، این ایل او، یو ٹی یو سی، اے آئی ٹی یو سی، این ایف آئی ٹی یو اور ٹی یو سی سی۔ ہر اتحاد کی کئی مقامی طور ملحقہ ٹریڈ یونینیں تھیں، جن میں ٹی یو سی سی کے سب سے کم 65 رہے جبکہ آئی این ٹی یو سی کے 1604 ملحقہ یونین رہے۔ 1989ء تک بی ایم ایس 3,117 ملحقہ یونینوں کے ساتھ سب سے بڑا اتحاد بنا جبکہ آئی این ٹی یو سی 2.2 ملین افراد کی رکنیت کے ساتھ سب سے بڑی یونین بنی ہے۔[15] یہ ملک کے منطم و غیر منظم شعبوں کے 0.5% مزدوروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ 2010ء میں بھارت کے 98% مزدور کسی بھی یونین سے وابستہ نہیں تھے اور نہ کسی اجتماعی سودے بازی معاہدے کا حصہ تھے۔

1950ء–1990ء کے دوران مزدوروں سے تعلقات

ترمیم

کئی ماہرین معاشیات (مثلاً فالون اور لوکس، 1989ء؛ بیلسے اور بورگیس، 2004ء) نے بھارت میں صنعتی تعلقات کے ماحول کا مطالعہ کیا، ان مطالعات میں سے زیادہ تر ریاستی سطح پر بھارت کے صنعتی تنازعات قانون کے فرق پر مرکوز تھے۔ کچھ مطالعات (مثلاً بیلسے اور بورگیس، 2004ء) نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ تنازعات قانون کی مزدورحامی ترامیم صنعتی پیداوار اور ملازمت پر منفی اثرات ظاہر کیے ہیں اور یہ اثرات غربت پر بھی اسی طرح مرتب ہوئے ہیں۔[16] مگر ان مطالعات کی تنقید بھی ہوئی ہے کہ ماخوذ معلومات کی غلط تعبیر کی گئی ہے[17] اور یہ نتائج اس درجے کے پختہ نہیں ہیں وہ جدید معاشیاتی پیمائش کے امتحانوں سے گذر سکیں۔[18]

1950ء سے 1970ء کے بیچ مزدوروں کے تنازعات لگ بھگ تین گنا بڑھ گئے، اوسط سالانہ تنازعات ایک ہزار سے بڑھ کر تین ہزار ہو گئے۔ 1973ء میں کافی بڑھ کر 3,370 مزدوروں کے تنازعات ہو گئے۔ اسی سال مزدوروں کے تنازعات کا حصہ بننے والے مزدور کام ترک کرنے لگے اور یہ اعداد 2.9 ملین مزدوروں تک پہنچ گئے۔ افراد کے فوتیدہ کام کے دن 1982ء میں بڑھ گئے اور اُس یہ 74.6 ملین فوتیدہ افراد کے دن (lost man-days) یا منطم شعبے میں کل فوتیدہ افراد کے دن کا 2.7% حصہ تھے۔[15] جہاں 1970ء کی دہائی مزدور یونینوں اور تنازعات کے لیے جانی جاتی ہے، مزدور تنازعات میں اچانک 1975ء–1977ء میں گراوٹ دیکھی گئی جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور اور کئی دوسری باتوں کے ساتھ شہری حقوق معطل کر دیے، جس میں مزدوروں کو ہڑتال کرنے کا حق بھی شامل ہے۔[19]

اس جدول میں منظم مزدوروں کے رجحانات پائے جاتے ہیں:[20]

سال عوامی شعبہ
(ملین میں)
نجی شعبہ
(ملین میں)
رواں (بے روزگاری) اندراج شدہ
(ملین میں)
1975 13.63 6.79 9.78
1980 15.48 7.40 17.84
1985 17.68 7.37 30.13
1990 19.06 7.68 36.30
1995 19.43 8.51 37.43
2000 19.14 8.65 42.00
2005 18.19 8.77 41.47
2010 17.55 11.45 40.17

غیر منظم شعبے کے معاملات

ترمیم

غیر منظم شعبہ کئی مسائل سے دوچار ہے۔ بھارت کی وزارت مزدوری نے خصوصًا نقل مقام، گھریلو اور بندھوا مزدوروں کی شناخت کی ہے۔

نقل مقام مزدور

ترمیم
بھارت کے نقل مقام ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدور 40 سے 85 فیصد کم اجرت پر کام کرنے والی آبادی کا حصہ ہیں جو مشرق وسطٰی میں مقیم ہے۔ وہ عرب ممالک کی کئی قابل ذکر عمارتوں کو بناتے ہیں، جن میں دوبئی کا برج خلیفہ (اوپر) بھی شامل ہے۔ خستہ حال ماحول اور مزدوروں کے استحصال کے کئی واقعات کی خبر دی گئی ہے۔[21]

