جَعْل‌حدیث یا وَضْع‌حدیث کسی حدیث کو اپنی طرف سے بنانا اور اسے پیغمبر اسلام یا ائمہ معصومین کی طرف نسبت دینے کو کہا جاتا ہے۔ جعل‌حدیث کبھی پوری حدیث کو بنانے کے ذریعے انجام پاتا ہے اور کبھی کسی صحیح حدیث کے اندر بعض عبارتوں میں اضافہ کرنے یا اس کی تعبیر میں تبدیلی لانے کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس کام کا آغاز خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ہوا لیکن معاویہ کے دور میں اس میں وسعت آگئی۔

فضائل امام علیؑ کو کم کرنا، معاویہ کی سلطنت کو مشروعیت بخشنا اور بعض فرقوں کی نسبت تعصب، جعل حدیث کے اعراض و مقاصد میں شمار کیے جاتے ہیں۔ امت کو اہل بیتؑ سے محروم کرنا، بعض صحیح احادیث کی نفی اور صحیح احادیث تک دسترسی میں سختیوں کا پیش آتا جعل حدیث کے نقصانات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ شیعہ علما کے مطابق ابوہریرہ، کعب‌الاحبار، اُبَیّ بن کَعب اور اِبن‌ اَبی‌العَوجاء من جملہ جعلی احادیث کے راویوں میں سے ہیں۔

جعل‌حدیث کے بارے میں بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ابن‌جوزی(متولی 597ھ) کی کتاب "الموضوعات" اس سلسلے میں لکھی گئی سب سے پہلے کتاب ہے اس کے علاوہ شیخ محمدتقی شوشتری (متوفی1374ھ) کی کتاب "اَلْاَخْبارُ الدَّخیلَۃسید ہاشم معروف الحسنی کی کتاب "الموضوعات فی الآثار و الأخبار" اور علامہ مرتضی عسکری (1293-1386ش) کی کتاب "ایک سو پچاس جعلی اصحاب" اس سلسلے میں لکھی گئی دوسری کتابوں میں سے ہیں۔

مفہوم‌شناسی ترمیم

جعل حدیث، کسی حدیث کو اپنی طرف سے بنانے کو کہا جاتا ہے۔ حدیثی مآخذ میں اسے "وَضع حدیث" سے تعبیر کی گئی ہے[1] اور جعلی حدیث کو "حدیث موضوع" کا نام دیا جاتا ہے۔[2] حدیث موضوع یا جعلی حدیث اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسے عمدا یا سہوا بنایا گیا ہو اور اسے پیغمبر اکرمؐ یا کسی معصوم امام کی طرف نسبت دی گئی ہے۔[3] خود حدیث بنانے والے کا اس کے جعلی ہونے کا اعتراف، جعلی ہونے کے بارے میں قرائن و شواہد کا پایا جانا، [4] حدیث کے مضامین کا عقل، قرآن یا ضروریات مذہب[5] کے مخالف ہونا جعلی حدیث کی علامتوں میں سے ہیں۔

طریقہ ترمیم

جعل حدیث مختلف طریقوں کے ذریعے انجام پاتا ہے: کبھی ایک مکمل حدیث کو بنایا جاتا ہے پھر اسے پیغمبر اکرمؐ یا ائمہ معصومین میں سے کسی ایک کی طرف نسبت دی جاتی ہے؛ کبھے کسی حدیث میں بعض الفاظ کے اضافہ کیا جاتا ہے؛ اور بعض اوقات کسی حدیث کی تعبیر میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔[6]

مذکورہ طریقوں میں سے پہلا طریقہ جس میں مکمل حدیث گھڑی جاتی ہے، اکثر اوقات اعتقادی، اخلاقی، تاریخی، طبی موضوعات نیز فضایل اور دعاؤوں میں استفادہ کیا جاتا ہے۔[7] کسی حدیث میں بعض الفاظ کے اضافہ کرنا جیسے بنی عباس کے دوسرے خلیفہ منصور دوانیقی نے امام زمانہؑ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث میں کیا ہے۔ اس حدیث میں آیا تھا کہ خدا میرے اہل‌ بیتؑ میں سے ایک شخص را ظاہر کرے گا جس کا نام میرے نام پر ہو گا؛[8] لیکن منصور دوانیقی نے اپنے بیٹے کو اس حدیث کا مصداق بنانے کے لیے اس حدیث میں "اس کے باپ کام میرے باپ کے نام پر ہو گا" کا اضافہ کیا؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کے والد کا نام بھی منصور تھا۔[9]

