تریشنگ
تریشنگ(انگریزی: Tarishing) پاکستان کے ضلع استور صوبہ گلگت بلتستان کا ایک قصبہ ہے۔[1]
اسے تری شنگ اورترشنگ بھی کہا جاتا ہے یہ دنیا کا خوبصورت ترین گاؤں ہے۔
ترشنگ ایک جنت ارضی ہے جہاں شمال کا سارا حسن امڈ آیا ہے۔ جہاں پاکستان کی بلند ترین برف پوش چوٹیوں کا دلکش نظارہ ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ گلگت سے استور 115 کلومیٹر کا فاصلہ ہے استور سے ترشنگ ترشنگ اور روپل کے درمیان میں ایک چھوٹی سی پہاڑی اور گلیشیر حائل ہیں۔ اس پہاڑی سے ایک طرف ترشنگ کا دلکش نظارہ ہے اور دوسری طرف روپل کی پھولوں بھری وادی تاحد نگاہ پھیلی نظر آتی ہے۔ روپل کی سرسبز رنگین دنیا دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ہزاروں رنگوں اور قسموں کے پھولوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ شوخ رنگ پھولوں کی قطاریں آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔9220 فٹ بلند تریشنگ کا خوبصورت گاؤں ہے۔مضمون عبدالحسین آزاد نے لکھا ہے جو کہ صحافی ہیں اور آپ کا تعلق تری شنگ سے ہے قارئیں اس مضمون کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کریں [2]
تریشنگ | |
---|---|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان |
تقسیم اعلیٰ | ضلع استور |
متناسقات | 35°14′06″N 74°44′01″E / 35.235°N 74.733611111111°E |
قابل ذکر | |
درستی - ترمیم |
وجہ تسمیہ
ترمیمتریشنگ جو دو الفاظ سے مل کر بنا ہے(تری، شنگ)۔(تری شنگ کا لفظ تشنگ کی جدید شکل ہے، ہم نے تشنگ کی بجائے تریشنگ کی اس لیے وضاحت اور تشریح کی ہے کہ لفظ تری شنگ ڈاکومنٹس اور تمام سرکاری وغیر سرکاری کارروائی میں یہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے )لفظ تری اردو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گیلی جگہ یا پانی والی جگہ یعنی ایسی جگہ جہاں پانی عام پایا جاتا ہو، جبکہ لفظ شنگ بلتی زبان کا لفظ ہے (بلتی زبان جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں بولی جاتی ہے اور ساتھ ہی چین کے ایک حصے میں بھی بولی جاتی ہے)بلتی میں شنگ لکڑی کو کہتے ہیں۔تریشنگ یعنی لکڑی اور پانی کی جگہ۔ تریشنگ کو قدرت نے بے بہا نعمات سے نوازا ہے، یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں قدرتی چشمے کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں اور ان چشموں کی خاص بات یہ ہے کہ سردیوں میں چشموں کا پانی گرم ہوتا ہے اور گرمیوں اور ٹھنڈا، تریشنگ ایک زمانہ تھا جنگلا ت میں گہرا ہوا تھا مگر سہولیات کا فقدان، بجلی کی عدم فراہمی اور محکمہ جنگلات کی بے توجہی کی وجہ سے آج تریشنگ سے جنگلات معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کا بڑا اثر گلیئشر پر پڑتا ہے اور یوں ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
تعارف
ترمیمتریشنگ ضلع استور کا ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ جو استور سے 30کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔استور سے تریشنگ جاتے ہوئے سب سے پہلے گوریکوٹ اس کے بعد چھوٹی وادیاں آتی ہیں اور پھر چورت کا گاؤں آتا ہے اور پھر تریشنگ، تریشنگ کے متعلق پاکستان کے مشہور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے کہ تریشنگ دنیا میں جنت کا ایک نظارہ ہے (انھوں نے تریشنگ پر سفر نامہ کتاب نانگا پربت کے عنوان سے شائع کی ہے )تریشنگ سطح سمندر سے 2811میڑ بلند ہے۔تریشنگ کے اطراف میں گاؤں گاگے، ناکے، چورت اور زائپور واقع ہیں۔