بھارت میں دو زمرے کے نقل مقام مزدور موجود ہیں - ایک وہ جو عارضی طور پر دوسرے ممالک میں کام کرتے ہیں اور دوسرے جو اندرون ملک موسم اور کام کی موجودگی کی وجہ کام کرتے ہیں۔

تقریبًا چار ملین بھارتی نژاد مزدور اور نقل مقام کام کرنے والے مشرق وسطٰی ہی میں بسے ہیں۔ ان لوگوں کا اعزاز ہے کہ انھوں نے دوبئی، بحرین، قطر اور خلیج فارس میں جدید معماری کے نمونے بنائے، جن میں برج خلیفہ شامل ہے، جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی عمارت ہے۔ اس کا افتتاح جنوری 2010ء میں ہوا تھا۔ یہ نقل مقام مزدور بہتر اجرت (عمومًا 2 سے 5 امریکی ڈالر فی گھنٹا)، زائد وقت کی اجرت کے امکانات اور بھارت میں قیام پزیر اپنے خاندانوں کو مالیہ فراہمی کے امکانات سے متاثر ہوتے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے مزدوروں نے 2009ء میں 20 بلین امریکی ڈالر کی مالیتی رقم بھارت منتقل کر چکے ہیں۔ ایک بار منصوبے مکمل ہونے کے بعد ان مزدوروں کو اپنے خرچ پر واپس لوٹنا ہوتا ہے۔ انھیں بے روزگاری یا سماجی تحفظ جیسی سہولتیں حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ کچھ معاملوں میں مزدوروں کے استحصال کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی، غیر محفوظ کام کے حالات اور رہنے کے ناگفتہ بہ حالات کا دعوٰی کیا گیا ہے۔[21][22]

گھریلو مزدور

ترمیم

گھریلو نقل مقام مزدوروں کی تعداد کا اندازہ ہے کہ یہ 4.2 ملین ہے - (گھریلو مزدور، نہ کہ گھریلو نقل مقام مزدور)۔ یہ ہمہ وقتی مزدوروں سے لے کر جزوقتی مزدور، عارضی یا مستقل مزدوروں پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ ان کی ملازمت میں اجرت کبھی نقد دی جاتی ہے تو کبھی اشیا کی شکل میں دی جاتی ہے۔ یہ کسی گھر، ایجنسی یا راست طور پر گھریلو طرز کے کاموں کے کاموں میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی صرف ایک آجر کے تحت کام کرتے ہیں تو کبھی کئی آجروں کے تحت کام کرتے ہیں۔ ان میں کچھ رہائشی مزدور ہیں تو کچھ موسمی مزدور ہیں۔ ان مزدوروں کو کام پر لگانا آجروں کی مرضی پر منحصر ہے اور معاوضے میں یکسانی نہیں پائی جاتی ہے۔[23][24]

قرض کا بندھواپن

ترمیم

بندھوا مزدوری آجر اور مزدور کے بیچ زبردستی کی بندش ہے، جہاں زبردستی کا عنصر قائم قرض سے بنتا ہے۔ عمومًا شرح سود اتنی تیزی سے بڑھتا ہے کہ بندھوا مزدوری لمبے وقت تک جاری رہتی ہے، تا دائمی طور پر قائم رہتی ہے کبھی کبھی ملازم کے پاس منظم یا غیر منظم شعبوں میں کام کرنے کا کوئی چارہ نہیں رہتا اور وہ کسی بھی قائم مزدوری کو ترجیح دیتا ہے، جس میں بندھوا مزدوری بھی شامل ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود اس کا نفاذ زورآوری سے یا رسم و رواج کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ایک بار بندھوا مزدوری کا حصہ بننے والا معلومات کی کمی، مواقع کے فقدان، متبادل ملازمت ڈھونڈنے کے لیے وقت کی عدم دستیابی اور اس باہر نکلنے کے لیے بھاری اخراجات کا شکار ہوتا ہے۔[25][26]

