رشید حسرتؔ

تعارف ترمیم

[[رشید حسرتؔ ۱۶ جون ۱۹۶۲ کو مِٹھڑی (ضلع کچھّی) بلوچستان میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں تھے جب سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۸۱ میں ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ آئے تو باقاعدہ ان کا کلام مقامی اور قومی سطح کے اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگا۔ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز میں بھی حصّہ لیتے رہے۔ مقامی، صوبائی، قومی اور پاک و ہند سطح کے مشاعرے پڑھتے رہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور سیکریٹریٹ کی ملازمت ترک کر کے اردو ادب کے استاد کے طور فرائض انجام دینے لگے۔ بہت نرم دل، شریف النفس اور انتہائی سادہ مزاج انسان ہیں۔ آج کل ایک مقامی کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور خدمات انجام دے رہے ہیں اور صدرِ شعبۂِ اردو ہیں۔]]

معلومات شخصیت ترمیم

[[پیدائش ۱۶ جون ۱۹۶۳ مِٹھڑی، ضلع کچّھی بلوچستان شہریت پاکستان رہائش کوئٹہ، بلوچستان

عملی زندگی ترمیم

مادر علمی بلوچستان یونیورسٹی تعلیم ایم اے (اردو) ملازمت محکمہ تعلیم پیشہ شاعری پیشہ ورانہ زبان اردو شعبۂِ عمل حمد،نعت،غزل،نظم،مثنوی شعری مجموعے سُوکھے پتوں پہ قدم، اپسرا ادا کی بات

نمونۂِ کلام ترمیم

 [[وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں

تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں 

سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں یِه میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں

یتِیم پالتی ہے بہن کِس مُشقّت سے ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں

وه در فرار کے مُجھ پر کُھلے تو رکھتا ھے  وه زُلف قید سے لیکِن رِہائی دیتا نہیں

زمیندار نے دہقاں کی پگ اُچھالی آج که فصل کاٹتا تو ہے بٹائی دیتا نہیں

میں اپنے نام کی اِس میں لکِیر کھینچ نہ لُوں وُه میرے ہاتھ میں دستِ حِنائی دیتا نہیں

نہ ہوتی حُسن کی توصِیف گر اُسےؔ مقصُود تو شاہکارؔ کو اِتنی صفائی دیتا نہیں

کسک جو دِل میں ہے بخشی ہُوئی اُسیؔ کی ہے مقامِ عِشق تلک جو رسائی دیتا نہیں

رشِیدؔ پیڑ کے ساۓ سے سُکھ کی تھی اُمید یہ کیا کِہ بیٹا بھی گھر میں کمائی دیتا نہیں۔


شِکستہ دِل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر صنم مِل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر

غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی وفا کرنے پہ بھی اِلزام اُس کے سر گیا آخر

بڑھا کر ھاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی تُمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر

یہ طے تھا ھم انا کے فیصلے سے مُنہ نہ موڑیں گے رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر

فنا کے ھاتھ اپنی زندگی کو چُھو نہ سکتے تھے مگر مالک تیری دُنیا سے یہ دل بھر گیا آخر

تھکن سے چُور تھا اُس کا بدن اور آنکھ بوجھل تھی وہ شب بھر گھر سے باہر تھا پلٹ کر گھر گیا آخر

وہ جِس کی جُستجو میں ھم نے اپنی زِندگی کھو دی وُہی تو آج حسرتؔ ھم پہ تُہمت دھر گیا آخر


ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا

مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا

رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر کمال سانپ  تھا جو آستین چھوڑ گیا

پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا

میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں  گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا 

ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا؟

وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا

صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا

 خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا

کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا


فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا

مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا

وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا

مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام کرتا رہا

بہُت کنِیزیں مُیسّر ہیں حرف حلقے میں بہت سے لفظوں کو اپنا غُلام کرتا رہا

طلب تھی جِس کے لیئے ہر گھڑی مسرّت کی مِری خُوشی کو وہ غم اِنضمام کرتا رہا

پڑا جو وقت، مُعلّق تھا میں خلاؤں میں گُمان کو در و دِیوار و بام کرتا رہا

کبِھی جو چین کے لمحے مُجھے نصِیب ھُوئے یقِین رکھنا وہ سب اُس کے نام کرتا رہا

جو آدمی کی نفِی، اِختلاف اُن سے ہے جو مُعترِف، سو میں اِحترام کرتا رہا

کہا تھا اُس کو مِرے ساتھ دِن کا کھانا ہے وہ کھا چُکا، میں یہاں اِہتمام کرتا رہا

رشیدؔ کیسے بلاؤں سے بچ کے نِکلوں گا جو قید رکھنی تھیں خُود بے لگام کرتا رہا]]

خوش آمدید! ترمیم

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں:   اور  

(?_?)
 
