تاریخ اعوان
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے پانچ بیٹوں سے آپ کا سلسلہٴ نسل جاری رہا۔ اور وہ پانچ یہ ہیں: حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ ،حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ ۔ (البدایہ والنہایہ: 11/ 25تا 27اور تاریخ اسلام: شاہ معین الدین ندوی، ص: 328)۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سادات کہلائے، یہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی اولاد بھی کہلاتے ہیں
حضرت محمد بن علی (الحنفیہ) ، عباس بن علی (کلابیہ)، حضرت عمر الاطراف کی اولاد علوی کہلاتی ہے ،یوں علوی محمدی علی عباسی علوی اور عمری علوی تین طرح کے ہوئے، حضرت عمر الاطراف اور محمد الاکبر الحنفیہ علیہ السلام کی اولاد ہند وارد ھوئی جبکہ حضرت عباس علمدار ع کی اولادیں ہندوستان وارد نہیں ہوئیں محمّد الاکبر المعروف محمّد الحنفیہ کی اولاد ہند میں قطب شاہی علوی اعوان کہلاتی ہے جبکہ عمرالاطرف کی اولاد علوی ہی معروف ہے اور ملک کا لقب استعمال کرتی ہے
اعوان کی اقسام
ترمیماعوان کی کوئی دوسری قسم نہیں سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام کی نسبت سے علوی اور قطب شاہ رح کی نسبت سے قطب شاہی کہلاتے ہیں اعوان کا لقب نسبی بھی ہے اور خطابہ بھی نسبی اس لیے کے یہ سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام کے پڑپوتے عون کی اولاد ہیں عون کی جمع اعوان ہے اور خطابہ اس لیے کہ محمود غزنوی کے ساتھ جہاد ہند میں شامل ھوئے اور اعوان یعنی مددگار کا لقب سلطان نے عطا کیا ۔ کچھ لوگ غازی عباس کی اولاد کو بھی اعوان خیال کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں سراج الانساب کے مولف نے غازی عباس کی اولاد کے ورود کا خراسان و عجم میں انکار کیا ہے اور نجم الحسن کراروی نے اپنی کتاب ذکر العباس میں بھی اعوان کا انتساب رد کیا ہے۔ دیکھیں: سراج الانساب اور ذکرالعباس
اس بات پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ عون کی وجہ سے یہ قبیلہ اعوان کہلاتا ہے۔ عون کی جمع اعوان ہے
عباسی اعوان(تحقیق طلب)
ترمیمیہ غازی عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں
حضرت عون العروف قطب شاہ قادری کی ولادت کا ذکر موجودہ دور کے مورخین بغداد شریف میں کرتے ہیں۔آپ کا نام نامی علی بن علی المعروف’’عون‘‘ کنیت سامی ،، ابو عبد اللہ بتاتے ہیں اس کے علاوہ بھی کئی القابات ھونا بیان کرتے ہیں لیکن سب سے زیادہ معروف نام قطب شاہ بتاتے ہیں۔آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ تھیں جو حضورسیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ کی سگی بہن تھیں۔آپ ہرات کے راستے بغداد شریف سے ہندوستان آئے اور پنجاب کے اہل ہنود سے کافی عرصہ مصروف جہاد رہے ۔ مستند تاریخ میں حوالہ جات موجود نہیں اور نسابہ سے بھی تصدیق نہیں ھوتی ۔
