جام ساقی
جام ساقی (سندھی: ڄام ساقي) (31 اکتوبر , 1944ء – 5 مارچ 2018ء) ایک بائیں بازو کے سندھ، پاکستان کے سیاست دان تھے۔[2] ساقی کمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ ساقی اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث 15 سال جیل میں رہے۔ جیل میں قید کے دوران میں تشدد کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہونے کی افواہ سننے کے بعد ان کی بیوی سوخان نے خودکشی کرلی۔ 1991ء میں انھوں نے کیمونسٹ پارٹی چھوڑ کر اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
جام ساقی | |
---|---|
(سندھی میں: ڄام ساقي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 31 اکتوبر 1944ء چھاچھرو |
وفات | 5 مارچ 2018ء (74 سال)[1] حیدرآباد |
وجہ وفات | گردے فیل |
رہائش | حیدرآباد |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
جماعت | کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | سیاست دان |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی ، اردو |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمجام ساقی 31 اکتوبر 1944ء کو تھرپارکر کی تحصیل چاچھرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں جھنجھی میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیمجام ساقی 1962ء میں لوک بورڈ اسکول چھاچھرو سے میٹرک کرنے کے بعد حیدرآباد آگئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ایئر آرٹس میں داخلہ لیا۔ اپنے استاد کے ذریعے ان کا کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ ہوا اور ساتھی عزیز سلام بخاری سے ملاقات ہوئی۔ جلد ہی ون یونٹ کے خلاف پمفلٹ لکھا جس کی قیمت 10 پیسے تھی۔ چند ماہ بعد اس پر پابندی لگی۔1964ء میں مدیجی ہاری کانفرنس سے واپسی پر حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی۔
10 نومبر 1964ء کو طلبہ کنونشن منعقد ہوا۔ یوسف لغاری کنوینیئر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری چن لیے گئے۔
ملازمت
ترمیمانھیں واپڈا کے مقامی دفتر میں کام مل گیا۔ وہ شام کے وقت یونیورسٹی یا ہوسٹل چلے جاتے تاکہ طلبہ سیاست کے کام کو جاری رکھ سکیں۔ ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں پہنچ جاتے۔
سیاسی زندگی
ترمیمجام نے دانشور ندیم اختر، ہدایت حسین اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا انڈس ہوٹل میں پہلا کنونشن منعقد کیا۔ جام ساقی صدر، ندیم اختر سینئر نائب صدراور میر تھیپو جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
اس کے ساتھ ہی جام ساقی پر جیل کے دروازے کھل گئے۔ وہ 1966ء سے 1969ء تک ہر سال جیل گئے۔ 1985ء میں جام نے حیدرآباد جیل سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔
3 مارچ 1968ء کو جام کی سکھاں سے شادی ہو گئی۔ سکھاں نے جام سے بہت محبت کی۔ جب 1978ء میں جام گرفتار ہوئے اور انھیں مار دیے جانے کی افواہیں پھیلیں تو سکھاں نے کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دیدی،
1972ء کوپیپلز پارٹی کی سویلین حکومت نے جام کو گرفتار کیا اور سٹی تھانہ لے جایا گیا۔ جام نے 10 دن تک بھوک ہڑتال کی تو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سے ملتان جیل منتقل کر دیا گیا۔ ملتان جیل میں جام نے مارشل لا کی سزا کو پورا کیا۔ رہا ہوئے تو نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما قصورگردیزی نے اپنے بیٹے کے نام پی آئی اے کا ٹکٹ خریدا ور کوئٹہ بھجوادیا۔ جام کوئٹہ کے گورنر ہاؤس چلے گئے۔
10 دسمبر 1978ء کو جام ساقی حیدرآباد میں اپنے دوست اقبال میمن کے گھر سے گرفتار ہوئے۔ انھیں فوجی یونٹ میں لے جایا گیا۔ اس یونٹ میں جام ساقی رات بھر ٹارچر برداشت کرتے رہے۔ پھر انھیں لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کر دیا گیا۔ 9 دسمبر 1986ء کو جام ساقی رہا ہوئے۔ انھوں نے 1970ء اور 1988ء میں دوبارہ تھرپارکر سے سندھ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہیں ہوئے۔[3]
جام ساقی کی سیاسی وابستگی اور ہمدردیاں مختلف جماعتوں سے تھیں، جن میں شامل ہیں: جون 1964 سے 1991 تک کمیونسٹ پارٹی؛ پیپلز پارٹی 1968 سے؛ 1970 سے نیشنل پیپلز پارٹی (جب تک اس پارٹی پر پابندی نہیں لگائی گئی) ملوث ہے۔ تاہم، سوویت یونین کے انہدام (1994) کے چند سال بعد وہ پیپلز پارٹی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور جولائی 1994 سے نومبر 1996 تک جبری مشقت کے مسائل پر سندھ کے وزیر اعلیٰ عبد اللہ شاہ کے مشیر بھی رہے۔ وہ (اپریل 2010) میں پیپلز پارٹی سندھ کونسل کے رکن اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے رکن رہے۔
تصانیف
ترمیمجام ساقی کی 7 کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں: 'کہوری کجن' (ناول: 1972)، 'سندھ جی اسٹوڈنٹ موومنٹ' (1973، جو دوسری بار 'سندھ جی اسٹوڈنٹ سٹرگل' کے نام سے بھی شائع ہوئی)، 'مظلوم قوموں کا مستقبل' (انٹرویو)، 'چکھن' جی چیت کرے' (مضمون: 1973-74)، 'ضمیر کی قید' (اردو: 1986-87)، 'ضمیر جا قیدی' (سندھی ادبی بورڈ کی طرف سے شائع) شامل ہیں
وفات
ترمیمجام ساقی پیر 5 مارچ 2018 کو نسیم نگر حیدرآباد میں 73 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ‘Patriotic citizen of the state’ comrade Jam Saqi passes away — اخذ شدہ بتاریخ: 6 مارچ 2018
- ↑ "71st birthday: Jam Saqi's life reflects the constant struggle for humanity, revolution - The Sindh Times"۔ 15 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2018
- ↑ ( تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان)