رقص عربی
یہ ایک یتیم صفحہ ہے جسے دیگر صفحات سے ربط نہیں مل پارہا ہے۔ براہ کرم مقالات میں اس کا ربط داخل کرنے میں معاونت کریں۔ |
رَقصِعَرَبی یا رَقصِشِکَم یا بیلی ڈانس (عربی: رقصشرقي / رقصبلدي، انگریزی: Belly dance، فارسی: رقصعربی / رقصشکم، فرانسیسی: danse du ventre؛ یونانی: τσιφτετέλι) مشرق وسطی میں رائج رقص کی ایک قسم جس میں رقاصہ ساز کی تھاپ پر اپنے پیٹ، کولہوں، پستان اور دیگر اعضا کی تھرتھراہٹ کے ساتھ خاص قسم کا آہنگ پیدا کرتی ہے۔ مشرق وسطی کے علاوہ مغربی ممالک اور ہندوستان میں بھی مساوی مقبولیت رکھنے والے اس رقص کا مظاہرہ خطے اور ثقافت کی تبدیلی کے ساتھ مختلف انداز اور لباس میں کیا جاتا ہے۔
ابتدا
ترمیمرقص کی اس صنف کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا قدیم ہندوستانی راجاؤں کے درباروں میں ہوئی تھی۔ قدیم ایران میں ساسانی عہد حکومت میں خسرو پرویز کے دربار میں اس صنف رقص میں کمال رکھنے والے افراد پائے جاتے تھے۔ اس ناچ کی موجودہ شکل دریائے دجلہ کے کنارے آباد بابل کے باسیوں کی وضع کردہ ہے۔ یورپ میں یہ فن اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی رومانوی تحریک کے دوران میں ایک خاص قسم کے مشرقی فنی مزاج کے آنے سے وارد ہوا۔ یورپ میں اس کی آمد ترک عثمانیوں کے راستے سے ہوئی۔ وکٹوریہ کے دور میں یورپ میں خاص طور پر اس ناچ کے میلوں کا اہتمام ہوا۔ نپولین کے دور میں اس ناچ کے مصری انداز کا فرانس میں نفوذ عمل میں آيا اور فرانس میں اسے نہایت پزیرائی حاصل ہوئی۔ اس رقص میں انداز اور اطوار کے اسی تنوع اور رنگارنگی کی وجہ سے اسے عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
ملبوس
ترمیممغرب میں اس رقص کا ملبوس عثمانی عہد کے حرم کا خاص عربی طرز کا ملبوس بدلہ (جوڑا) معمولی فنکارانہ رد و بدل کے ساتھ رائج ہے۔ بِدلہ خاص جھانجھروں، سکوں اور گھنگروؤں پر مشتمل کناریوں والے چھاتی پوش اور کمر پوش کا ایک جوڑا ہوتا ہے۔ پیٹ کے ارتعاش کو واضح دکھانے کے لیے چھاتی پوش مختصر ہوتا ہے اور پیٹ کو برہنہ رکھا جاتا ہے، جبکہ کمر پوش مخصوص گھاگرے کی شکل کا ہوتا ہے جس میں عموما کولہوں کو دونوں اطراف سے برہنہ رکھا جاتا ہے تاکہ سرینوں کی تھرتھراہٹ کو واضح محسوس کیا جا سکے۔ کلاسیکی عثمانی حرم کے طرز کا جامہ پیروں تک ہوتا ہے لیکن اس کو مختصر یا لامبا کیا جا سکتا ہے، جبکہ چھاتی پوش اس سے الگ رکھا جاتا ہے تاہم ان دونوں کو ایک جوڑے کے طور پر بھی وضع کیا جاتا ہے۔ کمر پوش اور چھاتی پوش کے لیے باہم ملتے جلتے اور بھڑکیلے رنگ منتخب کیے جاتے ہیں۔