محمل وقوع
ترمیمتریشنگ کے مشرق میں ضلع استور واقع ہے اور مغرب میں ضلع دیامر، شمال میں آزاد کشمیر اور جنوب میں دیامر کا شہر چلاس واقع ہے۔ تریشنگ اور دیامر کو نانگا پربت جدا کر دیتا ہے۔
آبادی اور لوگ
ترمیمتریشنگ کی آبادی لگ بھگ 500 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگ حد درجہ تہذیب یافتہ، شریف النفس اور باوقار لوگ ہیں، مہمان نوازی میں تریشنگ کے لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ تریشنگ کے بہت تعاون کرنے والے لوگ ہیں۔ لوگوں میں اکثریت تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے۔ اگر آپ کو جانا ہوا تو آپ لوگوں کے پیار و محبت اور خلوص سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔تریشنگ کے لوگ انتہائی خدا پرست ہیں، یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بہت ایماندار ہیں اور یہاں چوری اور ڈکیتی وغیرہ کی وارداتوں سے لوگ آشنا ہی نہیں ہیں،
تریسنگ میں بسنے والے خاندان
ترمیمتریشنگ میں چار خاندان آباد ہیں۔شکرتییئں، کن چوکیے، علی بگوٹیے اور شکرپے۔
شکر تییئں
ترمیمشکرتییئں، مزاج کے نرم، ایماندار اور پر خلوص لوگ ہیں اور تریشنگ میں سب سے زیادہ آبادی والا خاندان ہے۔کام سے دلچسپی اور لگن رکھنے والے ہیں۔
کن چوکیے
ترمیمپر خلوص، ایماندار لوگ ہیں، ۔تریشنگ کی ترقی میں باقی خاندانوں کی طرح ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے،
علی بگوٹیے
ترمیمنفیس، سادہ، پرُخلوص اور ایماندار لوگ ہیں
شکرپے
ترمیمشکر پے بھی نفیس، پرامن اور ایمان سے لبریز ہیں، شکرپے میں ایک خاص خاندان ہے جس کو جسٹرے کہتے ہیں، جسٹرے مطلب حکمراں یعنی آج کے وزیر، ،، جسٹری خاندان کی حکمرانی پرانے زمانے میں تریشنگ پر تھیں اور گلگت بلتستان میں حد درجہ مشہور شخصیت سفر علی جنھوں نے تریشنگ میں طویل مدت تک حکومت کی ہے اور انھی کی کاوشوں سے اس زمانے کی آرمی نے چلاس فورٹ کو فتح کیا تھا، جو معمولی بات نہیں ہے، اس زمانے کے فاتح تھے آپ۔
قلعہ تریشنگ (شکار )
ترمیمتریشنگ کے عین وسط میں اور مرکزی قبرستان تریشنگ کے ٹیلے میں واقع ہے جو اپنے آپ میں ایک تاریخ رکھتی ہے۔تریشنگ شکار جو اب علاقہ مکینوں اور محکمہ سیاحت، اوقاف گلگت بلتستان کی عدم توجہی کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے۔پرانے زمانے میں لوگ خوراک اور دوسری ضروریات زندگی کے حصول کے لیے دوسرے علاقوں پر حملہ کیا کرتے تھے اور مال واسباب لوٹ لیتے تھے، تریشنگ میں جب شروع میں 9گھرانے تھے، اس وقت چلاس دیامر سے لوگ یہاں پر آکر اکثر حملہ کرتے تھے، مقامی لوگ کیونکہ تعداد میں کم تھے اس لیے انھوں نے ایک ساتھ مل بیٹھنے اور دفاع کے لیے ایک محفوظ جگہ بنانے کا سوچا اور یوں اونچائی میں واقع اس چھوٹے سے ٹیلے میں شکار بنایا۔شکار کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے پورا گاؤں تریشنگ واضح اور صاف نظر آتا ہے اور اس کی ساخت کچھ اس طرح ترتیب دی گئی ہے جو تمام بیرونی خطرات اور حملوں کا اثر زائل کردیتی ہے۔