حضرت عباس علمدار علیہ السلام کی اولاد میں عون نام کی کوئی شخصیت نہیں گذری۔البتہ عون بن یعلی گیلانی رح نام کی ایک شخصیت گذری ہے جو فاطمی سید تھے اور شیخ عبد القادر گیلانی رح خواہر زادے تھے وہ 1090 سے 1099 کے درمیان شمال اور شمال مغربی موجودہ پاکستان کے علاقوں میں تبلیغ کی غرض سے تشریف لائے اور واپس خراسان تشریف لے گئے اور وفات پائی۔اس کا ذکر ڈاکٹر اے ایچ دانی نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے آپ یہ بھی بتاتے ہیں کہ قطب شاہ جو اعوان قبیلہ کے مورث اعلی ہیں وہ الگ شخصیت ہیں ۔
یہ محمد الاکبر المعروف محمد الحنفیہ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں یہ دعوی قطعی طور پر غلط ہے۔۔کہ قطب شاہی علوی اعوان غازی عباس علمدار علیہ السلام کی اولاد ہیں عرب اس کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر اعوان حضرت محمد الاکبر الحنفیہ کی اولاد نہیں ہیں تو پھر یہ کون ہیں کیونکہ سراج الانساب میں درج ہے کہ غازی عباس کی اولاد خراسان اور عجم میں نہیں ہے۔البتہ ایک مخصوص ٹولہ نور الدین پٹھان سلیمانی کی گھڑی ھوئی داستان اعوان تاریخ پر تھوپنا چاہتے ہیں اور ایک فرضی عون قطب شاہ جو باب الاعوان کے مصنف نور الدین نے گھڑا اور اسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا خلیفہ خاص بیان کیا اسے اعوانوں کا مورث اعلیٰ بنانا چاہتے ہیں۔جبکہ عون نامی کوئی شخصیت کوئی شخصیت نہ تو شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہ مریدین میں درج ہے نہ ان کے خلفا میں درج ہے اور نہ ہی شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کسی عون نامی شخصیت کو قطب الہند بنا کر ہند بھیجا۔یہ ایک افسانہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ے اعوان قبیلے کے ڈانڈے باب الاعوان اور زاد الاعوانمیں فرض کر لیے گئے فرضی قطب الہند سے ملا کر جو کسی بھی حقیقی تاریخ مین وجود نہیں رکھتے قبیلے سے نا آ شنا ٹولہ نے اس کردار کو پرکشش اور دلفریب جھوٹے فخر اور مہمل دعوؤں کا مدعی بنا دیا ۔۔ ایسے دعوے جو کسی صورت تاریخ سے ثابت نہیں ھوسکتے۔۔ آ خر لوگ بھی جو ان کی اپنے قطب الہند کی افسانوی تحریرین پڑھتے ھین اور دھڑا دھڑ شجرے تیار کر رہے ہیں انھیں آخرت کا خوف نہیں ۔ انہی مہمل دعوون کے سلسلے مین انھوں نے کہا ، ، علمی بے خبری کی حد ہے کہ باب الاعوان کے مقلدین کو ابھی تک یہ خبر بھی نہیں کہ اس کی اساطیری داستان بر صغیر کی جامعات مین شعبہ ھاے تاریخ کے اساتذہ اور محقیقین 1920---30 کے عشرے مین رد کرچکے ھین لیکن یہ یاران خوش خیال مریضانہ فخر اور نرگسیت کے ھاتھون مجبور انہی مہمل دعوون سے لپٹے ھوے ھین اور اعوان قبیلے کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے صاحبان علم ۔۔۔۔ فقیر نے اندرون ھند ،عہد جہانگیری مین مرات مسعودی مین بیان کیے گئے سبکتگین کے داماد اور نائب سلطنت غزنہ سالار ساھو ، دختر ستر معلی ۔۔