بھارت نے اپنی تاریخ میں متعدد مرتبہ اس سرزمین پر پناہ لینے والے افراد کا سیل رواں دیکھا ہے جنھوں نے جنگ یا دیگر قدرتی آفات سے پریشان ہوکر بھارت کا رخ کیا اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ سنہ 1951ء کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط کرنے سے قبل ہی حکومت ہند نے تبت اور سری لنکا کے مہاجروں کو تسلیم کر لیا تھا۔ نیز تبتی مہاجروں کے لیے مفت تعلیم اور کچھ شناخت ناموں کے بندوبست بھی کیے، (1) سنہ 1980ء کی دہائی سے 2000ء کی دہائی تک سری لنکا سے آنے والے افراد کے لیے بھارت کے دو جنوبی صوبوں میں واقع حکومت کے زیر انتظام کیمپوں میں مقامی نظام تعلیم اور سکونتی سہولتیں مہیا کی گئیں۔(2) علاوہ ازیں سنہ 2019ء میں حکومت ہند نے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے غیر قانونی غیر مسلم مہاجروں کے لیے حصول شہریت کی شرط کو بارہ سال سے گھٹا کر چھ سال کر دیا ہے۔(3)

ایرانی پناہ گزین ترمیم

زرتشتی روایت (قصہ سنجان ملاحظہ فرمائیں) کے مطابق ساسانی سلطنت کی فتح اور بعد ازاں زرتشتی مذہب کے زوال کے چند صدیوں بعد رزتشتیوں کا ایک گروہ اپنی روایتوں کو باقی رکھنے کے لیے بھارتی صوبہ گجرات کی سرزمین پر وارد ہوا۔و4و تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی آمد کے پس پشت مذہبی جبر سے زیادہ معاشی محرک کارفرما تھا، کیوں کہ اسی عہد میں شاہراہ ریشم کی تجارت بند ہوکر سمندری راستوں سے شروع ہوئی تھی۔

مورخین کا خیال ہے کہ بارہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی کے درمیان زرتشتیوں کے متفرق گروہوں نے ہندوستان کا رخ کیا۔ خصوصاً مغل حکمران جلال الدین اکبر نے یہاں ایرانی فنکاروں کی آبادکاری کی خاصی حوصلہ افزائی کی۔ معاشی و مذہبی محرکات کی بنا پر زرتشتیوں کی نقل مکانی کی دوسری لہر قاجار خاندان کے عہد حکومت (1794ء – 1925ء) میں نظر آتی ہے جب غیر مسلم باشندوں پر مظالم روز افزوں تھے۔ چنانچہ ہندوستان میں آباد زرتشتیوں نے اپنے ہم مذہب ایرانیوں کی مدد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کیے۔ اس عہد کے مہاجروں کی نسل ایرانی کہلاتی ہے۔

تقسیم ہند، 1947ء ترمیم

تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں سے بڑی تعداد میں انسانی آبادی نے نقل مکانی کی۔ ہندوستان میں آباد مسلمانوں کی کثیر تعداد پاکستان منتقل ہوئی اور وہاں آباد غیر مسلمان افراد ہندوستان میں آباد ہوئے۔ اس دوران میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد نے اس امید میں اپنے وطن سے نقل مکانی کی کہ جہاں وہ جا رہے ہیں وہاں ان کے ہم مذہب بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وہاں وہ نسبتاً محفوظ ہوں گے۔ 1951ء میں ان مہاجروں کی مردم شماری کی گئی تو معلوم ہوا کہ تقسیم کے بعد ستر لاکھ سے زائد مسلمان پاکستان منتقل ہوئے جبکہ تقریباً اتنے ہی ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستان سے بھارت ہجرت کی۔ تقریباً ایک کروڑ بارہ لاکھ یا اٹھتر فیصد آبادی مغرب کی جانب منتقل ہوئی۔ تریپن لاکھ مسلمان ہندوستان سے پاکستان کے مغربی پنجاب گئے جبکہ چونتیس لاکھ ہندوؤں اور سکھوں نے بھارت کے مشرقی پنجاب میں پناہ لی۔ اسی طرح مشرقی بنگال سے پینتیس لاکھ ہندو بھارت منتقل ہوئے اور تقریبا سات لاکھ مسلمان بھارت سے بنگلہ دیش گئے۔

تبتی مہاجرین ترمیم

گذشتہ ساٹھ برسوں میں چودھویں دلائی لاما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تبتی باشندوں نے بھارت کی سرزمین پر سکونت اختیار کی ہے۔ سنہ 1959ء کی ناکام بغاوت کے بعد مذکورہ دلائی لاما نے اپنے مصاحبین کے ہمراہ تبت کو خیرباد کہا تھا۔ چنانچہ ان کی پیروی میں تقریباً اسی ہزار تبتی باشندوں نے بھی نقل مکانی کر لی۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ان تبتی پناہ گزینوں کو مکمل امداد فراہم کرنے اور سرزمین ہند پر آباد کرنے کا اعلان کیا۔ اِس وقت ایک لاکھ بیس ہزار تبتی پناہ گزین بھارت میں موجود ہیں۔ ان پناہ گزینوں نے ہماچل پردیش میں اپنی ایک جلاوطن حکومت بھی قائم رکھی ہے جو بھارت میں تبتیوں کے لیے سیاسی سرگرمیوں کو منضبط کرتی ہے۔ اس جلاوطن حکومت کا مرکز دھرم شالہ کے مضافات میں واقع مکلوڈ گنج میں قائم ہے۔

حوالہ جات ترمیم