الفاظ اور تعبیرات میں تبدیلی کی مثال بھی پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث ہے جسے بعض نے معاویہ کی مدح میں نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں آیا ہے: جب بھی یہ دیکھوں کہ معاویہ منبرم پر بیٹھ کی بولنے لگے تو اس کی باتوں کو قبول کرو؛ کیونکہ وہ ایک نیک اور معتمد انسان ہے۔[10] کہا جاتا ہے کہ حقیقت میں یہ حدیث معاویہ کی مذمت میں آئی تھی اور اس میں "فاقْتُلُوہ" یعنی اسے قتل کرو کی تعبیر آئی تھی جسے تبدیل کر کے "فاقبَلِوہ" یعنی اسے قبول کرو بنایا گیا تھا۔[11]

احادیث کی چوری (یعنی کسی اور راوی کی حدیث کو اس کے نام کی جگہ اپنا نام یا کسی اور کا نام نقل کرنا)، محدیث کی کتابوں میں ہیرا پھیری کرنا اور ان کی جعلی اشاعت کو بھی جعل حدیث کے طریقوں میں شمار کیا گیا ہے۔[12]

تاریخ ترمیم

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ جعل حدیث کی تاریخ خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات طیبہ تک پہنچتی ہے۔ ان کے بقول پیغمبر کی وہ حدیث جس میں آپؐ کی طرف جھوٹی احادیث کی نسبت دینے والے کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا گیا ہے، [13] اس بات پر گواہ ہے۔[14] پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں ہی آپ کی طرف جھوٹی نسبت دینے کے بہت سارے نمونے ذکر ہوئے ہیں۔[15] ایک حدیث کے مطابق خود امام علیؑ نے بھی پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں احادیث کے جعل ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔[16]

البتہ ہاشم معروف حسنی کے مطابق اہل‌ سنت کے بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ جعل‌ حدیث خلافائے راشدین کے زمانے میں انجام نہیں پایا تھا اور امام علیؑ کی شہادت کے بعد آغاز ہوا ہے۔ اس دوران میں بعض فرق و مذاہب وجود میں آگئے جنھوں نے اپنے اعتقادات کو قرآن و سنت سے مستند کرتے تھے اور جب ان کے لیے قرآن و سنت میں کوئی مستند نہ ملتا تو یہ لوگ جھوٹی احادیث بنا کر احادیث میں تحریف کرتے تھے۔[17]

کہا جاتا ہے کہ جعل حدیث میں معاویہ کے دور حکومت میں وسعت آگئی۔[18] ساتویں صدی میں نہج‌البلاغہ کے شارح ابن‌ابی‌الحدید معتزلی کے مطابق معاویہ عثمان اور دیگر اصحاب کی فضیلت اور امام علیؑ کی مذمت میں احادیث گھڑتے تھے اور ان کی حمایت کرتے تھے۔[19] اسی طرح بِکریہ جو اس بات کے معتقد تھے کہ ابوبکر بن ابی‌ قحافہ نص کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کا جانشین بنا ہے، امام علیؑ کے فضائل کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں حدیث جعل کرتے تھے۔[20]

جعل حدیث سے مقابلہ کی تاریخ ترمیم

احمد پاکتچی کے مطابق پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں جھوٹی احادیث کے بارے میں کتابیں لکھنا شروع ہوا؛ اگرچہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں شیعہ علم رجال میں صریح طور پر جھوٹی احادیث کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کے نمونے ابن‌عقدہ[21] اور ابن‌ولید[22] نیز پانچویں صدی ہجری میں ابن‌غضائری[23] کے اظہار نظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ان کے بقول احادیث کے باب میں اہل‌ سنت علمائے رجال میں سے مکتب بغداد پہلی بار جھوٹی احادیث کے بارے میں اظہار نظر کیا ہے۔[24]