 

جناب رشید حسرتؔ کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 205,326 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



 

یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس ( ) زریہ پر طق کریں۔

 


 

ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 08:17، 3 اگست 2021ء (م ع و)

اگست 2021 ترمیم

  آپ کی خدمت میں آداب عرض ہے۔ میں Ulubatli Hasan آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ  پاکستانی شعرا کی فہرست میں آپ کی جانب سے کی گئی حالیہ ترامیم کو میں نے حذف کر دیا ہے، کیونکہ مذکورہ ترامیم ویکیپیڈیا کے حق میں غیر مفید معلوم ہوئی۔ اگر آپ کے خیال میں مجھ سے غلطی ہوئی ہے یا اس ذیل میں آپ کچھ دریافت کرنا چاہیں تو بلا تکلف میرے تبادلۂ خیال صفحہ پر مجھے پیغام دے سکتے ہیں، ممنون۔ شکریہ! حسن (تبادلۂ خیالشراکتیں) 01:05، 30 اگست 2021ء (م ع و)

آپ کا حق تھا آپ نے استعمال کیا۔ ویسے اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے میرا بھی حق بنتا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کروں۔ ۴۱ سال سے شعر و سخن وابستہ ہوں اور شعر میرے بھی باوزن ہیں میرا فن میرے لوگوں کی امانت ہے ہاں البتہ وکیپیڈیا میں اندراج بہت کمپلیکیٹڈ ہے کیا ہی اچھا ہو بجائے میرے مواد کے حذف کرنے کے آپ اسے بہتر طریقہ پر اپ لوڈ کر دیتے کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں اپنا تعارف اور نمونۂِ کلام آپ کو ذاتی حوالے سے بھیج دوں اگر میری شاعری معیاری تھی تو آپ میرا تعارف شائع کریں ورنہ نہیں اگرچہ میرا کلام آپ کو اردو پوائنٹ اور ریختہ کے علاوہ اور بہت ساری ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل سکتا ہے۔ تشکّر رشید حسرتؔ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:09، 30 اگست 2021ء (م ع و)
حسرتؔ صاحب آپ اپنے بارے میں یہاں پر لکھیں اور میں صفحہ بنا منتقل کر دوں گا- حوالہ ضرور شامل کریں ورنہ حذف کر پاکستانی شعرا کی فہرست یہ ایک پاکستانی شعرا کی فہرست ہے یہاں شعرا کا صرف نام لکھا جاتا ہے اور ربط کر دیا جاتا ہے- جب کوئی پاکستانی شعرا کی فہرست پڑھے گا تو وہ سارے مشہور (جن کا صفحہ بنا ہے) پاکستانی شعرا کو ایک پڑھ سکتا ہے نام پر کلک کر کے- شکریہ- حسن (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:40، 30 اگست 2021ء (م ع و)

نام رشید حسرتؔ پیدائش ۱۶ جون ۱۹۶۲ مِٹھڑی ضلع کچّھی بلوچستان تعلیم ایم اے (اردو ادب) مادر علمی بلوچستان

            یونیورسٹی  

ملازمت محکمہ تعلیم

          (ایسوسی ایٹ 
          پروفیسر)

پیشہ شاعری پیشہ ورانہ زباں اردو

شعبۂِ عمل حمد، نعت، غزل،

           نظم، مثنوی

شعری مجموعے "سُوکھے پتوں

            پہ قدم" اور 
            "اپسرا ادا کی 
            بات"

نمونۂِ کلام

میں کور چشموں میں اب آئینے رکُھوں گا کیا کوئی پڑھے گا نہِیں مُجھ کو تو لِکُھوں گا کیا؟

میں دِل سے تھوڑی یہ کہتا ہوں "تُم بِچھڑ جاؤ" تُمہارے ہِجر کے صدمے میں سہہ سکُوں گا کیا؟

کوئی جو پُوچھے کہ شِعر و سُخن میں کیا پایا تو سوچتا ہوں کہ اِس کا جواب دُوں گا کیا؟

میں اپنے بچّوں کو بازار لے تو آیا ہوں ہے جیب خالی تو اِن کے کھلونے لُوں گا کیا؟

کِیا ہے مُجھ پہ بھروسہ تو دفن سمجھو اِنہیں تُمہارے راز کِسی سے کبھی کہُوں گا کیا؟

