تحفۃ الکرام، سندھ کے نامور مؤرخ و شاعر میر علی شیر قانع ٹھٹوی کی مایہ ناز فارسی تصنیف ہے جس میں انھوں نے سندھ کے شہروں کی تاریخ اور مشاہیر کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔

تحفۃ الکرام
(اردو میں: تحفۃ الکرام ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مصنف میر علی شیر قانع ٹھٹوی  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زبان فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P364) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع سندھ کی تاریخ  ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناشر سندھی ادبی بورڈ  ویکی ڈیٹا پر (P123) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سالِ تصنیف ترمیم

میر علی شیر قانع ٹھٹوی نے تحفۃ الکرام 1181ھ میں مکمل کی اور 1188ھ تک اس میں ترامیم و اضافہ کرتے رہے۔[1]

متن کی تدوین و ترتیب ترمیم

تحفۃ الکرام کے فارسی متن کی تدوین وترتیب مشہور تاریخ دان، ماہر لسانیات و محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے کی ہے۔ اس فارسی متن کو سندھی ادبی بورڈ جامشورو نے 1956ء میں شائع کیا۔

مواد ترمیم

کتاب مجموعی طور پر تین مختلف حصوں میں منقسم ہے:

پہلی جلد ترمیم

اس کتاب کی پہلی جلد انبیا، حکما، بادشاہ اور خلفائے اسلام کے حالات اورتاریخ کے بارے میں ہے۔ مطبوعہ نسخہ میں جو پہلی جلد ہے وہ حقیقت میں تحفۃالکرام کی پہلی جلد نہیں ہے، بلکہ تاریخ مراۃ احمدی کی دوسری جلد کے 86 صفحات "تحفۃالکرام" کے عنوان سے کسی نے شائع کروا دیے ہیں۔ مراۃ احمدی 1357ھ میں مطبع فتح الکریم بمبئی میں چھپی، جس کے اسی چھاپے کے 86 صفحوں کو علاحدہ کرکے غالباً اسی مطبع خانہ نے ان پر تحفۃالکرام کا نام لکھ کر بقایا دونوں جدوں کے ساتھ پیوست کر دیا ہے۔

دوسری جلد ترمیم

دوسری جلد کو سات اقالیم میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ایک اقلیم کا تاریخی احوال دے کر، اس کے ہر شہر کو بیان کرنے کے بعد اسی شہر کے مشاہیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ مطبوعہ نسخہ کی دوسری جلد 1304ھ کو غالباً بمبئی سے شائع کیا گیا ہے۔

تیسری جلد ترمیم

تیسری جلد حقیقت میں "تحفۃ الکرام" کا نہایت قیمتی حصہ ہے اور سندھ کی تاریخ پر گویا دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جلد کی ابتدا میں سندھ کی تاریخ شروع سے کلہوڑا دور تک بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد سندھ کے شہروں کا احوال اور ان میں رہنے والے مشاہیر کا تذکرہ ہے۔ آخر میں ٹھٹہ اور ان کے مشاہیر کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ میر صاحب تاریخ کے سلسلے میں چچ نامہ، تاریخ معصومی، تاریخ طاہری، بیگلار نامہ اور ترخان نامہ کو ماخذ بنایا ہے۔ البتہ مشاہر کے تذکرہ اور سندھ کے قدیم شہروں کی تاریخ پرجو انھوں نے جو تحقیق کی ہے، وہ قابلِ داد اور بھلائی نہیں جا سکتی۔ اگر میر صاحب آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے یہ مواد مرتب نہ کرتے تو آج مشاہیر کے تذکرے اور سندھ کے شہروں کی تاریخ کے بہت سے پہلو نظروں سے اوجھل رہتے، بلکہ پوری ثقافتی اور علمی تاریخ گم ہوتی۔ مطبوعہ نسخہ کی تیسری جلد مطبع ناصری دہلی میں شائع ہوا اور اسی سال کا چھپا ہوا ہے جس سال دوسری جلد شائع ہوئی۔[2]

نسخہ جات ترمیم

مصنف کا دستخطی نسخہ لاہور کے خان بہادر مولوی محمد شفیع کے پاس موجود ہے اور برٹش میوزیم لندن میں دو نسخے مصنف کے خط میں موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے 1188ھ تک مذکورہ کتاب میں ترمیم واضافہ کیا۔

تراجم ترمیم

تحفۃ الکرام کا سندھی زبان میں ترجمہ مخدوم امیر احمد سابق پرنسپل اورینٹل کالج حیدرآباد نے کیا ہے اور اردو ترجمہ اختر رضوی نے کیا ہے۔ ان دونوں تراجم کو سندھی ادبی بورڈ جامشورو نے شائع کیا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ص 57، تحفۃ الکرام (سندھی)، میر علی شیر قانع ٹھٹوی، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1957ء، مصنف میر علی شیر قانع ٹھٹوی کی سوانح حیات از حسام الدین راشدی
  2. ص 55-57، تحفۃ الکرام (سندھی)، میر علی شیر قانع ٹھٹوی، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، 1957ء، مصنف میر علی شیر قانع ٹھٹوی کی سوانح حیات از حسام الدین راشدی