مصر میں 1950ء سے مختصر لباس میں اس رقص پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے وہاں ایک لامبے لیکن چست چغے میں یہ رقص کیا جاتا ہے۔ مصر میں حسب روایت یہ رقص ننگے پاؤں ہی کیا جاتا ہے لیکن اب شوخ جوتوں یہاں تک کہ ایڑی والے جوتوں کے ساتھ بھی کیا جانے لگا ہے۔ لبنان میں پیٹ کی نمائش پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے “بدلہ“ طرز کا ملبوس رائج ہے اور پیروں میں جدید طرز کے جوتے پہنے جاتے ہیں۔ لبنان میں بدلہ کے ساتھ ساتھ عبایہ میں بھی اس رقص کا رواج ہے۔ جدید ترکی میں ٹانگوں کی حرکات کے کولہوں سے لے کر پنڈلیوں اور ایڑی تک واضح مظاہرے کی غرض سے لہریہ پٹی دار گھاگرا پہنا جاتا ہے۔ اس لباس میں شوخ چنچل پن اور بھونڈا پن دوسرے مروجہ لباسوں کی نسبت زیادہ ہے۔ امریکا میں اس رقص کے ملبوس عموماً ترکی اور مصر سے ہی منگوائے جاتے ہیں تاہم وہاں پر عثمانی طرز کے حرم جامے نہایت مقبول ہیں جن پر سنہری دھاتوں کے گول سکے، گھنگرو اور طلائی دھاگے کا کام رائج ہے۔
کھلونے
ترمیمشائقین کی توجہ کو بڑھانے کے لیے فنکار مختلف قسم کے اوزار/ ہتھیار/ کھلونوں کے ساتھ رقص کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس سے رقص کے پینتروں میں تنوع کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ ذیل میں ایسی کچھ اشیا کے نام دیے گئے ہیں جنہیں فنکار اس ناچ میں استعمال کرتے ہیں:
- ہاتھ کی جھانجھ
- چھڑی
- چہرے کا نقاب
- تلوار
- شمعدان یا کینڈلابرا (جلتی موم بتیوں کا تاج)
- وِیل پوئی یا دبیز لہراتا آنچل (زیادہ تر قبائلی پیٹ ناچ میں استعمال ہوتا ہے)
- آگ کی چھڑی
- کھنجڑا
- پنکھا
- زندہ سانپ
- فَین ویلز (پنکھے اور دبیز لہریہ آنچل پر مشتمل)
تکنیک اور اقدام
ترمیماس رقص کی حرکات و سکنات میں بدن کے تمام اعضا کو جداگانہ لیکن ہم آہنگ حرکت میں لایا جاتا ہے۔ لیکن اعضا میں حرکت بیرونی جلد کی بجائے عضو کے اندرونی پٹھوں کی ماہرانہ حرکات سے عمل میں لائی جاتی ہے۔ مصری اور لبنانی رقاصائیں خاص طور پر سرینوں کے پٹھوں کی حرکت پر رقص کو مرکوز رکھتی ہیں۔ اگرچہ اس رقص کے مختلف حصوں کی بابت نہایت پیچیدہ اصطلاحات رائج ہیں تاہم ناظرین کی نگاہ میں اس رقص کے کچھ سادہ عناصر یہ ہیں۔
کولہے تھرکانا
ترمیمیہ کولہے اور سرینوں کو خاص انداز میں ارتعاش دینے کا عمل ہے۔ اس میں پیروں کی نہایت تیز لیکن ہم آہنگ تتکار کے ذریعے رانوں اور سرینوں میں جاذب تھرتھراہٹ پیدا کی جاتی ہے۔ کولہوں اور رانوں کی تھرتھراہٹ نیچے اور اوپر ارتعاش کے علاوہ دونوں اطراف کی جانب بھی کی جاتی ہے۔ اس عمل کو شمی کہتے ہیں۔ شانوں کی شمی سے مراد کاندھوں اور پستانوں میں ارتعاش پیدا کرنا ہے۔
سرینیں لہرانا
ترمیمسرینیں لہرانے کو انگریزی میں Staccato یا Hip hits کہتے ہیں۔ اس عمل میں سرینی پٹھے کو حرکت دے کر سرین کے دونوں پاٹوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے لہرایا جاتا ہے۔ اس میں رقاصہ کے تن کا بوجھ دونوں پیروں پر بھی ایستادہ کر کے لہر پیدا کی جاتی ہے اور ایک پیر پر بوجھ ڈال کر دوسری ٹانگ کی حرکت کے ذریعے بھی یہ عمل دوہرایا جاتا ہے۔ اس میں متحرک پیر کی نوک زمین کی طرف رکھی جاتی ہے۔