بدل لیا ہے اگر تُم نے راستہ تو کیا ذرا سی بات پہ اب رات بھر جگُوں گا کیا؟

رشِیدؔ وقت نے چہرے سے نوچ لی رونق میں کِھکِھلا کے کِسی بات پر ہنسُوں گا کیا؟

وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں 

سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں یِه میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں

یتِیم پالتی ہے بہن کِس مُشقّت سے ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں

وه در فرار کے مُجھ پر کُھلے تو رکھتا ھے  وه زُلف قید سے لیکِن رِہائی دیتا نہیں

زمیندار نے دہقاں کی پگ اُچھالی آج که فصل کاٹتا تو ہے بٹائی دیتا نہیں

میں اپنے نام کی اِس میں لکِیر کھینچ نہ لُوں وُه میرے ہاتھ میں دستِ حِنائی دیتا نہیں

نہ ہوتی حُسن کی توصِیف گر اُسےؔ مقصُود تو شاہکارؔ کو اِتنی صفائی دیتا نہیں

کسک جو دِل میں ہے بخشی ہُوئی اُسیؔ کی ہے مقامِ عِشق تلک جو رسائی دیتا نہیں

رشِیدؔ پیڑ کے ساۓ سے سُکھ کی تھی اُمید یہ کیا کِہ بیٹا بھی گھر میں کمائی دیتا نہیں۔


شِکستہ دِل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر صنم مِل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر

غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی وفا کرنے پہ بھی اِلزام اُس کے سر گیا آخر

بڑھا کر ھاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی تُمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر

یہ طے تھا ھم انا کے فیصلے سے مُنہ نہ موڑیں گے رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر

فنا کے ھاتھ اپنی زندگی کو چُھو نہ سکتے تھے مگر مالک تیری دُنیا سے یہ دل بھر گیا آخر

تھکن سے چُور تھا اُس کا بدن اور آنکھ بوجھل تھی وہ شب بھر گھر سے باہر تھا پلٹ کر گھر گیا آخر

وہ جِس کی جُستجو میں ھم نے اپنی زِندگی کھو دی وُہی تو آج حسرتؔ ھم پہ تُہمت دھر گیا آخر


ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا

مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا

رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر کمال سانپ  تھا جو آستین چھوڑ گیا

پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا

میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں  گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا 

ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا؟

وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا

صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا

 خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا

کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا


فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا

مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا

وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا

مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام کرتا رہا

بہُت کنِیزیں مُیسّر ہیں حرف حلقے میں بہت سے لفظوں کو اپنا غُلام کرتا رہا

طلب تھی جِس کے لیئے ہر گھڑی مسرّت کی مِری خُوشی کو وہ غم اِنضمام کرتا رہا

پڑا جو وقت، مُعلّق تھا میں خلاؤں میں گُمان کو در و دِیوار و بام کرتا رہا

کبِھی جو چین کے لمحے مُجھے نصِیب ھُوئے یقِین رکھنا وہ سب اُس کے نام کرتا رہا

جو آدمی کی نفِی، اِختلاف اُن سے ہے جو مُعترِف، سو میں اِحترام کرتا رہا

کہا تھا اُس کو مِرے ساتھ دِن کا کھانا ہے وہ کھا چُکا، میں یہاں اِہتمام کرتا رہا

رشیدؔ کیسے بلاؤں سے بچ کے نِکلوں گا جو قید رکھنی تھیں خُود بے لگام کرتا رہا


رشید حسرتؔ




رشید حسرتؔ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:27، 30 اگست 2021ء (م ع و)

حسرتؔ صاحب آپ اپنے بارے میں یہاں پر لکھیں اور میں صفحہ بنا منتقل کر دوں گا- حوالہ ضرور شامل کریں ورنہ حذف کر پاکستانی شعرا کی فہرست یہ ایک پاکستانی شعرا کی فہرست ہے یہاں شعرا کا صرف نام لکھا جاتا ہے اور ربط کر دیا جاتا ہے- جب کوئی پاکستانی شعرا کی فہرست پڑھے گا تو وہ سارے مشہور (جن کا صفحہ بنا ہے) پاکستانی شعرا کو ایک پڑھ سکتا ہے نام پر کلک کر کے- شکریہ- حسن (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 03:40، 30 اگست 2021ء (م ع و) نام رشید حسرتؔ پیدائش ۱۶ جون ۱۹۶۲ مِٹھڑی ضلع کچّھی بلوچستان تعلیم ایم اے (اردو ادب) مادر علمی بلوچستان

           یونیورسٹی  

ملازمت محکمہ تعلیم

         (ایسوسی ایٹ 
         پروفیسر)

