ثاقب عظیم آبادی – سید حسن رضا (پیدائش: 1905ء– وفات: 19 جنوری 1974ء) پٹنہ سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور شاعر اور نثر نگار ادیب تھے۔تھے۔

ثاقب عظیم آبادی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1905ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پٹنہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 جنوری 1974ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پٹنہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1905–15 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–19 جنوری 1974)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ شاد عظیم آبادی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  نثر نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  عربی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح=

ترمیم

پیدائش اور خاندانی حالات

ترمیم

ثاقب کا پیدائشی نام سید حسن رضا تھا۔ اُن کے والد منشی سید علی حسن عظیم آبادی ایک مشہور خطا ط اور ماہر خوشنویس تھے اور شہر میں ’’بڑے منشی صاحب‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ اِس فن میں وہ باقر عظیم آبادی کے شاگرد تھے۔ ثاقب کی پیدائش 1905ء میں پٹنہ میں ہوئی۔[1]

تعلیم و ملازمت

ترمیم

ثاقب نے ابتدائی تعلیم نجی طور پر گھر کے بزرگوں سے پائی۔ اِس کے بعد وہ پٹنہ کے مسلَّہمہ اُستاد عالم مولانا لاڈلے صاحب سے منطق، فلسفہ، طب، فقہ اور علم حدیث کی تحصیل کی۔ 1926ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ سے ’’عالم‘‘ کی سند حاصل کی اور 1927ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے ’’فاضلِ ادب‘‘ کی سند حاصل کی۔ 1930ء میں انگریزی کے دسویں درجہ کا امتحان بھی پاس کر لیا، حالانکہ وہ خود اُس زمانے میں سرکاری اسکول (پٹنہ) میں عربی اور فارسی کے معلَّم تھے۔ مختلف اسکولوں میں کام کرنے کے بعد بالآخر 1965ء میں پنشن پر سبکدوش ہو گئے۔[2]

شخصیت و شاعری

ترمیم

ثاقب پٹنہ کے علمی و اَدبی حلقے کی معروف شخصیت تھے۔بیسویں صدی میں پٹنہ (عظیم آباد) شہر جہاں ثاقب کی سکونت تھی، وہ علم و اَدب اور شعر و سخن کا مرکز تھا۔ شاد عظیم آبادی (متوفی 1927ء)، عبد الحمید پریشانؔ (متوفی اگست 1905ء)، تمنا عمادی (متوفی نومبر 1972ء) اور کئی دوسرے حضرات اِسی شہر کے رہنے والے تھے۔ غرض کہ یہ تمام فضاء شعر و نغمہ سے معمور تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ثاقب بھی بچپن سے شعرگوئی کی جانب مائل ہو گئے تھے۔ آغازِ سخن گوئی میں انھوں نے میر باقر عظیم آبادی اور اُن کے شاگرد وحید الدین وحیدؔ الہٰ آبادی سے مشورہ ٔ سخن کیا۔ فنِ خطاطی اور خوشنویسی میں بھی میر باقر ہی کے شاگرد تھے[3]۔افسوس کہ ثاقب کا شعری مجموعہ اُن کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ مجموعۂ کلام ثاقب کی وفات کے بعد اُن کے فرزند سید سعید رضا گہرؔ عظیم آبادی نے ’’ سرمایۂ نشاط‘‘ کے عنوان سے مرتب کرکے پٹنہ سے 1977ء میں شائع کروایا۔ علاوہ ازیں ثاقب کی دو نثری کتب ’’گذشتہ ادبی محفلیں‘‘ اور ’’یادگارِ عشق اُن کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھیں۔[4]

اولاد اور وفات

ترمیم

ثاقب کی گیارہ اولادیں ہوئیں لیکن بدقسمتی سے نو بچے اُن کی زندگی میں فوت ہو گئے ۔ اِن پے در پے حادثات نے اُن کا دماغی توازن مختل کر دیا۔ بہت دن کے علاج معالجہ کے بعد دماغی توازن بحال ہوا تھا کہ وفات کے قریب پہنچ گئے۔ 19 جنوری 1974ء کو دن کے 10 بجے پٹنہ میں اِنتقال کرگئے۔ محلہ ’’شاہ کی املی‘‘ میں مغل مسجد کے قرستان میں تدفین کی گئی۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرۂ معاصرین، جلد 3، صفحہ 15۔
  2. تذکرۂ معاصرین، جلد 3، صفحہ 15۔
  3. تذکرۂ معاصرین، جلد 3، صفحہ 15۔
  4. تذکرۂ معاصرین، جلد 3، صفحہ 16۔
  5. تذکرۂ معاصرین، جلد 3، صفحہ 16۔

مزید دیکھیے

ترمیم

کتابیات

ترمیم

مالک رام: تذکرۂ معاصرین، جلد 3، مطبوعہ مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، جون 1978ء