اور مبینہ نواسے سالار مسعود غازی ۔۔۔۔نیز تاریخ امجدی مین مدھیہ پردیش ،برار مین آ سودہ خاک ایک اور مبینہ داماد شاہ دولہ مان اور مابعد کی تمام تواریخ مین تلاش کیا مگر ان کا ذکر تک نہ ملا۔۔۔۔۔ جب کہ باب الاعوان اور اس کے خوش خیال مقلدین کے نزدیک تمام روحانی شخصیات کا سہرا ہی ان کے سر ہے اسی طرح قادریہ سلسلہ پر تحقیق کیے بغیر اور باب الاعوان کی من گھڑت کہانی پر یقین کر بیٹھے اور اعوانوں کی تاریخ کو ایک مذاق بنا دیا ۔۔۔۔۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے خاندان اور خلفا میں زبردستی فرضی کردار کو شامل کیا گیا جس کا اس دور کی کسی کتاب تاریخ میں ذکر تک نہیں ۔۔۔ اس کے علاؤہ فرضی کتب میزان قطبی اور میزان ہاشمی کا فرضی حوالہ دے کر ٹانکہ پنکچر شجرہ تیار کیا گیا جس میں جعفر کو حمزہ اکبر کا فرزند لکھا گیا جبکہ ان کا جعفر نام کا کوئی فرزند نہیں گذرا ۔
اسی طرح خلاصۃ الانساب نامی کتاب کو علامہ حلی سے منسوب کر کے اپنی من گھڑت تحقیق کو تقویت دینے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔۔۔
جن اور تاریخ داستانین مرتب ھوئین۔۔۔ مگر بد قسمتی سے ان کے مقلدین کے دماغ پر یہ دلفریب داستانین کچھ اس طرح مسلط ھین کہ وہ انہین سچ ثابت کرنے کے لیے علمی تحریف و تخریب سے کام لے کر مستندتاریخی حقائق کا انکار کرتے ھین ۔ ممکن ہے ان کی تحریرین مناظرہ پسند نقد و جرح سے نا آ شنا حضرات کے لیے تو دل چسپی کا باعث ھون مگر تاریخ اور تحقیق کے میدان مین ان کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔ تعجب ہے ان حضرات نے تاریخ جہاد الرحمان ،،اور مرات مسعودی کی داستانون کا تاریخ غزنوی یا ان مقالہ جات سے استفادہ کرکے کَہی جائزہ نہیں لیا جنہین جامعات کے ثقہ محققین اور شعبہ تاریخ کے اساتذہ نے طویل تحقیقات کی روشنی ر ذمہ داری عائد ھوتی ہے کہ وہ بغیر ثقہ اور تاریخی حوالہ جات کے مزید ایسی داستانین مرتب نہ کرین کہ جن کے غلط ھونے کے سبب آ نے والی کئی صدیاں ان سے پیدا ھونے والے اثرات کو ختم کرنے مین لگ جا ئین اولین کتب منابع غزنویان--- تاریخ 2۔ تاریخ بیھقی ابو الفضل بیھقی 3۔زین الا اخبار عبد الحئ بن ضحاک گردیزی 4- معجمل التواریخ والقصص 520ھ 5۔طبقات ناصری منھاج الدین سراج جوزجانی 6۔الکامل فی التاریخ ابن اثیر 7۔تاریخ ھاے سلسلہ سلجوقیان 8۔تاریخ سیستان 9۔سیر الملوک نظام الدین طوسی 10۔چہار مقالہ۔ نظامی عروضی سمرقندی 11۔معجم الادباء یاقوت حموی 12۔ یتیمۃ الدھر فی محاس اھل االوزراء سیف الدین حاجی بن نظام عقیلی اس مین غزنوی وزرا و امرا کا تذکرہ ہے ہم عصر وقاع نگار 14۔ الاانساب سمعانی تذکرہ ھاے رجال دینی مولفء علاوہ بر شرح حال ونسب برخی از فرماں روایان گذشتہ از جملہ روز گار غزنویان در کتاب ضبط کردہ است مگر کچھ نرگسیت مزاج جھوٹھے فخر مہمل دعووں کے مریض محض اپنے دماغ پر مسلط رطب ویابس کو من پسند تاریخ سازی کے مواد کے طور اگے منتقل کرتے رھتے ھین ان سے استدعا ہے کہ دلیل کا جواب دلیل اور تاریخی حوالہ کا جواب تاریخ سے دین ،،، اب تحقیق اس نہج پر جا پہنچی ہے کہ اس گروہ کے مقبول فقرے ،،،گمان غالب ،،،ایسا ممکن ، ،وغیرہ ست کام نہیں چلے گا