پیشہ شاعری پیشہ ورانہ زباں اردو

شعبۂِ عمل حمد، نعت، غزل،

          نظم، مثنوی

شعری مجموعے "سُوکھے پتوں

           پہ قدم" اور 
           "اپسرا ادا کی 
           بات"

نمونۂِ کلام

میں کور چشموں میں اب آئینے رکُھوں گا کیا کوئی پڑھے گا نہِیں مُجھ کو تو لِکُھوں گا کیا؟

میں دِل سے تھوڑی یہ کہتا ہوں "تُم بِچھڑ جاؤ" تُمہارے ہِجر کے صدمے میں سہہ سکُوں گا کیا؟

کوئی جو پُوچھے کہ شِعر و سُخن میں کیا پایا تو سوچتا ہوں کہ اِس کا جواب دُوں گا کیا؟

میں اپنے بچّوں کو بازار لے تو آیا ہوں ہے جیب خالی تو اِن کے کھلونے لُوں گا کیا؟

کِیا ہے مُجھ پہ بھروسہ تو دفن سمجھو اِنہیں تُمہارے راز کِسی سے کبھی کہُوں گا کیا؟

بدل لیا ہے اگر تُم نے راستہ تو کیا ذرا سی بات پہ اب رات بھر جگُوں گا کیا؟

رشِیدؔ وقت نے چہرے سے نوچ لی رونق میں کِھکِھلا کے کِسی بات پر ہنسُوں گا کیا؟

وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں

سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں یِه میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں

یتِیم پالتی ہے بہن کِس مُشقّت سے ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں

وه در فرار کے مُجھ پر کُھلے تو رکھتا ھے وه زُلف قید سے لیکِن رِہائی دیتا نہیں

زمیندار نے دہقاں کی پگ اُچھالی آج که فصل کاٹتا تو ہے بٹائی دیتا نہیں

میں اپنے نام کی اِس میں لکِیر کھینچ نہ لُوں وُه میرے ہاتھ میں دستِ حِنائی دیتا نہیں

نہ ہوتی حُسن کی توصِیف گر اُسےؔ مقصُود تو شاہکارؔ کو اِتنی صفائی دیتا نہیں

کسک جو دِل میں ہے بخشی ہُوئی اُسیؔ کی ہے مقامِ عِشق تلک جو رسائی دیتا نہیں

رشِیدؔ پیڑ کے ساۓ سے سُکھ کی تھی اُمید یہ کیا کِہ بیٹا بھی گھر میں کمائی دیتا نہیں۔


شِکستہ دِل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر صنم مِل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر

غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی وفا کرنے پہ بھی اِلزام اُس کے سر گیا آخر

بڑھا کر ھاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی تُمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر

یہ طے تھا ھم انا کے فیصلے سے مُنہ نہ موڑیں گے رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر

فنا کے ھاتھ اپنی زندگی کو چُھو نہ سکتے تھے مگر مالک تیری دُنیا سے یہ دل بھر گیا آخر

تھکن سے چُور تھا اُس کا بدن اور آنکھ بوجھل تھی وہ شب بھر گھر سے باہر تھا پلٹ کر گھر گیا آخر

وہ جِس کی جُستجو میں ھم نے اپنی زِندگی کھو دی وُہی تو آج حسرتؔ ھم پہ تُہمت دھر گیا آخر


ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا

مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا

رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر کمال سانپ تھا جو آستین چھوڑ گیا

پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا

میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا

ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا؟

وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا

صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا

خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا

کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا


فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا

مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا

وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا

مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام کرتا رہا

بہُت کنِیزیں مُیسّر ہیں حرف حلقے میں بہت سے لفظوں کو اپنا غُلام کرتا رہا

طلب تھی جِس کے لیئے ہر گھڑی مسرّت کی مِری خُوشی کو وہ غم اِنضمام کرتا رہا

پڑا جو وقت، مُعلّق تھا میں خلاؤں میں گُمان کو در و د رشید حسرتؔ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 06:28، 20 جنوری 2022ء (م ع و)

کٹھ پتلی صارف ترمیم

 
ویکیپیڈیا میں آپ کی ترمیم کاری پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ آپ نے ویکیپیڈیا کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اگر آپ کی رائے میں یہ پابندی غلط ہے تو ذیل میں {{پابندی ختم|وجہ تحریر کریں}} درج کریں۔ نیز جس منتظم نے آپ پر پابندی لگائی ہے، اگر آپ اسے متوجہ کرنا چاہیں تو {{سنیے|منتظم کا نام تحریر کریں}} کو استعمال کر سکتے ہیں۔

--طاہر محمود (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:09، 20 اکتوبر 2021ء (م ع و)