لکڑی اور پتھروں سے بنا یہ قلعہ تاریخ تریشنگ کا ایک یادگار قلعہ ہے۔ قلعہ تریشنگ کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ قلعہ کی دیوار کی رو میں ایک طرف پتھر اور دوسر ی طرف لکڑی کگائی گئی ہے۔دو منزلہ یہ قلعہ(شکار) آج مکمل خستہ حالی کا شکار ہے۔تریشنگ کے لوگوں کو اس کی تعمیر نو ع کا کوئی احساس نہیں اور نہ یہاں کے لوگ اس شکار کو پہنچنے والے موسمی خطرات بچانے کے لیے کوئی تدبیر کرتے ہیں، بعید نہیں کہ کچھ ہی سالوں بعد یہ تاریخی قلعہ موسمی سختی اور لوگوں کی بے اعتنائی کی نظر ہوجائے گا۔
نانگاپربت (Nanga Parbat )
ترمیمنانگا پربت جو دنیا کا نواں اور پاکستان کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے۔جو سطح سمندر سے 8126 میٹر / 26660فٹ بلند ہے۔ننگاپربت کو قاتل پہاڑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔انگریز وں نے اس کانام Killer Mountain رکھا ہے۔ ننگاپربت کو سر کرنے کی غرض سے ہرسال کثیر تعداد میں مہم جو آتے ہیں اور ان اکثر نانگا پربت پر قربان ہوئے، بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں نانگاپربت کو سر کرنے کا اعزاز آیا ہے۔نانگاپربت کو سب سے پہلے جرمنی کے ایک مشہور کوہ پیماں ہرمن بھوپال نے 1953ءمیں سر کیا ہے۔ہرمن بھوپال نے لکھا ہے کہ جب میں نانگاپربت کو سر کرنے کی مہم میں تھا تب نانگاپربت میں میرے دستانے گم ہو گئے اور مجھے یاد نہیں رہا کہ میں نے دستانے کہاں چھوڑ رکھے ہیں، بہت ڈھونڈا تھک گیا مگر نہیں ملے، اسی لمحے مجھے ایک آواز سنائی دی میں یک دم چونک گیا کہ اتنی بلندی پر کون ہے دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا، جب غور کیا تو پھر سے وہی آواز سنائی دی اور مجھے وہاں کوئی میرے دستانوں کے متعلق بتا رہا تھا، جب اس آواز کی رہنمائی میں، میں نے دستانوں کی کھوج لگانا شروع کیا تو مجھے دستانے مل گئے، میں نے اس آواز کا شکریہ آدا کیا، وہ آواز نانگاپربت میں رہنے والی پریوں یا جنوں کی تھی جو میری مدد فرما رہے تھے
نانگاپربت دیامر کا یا استور کا ہے
ترمیمنانگاپربت کو بد قسمتی سے دیامر میں شو کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت اس کے عین برعکس ہے، نانگا پربت ضلع استور میں واقع ہے اور ہر سال جو بھی مہم جو آتے ہیں وہ ضلع استور تریشنگ روپل آتے ہیں کیونکہ نانگاپربت کا اصل فیس جس سے روپل فیس نانگا پربت کہا جاتا ہے یہاں موجود ہے اور نانگا پربت کو دیامر میں شمار محض فیری میڈو کی وجہ سے کیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ نانگا پربت پر ریسرچ کرنے والے انٹرنیشنل اسکالرز اور مہم جووں نے نانگا پربت کو تریشنگ روپل کے ساتھ منسلک کیا ہے۔اس لیے اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ نانگا پربت ضلع استور میں واقع ہے۔
موسم