دوسری صدی ہجری عون عرف قطب غازی(قطب شاہ اول) لقب بطل غازی فرضی کردار بن علی عبد المنان کردار بن حضرت محمد الاکبر المعروف محمد حنفیہ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد علوی اور بنی عون کہلاتی تھی(بحوالہ نسب قریش عربی 200ھ و المنتخب فی نسب قریش وخیارالعرب عربی 656 ھجری و منبع الانساب فارسی 830 ھ). بنی عون ،آل عون وعون آل سے مراد قطب شاھی علوی اعوان قبیلہ ہے۔ عون علی یحییٰ بن زید بن امام زین العابدین بن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 125ھ کوفہ سے ہرات، خراسان و غزنی ھجرت کر گئے تھے۔عون بن علی اور زیدبن علی تبریز کی پہاڑی پر ھونا درج ہیں نیز عون عرف قطب غازی کی قبر غزنی وہرات بھی روایت کی جاتی ہے جو درست نہیں ہے۔ عون بن علی کی اولاد عرب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت سے علوی، عون کی وجہ سے بنی عون اور عون کے عرف قطب غازی کی کی نسبت سے قطب ش
منبع الانساب ،مرات مسعودی فارسی وتاریخ حیدری کے مطابق قطب حیدرعلوی بن عطا اللہ غازی بن طاہر غازی بن طیب غازی بن محمد غازی بن شاہ علی غازی بن محمد اسھل(آصف) نے سلطان محمود غزنوی کے ھمراہ جہادھند میں حصہ لیا اب کے علاوہ ان کے بھائیوں میں سالار شاھوغازی و سالار سیف الدین غازی اور بھتیجے سالار مسعود غازی شہید 424 نے بھی جہاد ھند میں عظیم کارہائے نمایاں سر انجام دئے
(بحوالہ نسب قریش عربی 200ھ ،تہذیب الانساب عربی 449 ھجری ،المعقبون عربی 277ھ ،منتقلہ الطالبیہ عربی 471ھجری ،لباب الانساب عربی 565 ھ ،المنتخب فی نسب قریش وخیارالعرب عربی 656
ہجری ،بحرالانساب عربی 900ھ ،منبع الانساب فارسی 830 ھ ،مرات مسعودی فارسی 1037 ھ ،مرات الاسرار فارسی 1065ھ ،تاریخ علوی 1896ء، تاریخ حیدری 1911ء ،تاریخ الاعوان ،تذکرہ الاعوان، تحقیق الاعوان ،تاریخ علوی اعوان ،نسب الصالحین، تحقیق الانساب جلد اول ودوم ،اعوان اور اعوان گوتیں، حقیقت الاعوان ،تاریخ قطب شاھی علوی اعوان ،مختصر تاریخ علوی اعوان مع ڈائریکٹری ، تاریخ خلاصتہ الاعوان ،آئینہ اعوان ، اعوان شخصیات ھزارہ اور حضرت بابا سجاول علوی قادری تاریخ کے آئینے میں، اعوان انسائیکلوپیڈیا
اعوان جینیاتی تھیوری
ترمیمایڈتھ کوون یونیورسٹی، آسٹریلیا کے سینٹر فار ہیومن جینیٹکس، آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی، پاکستان اور انسٹی ٹیوٹ آف جنرل جینیٹکس آف رشین اکیڈمی آف سائنس، روس نے اعوان اور اس کے ہزارہ ڈویژن میں قریبی قبائل یعنی کھٹر اور راجپوت پر مختلف جینیاتی مطالعات کیے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اعوان جینیاتی طور پر الگ تھلگ، endogamous اور اپنے ہمسایہ قبائل سے بہت مختلف ہیں۔