دائروی لہریا
ترمیمسرینوں اور پستانوں کو دائرے میں رواں لہر دی جاتی ہے۔ یہ دائروی لہر دائیں سے بائیں اور آگے سے پیچھے، ہر دو اطراف میں کی جا سکتی ہے۔ اس میں زیادہ تر پیٹ کے پٹھے کی قوت صرف کی جاتی ہے۔ اس عمل کو یوں سر انجام دیا جاتا ہے کہ اس سے اونٹ کی سواری کا تاثر پیدا ہو۔
مصری انداز
ترمیممصر میں روایتی بیلی ڈانس کے تین انداز مقبول ہیں، شعبی، بلدی اور شرقی انداز۔ ان کا عام طور پر میخانوں میں مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بلدی یعنی لوک انداز بالائی مصر کے مختلف قبائل کا مقبول رقص ہے۔ شہروں میں بسنے والے محنت کش افراد اس کا محفلوں میں مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس رقص کے مظاہرے میں غواھزی قبائل ایک منفرد اور معروف شناخت رکھتے ہیں۔ عوامی محافل میں لوک رقص کے مظاہرے کے متنازعے ہونے کے مسئلے پر غواھزی قبائل مزاحمت کا ایک اہم حوالہ ہیں۔ غواھزی رقص میں مازن خواہران (مازین سسٹرز) ایک نہایت اہم نام ہیں۔ ان میں سے خیریہ مازن تمام تر مشکلات کے باوجود 2009ء سے لوک رقص کی مصر میں تربیت دے رہی ہیں۔
شرقی انداز اکیلے فنکار کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر مے خانوں میں دکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موسیقی کی کوریوگرافی کے لیے بھی زیادہ مقبول رقص یہی ہے۔
ترکی کا انداز
ترمیمبعض لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی کا "شفتِِ تلی" (Çiftetelli) رقص عربی کی ترک شکل ہے۔ لیکن شفت تلی ترکی میں شادی بیاہ کا مقامی رقص ہے۔ جو عثمانی عہد میں عرب رقص سے متاثر ہوا اور ساتھ میں مشرق وسطیٰ سے قریبی ثقافتی روابط کی وجہ سے شامی یا لبنانی طریقوں سے استفادہ کی وجہ سے اسے مشرقی رقص سمجھا جانے لگا۔
ترکی میں رقص کو سرکاری طور پر کچھ خاص پابندیوں کا سامنا نہیں ہے تاہم مصر میں پابندی ہے کہ رقاصہ اپنے پستان اور ملحق گوشے محجوب رکھے، اس لیے مصر اور ترکی کے انداز اپنی اپنی جداگانہ شناخت بنا چکے ہیں۔ مصری انداز میں تاثرات اور دوسری کئی نفاستوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ ترک انداز اپنے شوخ اور چلبلے پن کی وجہ سے مشہور ہے۔ جس میں گلیمر نسبتا زیادہ ہے اور بدنی کرتب جمناسٹک سے مشابہہ ہوتے ہیں۔ تاہم ترکی بیلی ڈانس کو دو حصوں میں بانٹا جاتا ہے، ترک رومانی انداز اور ترک شرقی انداز۔ یہ دونوں انداز اپنی اپنی جداگانہ امتیازی خاصیتیں رکھتے ہیں۔
ترکی کی مشہور رقاصاؤں میں تولے قاراچہ، نسرین توپ قاپی، بیرگل بیرائی اور دیدم کے نام نہایت قابل ذکر ہیں۔