بھارت میں بندھوا مزدوری کے تخمینوں کے مختلف اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جن کا انحصار سروے کے طریقوں، مفروضوں اور ذرائع پر پے۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے دعووں کے مطابق کچھ سو ہزار مزدور ہی بندھوا مزدوری میں پھنسے ہیں؛ جبکہ 1978ء کے تخمینے کے مطابق بھارت میں بندھوا مزدوروں کی تعداد 2.62 ملین تھی۔[27] 32 ویں نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے سروے کا تخمینہ یہ تھا کہ بھارت میں 343,000 بندھوا مزدور 16 اہم ریاستوں میں موجود ہیں، جن میں 285,379 کی شناخت کر کے 1996ء چھڑوا لیا گیا تھا۔[28] قرض گیرندے بندھوا مزدوروں کے لیے اہم ملازمت کے شعبوں میں زراعت، بتھر پھوڑنے کی صنعت، اینٹ کی بھٹیاں، منادر کی خدمت گزاری، مٹی کے برتنوں کی تیاری، دیہی بُنکری، مچھواری، جنگلات کی مصنوعات، پان اور پیڑی کے مزدور، قالین، غیر قانونی کانکنی اور آتشبازی جیسے چند اہم ہیں۔ بچوں کی مزدوری خاندانوں کے قرض لینے کی صورتوں میں عام ہے۔ ہر سروے میں قرض کا بندھواپن غیر منظم اور غیر اندراج شدہ شعبوں میں پایا گیا ہے۔[25]

بھارت نے بندھوا مزدوری تنسیخ قانون (1976ء) بنایا تاکہ ہر قسم کی بندھوا مزدوری کی عمل آوری روکی جاسکے، بندھوا مزدوروں کا تحفظ کیا جا سکے اور ان اشخاص اور اداروں کے قانونی چارہ جوئی کی جا سکے جو بندھوا مزدوروں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں، انھیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں یا بندھوا مزدوروں کے طلب گار ہو تے ہیں۔[25]

بچوں کی مزدوری

ترمیم

2001ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 12.6 ملین بچے 5–14 کی عمروں کے بیچ جزوقتی یا ہمہ وقتی طور پر کام پر لگے تھے۔ ان میں 60 فیصد غیر منطم زرعی شعبے تھے اور دیگر غیر منطم مزدوری کے بازار کا حصہ ہیں۔[29] غربت، اسکولوں کی عدم دستیابی، خستہ تعلیمی ڈھانچا اور غیر منظم معیشت میں پیش رفت بھارت میں بچوں کی مزدوری کے اہم وجوہ ہیں۔[30][31][32][33]

2009ء-2010ء کے ایک ملک گیر سروے سے پتہ چلا ہے کہ بچوں کی مزدوری کا رجحان گھٹ کر 4.98 بچوں پر سمٹ گیا تھا (یا 5-14 کی عمر کے بچوں کی 2 فی صد سے بھی کم آبادی)۔[34]