ترمیمتریشنگ میں سال کے چار موسم اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔موسم بہارمارچ اپریل اورمئی کے مہینوں میں، موسم گرما، جون جولائی اوراگست پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ موسم سرماں ستمبر، اکتوبر اور نومبر پر مشتمل ہوتا ہے اور موسم خزاں دسمبر جنوری اور فروری پر مشتمل ہوتا ہے۔سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور موسم خزاں میں یہاں 6،6فٹ تک برف پڑتی ہے اور شدید سردی بھی ہوتی ہے۔سردیوں میں یہاں کے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں، سردیوں میں وہی کچھ کھاتے ہیں جو گرمیوں میں کماکر سردیوں کے لیے ڈمپ کرتے ہیں، ان اشیا میں سبزی، پھل، اناج اور گندم شامل ہیں۔تریشنگ میں سردیاں شروع ہوتے ہی نسالو کیا جاتا ہے نسالویعنی سردیوں کے لیے گوشت کا احتمام کیا جاتا ہے اور اس کے لیے بڑے بیل، جنگلی ظو اور یاک کو ذبح کیا جاتا ہے اور سردیوں میں گھر بیٹھے آرام سے اس کا گوشت کھاجاتے ہیں۔اس کے اعلاوہ دیسی گھی اور دوسری دیسی اشیا بنائی جاتی ہیں جو سردیوں میں لوگوں کو گرم کھتے ہیں۔ اس کے اعلاوہ سردیوں میں چائے میں مختلف جڑی بوٹیوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
تعلیمی ادارے
ترمیمتریشنگ میں لڑکوںکیلئے مڈل اسکول اور لڑکیوں کا ہائی اسکول موجود ہے۔جہاں گاؤں کے 500سے زیادہ طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔اسکول میں اساتذہ کی کمی یچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔تریشنگ سے آگے 30 منٹ کی مسافت پر روپل گاؤں واقع ہے۔روپل میں کی آبادی لگ بھگ 150 گھرانوں پر مشتمل ہے۔روپل میں اس وقت تین اسکول ہیں ان میں بوائز مڈل اسکول، گرلز پرائمری اسکول اور ایک اسکول ایک پرائیویٹ این جی او کے تحت چلایا جاتا ہے۔
زبان
ترمیمتریشنگ میں شنا زبان بولی جاتی ہے۔شنا زبان گلگت بلتستان کی سب سے بڑی زبان ہے اورسب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔اس کے اعلاہ اردو اور انگریزی زبان بھی بولی زجاتی ہے۔
لباس
ترمیمتریشنگ کے نوجوان نسل شہروں میں آباد ہیں اس لیے اب یہاں بھی پینٹ شرٹ کا رواج عام ہے بہت کم لوگ شلوار قمیض میں ملبو س نظر آئینگے۔ تریشنگ کا ثقافتی لباس سر پر دیسی گلگتی ٹوپی، شلوار قمیض، دیسی جراب اور دیسی دستانے اور اجرک جو اون سے بنایا جاتا ہے مشہور ہے۔خاص مواقعوں میں ثقافتی لباس زیب تن کیا جاتا ہے، جیسے شادی بیاہ اور دوسرے مواقعوں پر۔تریشنگ میں خواتین مکمل نقاب میں ہوتی ہیں۔اسلامی اقدار کا حددرجہ خیال رکھا جاتا ہے اور لوگ انتہائی ایماندار اور خدا پرست ہیں۔
تریشنگ بازار
ترمیمتریشنگ میں لگ بھگ 35 دکانیں ہیں۔جہاں پر روزمرہ کی استعمال کی تمام چیزیں میسر ہیں۔اگر چہ یہاں تک سامان تجارت لانے میں بڑی مشکلات کو سہنا پڑتا ہے مگر پھر بھی مہنگائی نہ ہونے کے برابر ہے، استور، گلگت شہروں میں چیزوں کے جو ریٹس ہوتے ہیں اسی قیمت پر تریشنگ میں بھی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔
تریشنگ سیاحتی مقام
ترمیمتریشنگ کو سیاحوں کا گڑھ کہا جاتا ہے۔تریشنگ کی خوبصورتی کو دیکھنے سیاح پوری دنیا سے آتے ہیں اور یہاں کے قدرتی مناظر اور خوبصورتی سے محظوظ ہوتے ہیں۔گرمیوں میں ملکی وغیرملکی سیاحوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔تریشنگ سرسبز وشاداب میدانوں اور کھیتون سے بھرا ہوا ہے۔گرمیوں کے تین مہینوں میں تریشنگ کے چاروں اطراف میں پھل اور گلاب ہی نظر آتے ہیں۔جون اور جولائی کے مہینے میں تریشنگ سے ان پھولوں کی ایک مہک اور خوشبو دل کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔
۔