ہزارہ یونیورسٹی، پاکستان کے شعبہ جینیات، یونیورسٹی آف الاسکا فیئر بینکس، یو ایس اے کے شعبہ بشریات اور ہزارہ یونیورسٹی، پاکستان کے سینٹر فار ہیومن جینیٹکس نے مختلف مطالعات کا انعقاد کیا جس میں ایم ٹی ڈی این اے سے ہائپر ویری ایبل سیگمنٹ I (HVSI) کا تجزیہ کیا گیا تاکہ جینیاتی نسب کو قائم کیا جا سکے۔ شمالی پاکستان میں رہنے والی آبادی۔ 16191-16193 کی پوزیشن پر تھری سائٹوسین ڈیلیٹیشن (CCC) اعوان نسل کی آبادی میں واضح طور پر دیکھی گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اعوانوں کا جینیاتی طور پر سیدوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس طرح ان کا تعلق عرب ہے۔
یہ خاکہ سات مختلف پاکستانی نسلی گروہوں کے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے درمیان وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ HVSI ترتیب کی بنیاد پر مختلف قبائل کا تعلق، کیمبرج حوالہ ترتیب کی بنیاد پر۔
[1]پی ڈی ایف رپورٹ
زمرہ اعوان
ترمیممآخذات
ترمیم- کتاب نسب قریش عربی تالیف لابی عبد اللہ المصعب بن عبد اللہ بن المصعب الزبیری (236-156ہجری) صفحہ77،
- تہذیب الانساب ونہایۃ الاعقاب عربی تالیف ابی الحسن محمدبنی ابی جعفر(449ہجری) صفحات273-274،
- منتقلۃ الطالبیہ عربی تالیف الشریف النسابہ ابی اسماعیل ابراہیم بن ناصرابن طباطبا(471ہجری)صفحات 303،331،352،
- مہاجران آل ابی طالب فارسی تالیف الشریف النسابہ ابی اسماعیل ابراہیم بن ناصرابن طباطبا(471ہجری)صفحات 246،255،332،
- لباب الانساب والالقاب والاعقاب عربی (565ہجری) تالیف ابی الحسن بن ابی القاسم صفحہ 727،
- منبع الانساب فارسی تالیف السیدمعین الحق جھونسوی (830ہجری) صفحات103-104،
- مرات مسعودی فارسی تالیف عبد الرحمن چشتی (1014ہجری تا1037)ص 7،
- مرات الاسرار فارسی تالیف عبد الرحمن چشتی (1045-1065ہجری) ص142،
- تاریخ بحرالجمان تالیف سیدمحبوب شاہ داتا (1332ہجری)،
- تحقیق الاعوان تالیف ایم خواص خان گولڑہ اعوان (1966) ص 156،
- تاریخ الاعوان تالیف ملک شیرمحمداعوان آف کالاباغ،
- تذکرۃ الاعوان تالیف ملک شیرمحمداعوان آف کالاباغ ،
- تاریخ علوی اعوان تالیف محبت حسین اعوان ایڈیشن 1999ص 347و752،
- حقیقت الاعوان تالیف صوبیدارمحمدرفیق اعوان چکوال،
- تحقیق الانساب جلداول تالیف محمدکریم خان اعوان،
- تحقیق الانساب جلد دوم ص 224،
- تاریخ قطب شاہی علوی اعوان تالیف محمدکریم خان اعوان سنگولہ راولاکوٹ آزادکشمیروملک مشتاق الہی اعوان مردوآل وادی سون سکیسر ص 6،
- مختصرتاریخ علوی اعوان معہ ڈائریکٹری ص 4
- ،144) Glossery of Tribe vol.2, page 26,
- The Punjab Chiefs Revised Edition by W.L.Conran & H.D.Craik vol.-2,page 292,
- Punjab Cast by Sir Denzil Ibbetson ch-iv,page 389
- اعوان قبیلہ تعارف یوسف جبریل
- حقیقت الاعوان جلد اول صوبیدار(ر) محمد رفیق علوی ص2
- [1]