بھارت کے دستور کی دفعہ 24 بچوں کی مزدوری پر پابندی عائد کرتی ہے، مگر یہ صرف فیکٹریوں، کانوں اور خطرناک ملازمتوں کے لیے ہے۔ تعزیرات ہند، بچوں کی کم عمری کے جرائم کا نظام عدل قانون (دیکھ ریکھ اور تحفظ) 2002ء اور بچوں کی مزدوری (امتناع اور مسدودی) قانون 1986ء ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ بھارت میں بچوں کی مزدوری کی نشان دہی کی جائے، اس پر مقدمہ دائر ہو اور اسے روکا جائے۔[35] اس کے باوجود بچوں کی مزدوری تقریبًا ہر غیر منظم، چھوٹے پیمانے اور معیشت کے غیر رسمی شعبوں میں پایا جاتا ہے۔[36][37][38]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "India"۔ CIA, United States۔ 2012۔ 11 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2016 
  2. ^ ا ب
  3. Chandra Korgaokar، Geir Myrstad (1997)۔ "Protecting children in the world of work (see article on Child Labour in the Diamond Industry)"۔ International Labour Organization۔ صفحہ: 51–53۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2016 
  4. ^ ا ب "Economic abudget.nic.in/es2010-11/estat1.pdf" 
  5. M Swaminathan (1991)۔ "Understanding the informal sector: a survey" (PDF)۔ 15 جون 2010 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2016 
  6. S Chakrabarti۔ "Gender Dimensions of the Informal Sector and Informal Employment in India" (PDF)۔ صفحہ: 3 
  7. "Unorganized Labour" (PDF)۔ Ministry of Labour, Government of India۔ 2009 
  8. Nurul Amin (2002)۔ "The Informal Sector in Asia from the Decent Work Perspective" (PDF)۔ International Labour Office, Geneva۔ 03 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2016 
  9. Stephan Shankar Nath (2010)۔ Street Food Vendors in Delhi: Nomads in the storm of modernity (PDF)۔ University of Vienna 
  10. A. C. KULSHRESHTHA (May 2011)۔ "MEASURING THE UNORGANIZED SECTOR IN INDIA"۔ Review of Income and Wealth (Special Issue: The Informal Economy in Developing Countries: Analysis and Measurement)۔ 57 (Supplement s1): S123–S134۔ doi:10.1111/j.1475-4991.2011.00452.x 
  11. Sheila Bhalla (2003)۔ "The restructuring of unorganised sector in India" (PDF)۔ Planning Commission, Govt of India۔ 29 ستمبر 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2016 
  12. Kalpana Kochhar، Pradeep Mitra، Reema Nayar (June 2012)۔ "More jobs, better jobs"۔ Finance and Development۔ 49 (2) 
  13. Tripti Lahiri (April 2011)۔ "India Passes 1.2 Billion Mark"۔ The Wall Street Journal 
  14. 28m workers employed by 400k companies
  15. ^ ا ب پ P.R.N. Sinha (2004)۔ Industrial Relations, Trade Unions, and Labour Legislation۔ Pearson Education۔ صفحہ: 92–110۔ ISBN 9788177588132 
  16. Besley and Burgess (2004)۔ "Can Labor Regulation Hinder Economic Performance? Evidence from India"۔ The Quarterly Journal of Economics۔ 119 (1): 91–134۔ doi:10.1162/003355304772839533 
  17. Bhattacharjea, A. (2006)۔ "Labour market regulation and industrial performance in India: A critical review of the empirical evidence"۔ Indian Journal of Labour Economics۔ 39 (2) 
  18. Angrist and Pischke (2008)۔ Mostly Harmless Econometrics 
  19. Debashish Bhattacherjee (1999)۔ Organized labour and economic liberalisation India: Past, present and future۔ International Institute for Labour Studies, Geneva۔ ISBN 92-9014-613-3 
  20. Organised Labour Force Trend
  21. ^ ا ب "Asia/Middle East: Increase Protections for Migrant Workers"۔ 22 November 2010 
  22. Emily Wax (6 February 2010)۔ "Reverse exodus of migrant workers in Persian Gulf challenges India"۔ واشنگٹن پوسٹ۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016 
  23. "Domestic workers in India"۔ WIEGO۔ 2012۔ 26 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016 
  24. "Final Report of the Task Force On Domestic Workers" (PDF)۔ Ministry of Labour and Employment, Govt of India۔ 12 September 2011۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016 
  25. ^ ا ب پ Ravi S. Srivastava (2005)۔ "Bonded Labor in India: Its Incidence and Pattern"۔ Cornell University 
  26. G. Genicot (February 2002)۔ "Bonded labor and serfdom: a paradox of voluntary choice"۔ Journal of Development Economics۔ 67 (1): 101–127۔ doi:10.1016/S0304-3878(01)00179-1 
  27. Ravi S. Srivastava (2005)۔ "Bonded Labor in India: Its Incidence and Pattern"۔ Cornell University۔ صفحہ: 4 
  28. Ravi S. Srivastava (2005)۔ "Bonded Labor in India: Its Incidence and Pattern"۔ Cornell University۔ صفحہ: 4–7 
  29. "National Child Labour project"۔ Ministry of Labour and Employment, حکومت ہند۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2011 
  30. "Child labor - causes"۔ ILO, United Nations۔ 2008 
  31. "India Journal: The Basic Shortages that Plague Our Schools"۔ The Wall Street Journal۔ 3 January 2012 
  32. Mario Biggeri، Santosh Mehrotra (2007)۔ Asian Informal Workers: Global Risks, Local Protection۔ Routledge۔ ISBN 978-0-415-38275-5 
  33. Brown, D. K., Deardorff, A. V. and Stern, R. M.۔ Child Labor: Theory, Evidence, and Policy (Chapter 3, International Labor Standards: History, Theory, and Policy Options)۔ ISBN 9781405105552۔ doi:10.1002/9780470754818.ch3 
  34. Labour and Employment Statistics آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mospi.nic.in (Error: unknown archive URL) Ministry of Statistics and Programme Implementation, Govt of India (January 2014), page 2
  35. "National Legislation and Policies Against Child Labour in India"۔ International Labour Organization - an Agency of the United Nations, Geneva۔ 2011۔ 09 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2016 
  36. "Child Labour"۔ Labour.nic.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2012 
  37. http://labour.nic.in/cwl/ListHazardous.htm
  38. Neera Burra۔ "Child labour in rural areas with a special focus on migration, agriculture, mining and brick kilns" (PDF)۔ National Commission for Protection of Child Rights۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2009