تبتی مسلمان (انگریزی: Tibetan Muslims)، جنہیں کاچی (تبتی: ཁ་ཆེ་ویلیی: kha-che) بھی کہا جاتا ہے، تبت کی آبادی میں ایک چھوٹی اقلیت ہے۔ مسلمان ہونے کے باوجود انھیں حکومت چین کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کے تبتی لوگوں کی حیثیت سے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کا موقف ہوئی مسلمانوں سے مختلف ہے جنہیں الگ سے تسلیم کیا گیا ہے۔ تبتی لفظ کاچی کے لفظی معنے کشمیری ہیں اور خود کشمیر کو تبتی زبان میں کاچی یُول کہا جاتا تھا، جس کا مطلب وطنِ کشمیر ہے۔

لہاسا کی قدیم مسجد کا باب الداخلہ - 1993ء

تاریخ

ترمیم

تبت میں مسلمانوں کی آمد زمانے اور حالات کی تبدیلیوں کے نظر ہونے کی وجہ سے غیر واضح ہیں، حالاں کہ تبت کے نام کو مختلف انداز میں عربی کی تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا پایا گیا ہے۔

اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت میں ایک وفد تبت اور چین سے ان کے یہاں بھیجا گیا کہ وہ اسلامی مبلغوں کو ان کے ملک بھیجیں اور صلاح بن عبد اللہ حنفی کو تبت بھیجا گیا تھا۔ آٹھویں اور نویں صدیوں میں بغداد کے عباسی حکمرانوں نے تبت سے تعلقات بنائے رکھا۔ تاہم، مبغلین کی جانب سے کوئی جبری مذہبی تبدیلی نہیں دیکھی گئی، حالاں کہ ان میں سے اکثریت نے تبت میں سکونت اختیار کی اور تبتی خواتین سے شادیاں کیں۔

710ء-720ء میں مے آگتسوم کی بادشاہت کے دور میں عرب لوگوں نے تبت کا رخ کرنا شروع کیا جو چین کی اندرونی زمین میں اپنی قابل لحاط موجودگی درج کر چکے تھے۔

سادنالیگس (799ء-815ء) کی بادشاہت کے دور میں عرب طاقتوں سے مغرب میں ایک لمبے عرصے تک چلنے والی جنگ دیکھی گئی۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ تبتیوں نے عرب فوجی دستوں کو بھاری تعداد میں پکڑکر 801ء اپنی مشرقی سرحدوں پر بر سر خدمت رکھا تھا۔ تبتی سمرقند اور کابل تک فعال تھے۔ رفتہ رفتہ عرب فوجیں بالا دستی حاصل کرنے لگی اور کابل کا تبتی گورنر عربوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر 812ء یا 815ء مسلمان ہو گیا۔ [1]

چنگھائی والوں کا قبول اسلام

ترمیم

اسلام کا فروغ سالار لوگوں کی جانب سے سابقہ بدھ متی کارگن تبتیوں میں لامو-شان-کین میں کیا گیا تھا۔[2][3] کچھ چنگھائی کے تبتی جو اسلام قبول کر چکے تھے، اب ہوئی لوگوں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔[4][5]

بلتی لوگ

ترمیم

بلتستان کے بلتی لوگ ان تبتی بدھ مت کے پیرو کاروں کی نسل سے ہیں جنھوں نے زیادہ تر نوربخشیہ فرقے میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی زیادہ تر اکثریت شیعہ اسلام اپنا چکی، حالاں کہ کچھ لوگ سنی اسلام بھی اپنا چکے ہیں۔ ان کی بولی جانے والی بلتی زبان قدیم طور پر اہمیت رکھتی ہے اور یہ تبتی زبان سے کہیں زیادہ کلاسیکی تبتی سے مشابہت رکھتی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Beckwith, Christopher I. The Tibetan Empire in Central Asia. A History of the Struggle for Great Power among Tibetans, Turks, Arabs, and Chinese during the Early Middle Ages, 1987, Princeton: Princeton University Press. آئی ایس بی این 0-691-02469-3, p. 14, 48, 50.
  2. The Geographical Journal۔ Royal Geographical Society.۔ 1894۔ صفحہ: 362–۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2018 
  3. The Geographical Journal۔ Royal Geographical Society.۔ 1894۔ صفحہ: 362–۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2018 
  4. 前锋 樊 (2008-06-18)۔ "青海,那些说藏语的回族乡亲"۔ 中国民俗网۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. "青海,那些讲藏话的回回"۔ 宁夏新闻网۔ 2008-06-19۔ 15 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 

مزید پڑھیے

ترمیم
  • Akasoy, Anna; Burnett, Charles; Yoeli-Tlalim, Ronit. (2016). Islam and Tibet: interactions along the musk routes. Routledge, 2016. آئی ایس بی این 978-1-138-24704-8
  • Atwill, David G. “Boundaries of Belonging: Sino-Indian Relations and the 1960 Tibetan Muslim Incident.” The Journal of Asian Studies 75, no. 03 (August 2016): 595–620, doi:10.1017/S0021911816000553.
  • Sheikh, Abdul Ghani. (1991). "Tibetan Muslims." The Tibet Journal. Vol. XVI, No. 4. Winter, 1991, pp. 86–89.
  • Siddiqui, Ataullah. (1991). "Muslims of Tibet." The Tibet Journal. Vol. XVI, No. 4. Winter, 1991, pp. 71–85.

بیرونی روابط

ترمیم