اغراض و مقاصد ترمیم

جعل‌حدیث مختلف اغراض و مقاصد کی خاطر انجام پاتے تھے ذیل میں ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

  • فضایل امام علیؑ کو کم کرنا: کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ جس شخصیت کے خلاف جھوٹی حدیثں گھڑی گئی وہ حضرت علیؑ کی ذات ہے۔[25] ابن‌ابی‌الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں تیسری صدی ہجری کے معتزلی متکلم ابوجعفر اِسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ نے اصحاب اور تابعین کی ایک گروہ کو اس کام پر مامور کیا ہوا تھا تھا کہ وہ امام علیؑ کی مذمت میں حدیث جعل کریں۔[26] ان کے مطابق معاویہ نے ایک خط میں اپنے کارندوں سے کہا کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ وہ صحابہ اور خلفائے ثلاثہ کے بارے میں حدیث جعل كریں یہاں تک کہ علی ابن ابی طالبؑ کی فضيلت میں کوئی ایسی حدیث باقی نہ رہے جس کے طرح دوسرے خلفاء اور صحابہ کے لیے بھی حدیث گھڑی جائے یا اس حدیث کے خلاف کوئی دوسری حدیث لے آئیں۔[27]
  • خلفاء اور بنی امیہ کے حاکموں کی خلافت کو مشروعیت بخشنا: چودہویں صدی ہجری کے لبنانی محقق ہاشم معروف حسنی کے مطابق بنی‌امیہ اور بنی‌عباس کی حکومتیں اپنی حکومت کو مشروعیت بخشنے کے لیے اپنے بزرگان کی شان میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ان کی خلافت کو منتسب کر کے حدیث جعل کرتے تھے۔[28] بنی‌ عباس کی طرف سے جعل کردہ ایک حدیث جسے وہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دیتے تھے اس میں آیا ہے کہ "پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا خلافت میرے چچا [عباس] کی اولاد میں قرار دی گئی ہے۔" [29]
  • اپنے فرقے کی حقانیت اور دوسرے فرقے کو باطل قرار دینا: ہر فرقے کے حامی اپنے فرقے کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے استناد کرتے تھے اور جب کوئی مستند نہیں پاتے تو اپنی طرف سے حدیث جعل کرتے تھے۔[30]

حکمرانوں کی قربت حاصل کرنا، معاشرے کی اصلاح، [31] لوگوں کا قرآن کی طرف متوجہ ہونا، [32] فضیلت‌ سازی، [33] ثواب حاصل کرنا[34] پیغمبر اکرم کی جانشینی میں اختلاف اور فرقہ‌گرایی جعل‌ حدیث دیگر اغراض و مقاصد میں شمار کیے جاتے ہیں۔[35]

نتائج ترمیم

جعل حدیث کے نقصانات اور برے نتائج درج ذیل ہیں:

  • صحیح احادیث تک دسترسی میں مشکلات: جعل حدیث کی وجہ سے صحیح احادیث کو جعلی احادیث سے تمیز دینا مشکل ہو گیا۔[36]
  • بعض صحیح احادیث کی نفی: جھوٹی احادیث سے چھٹارا حاصل کرنے کے بہانے بعض صحیح احادیث کو بھی نظر انداز کیا جاتا تھا۔ مثلا ابن‌تیمیہ کے شاگرد سنی عالم دین ابن‌قَیِّم جوزیہ (متوفی 751ھ) غدیر خم میں حضرت علیؑ کی امامت کے اعلان کو جعلی قرار دیتے ہیں؛[37] حالانکہ علامہ امینی کے مطابق حدیث غدیر شیعہ اور سنی ماخذ میں متواتر طور پر نقل ہوئی ہے۔[38] اسی طرح ایک اور سنی عالم ابن‌جوزی (متوفی 597ھ) اپنی کتاب "الموضوعات" میں امام علیؑ کی فضیلت پر مبنی بعض صحیح احادیث کو بھی جعلی احادیث میں شمار کرتے ہیں۔[39]
  • لوگوں کو اہل‌ بیت سے دور کرنا؛ ائمہ معصومین کی طرف ایسی احادیث کی نسبت دی جاتی تھی جس سے لوگوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تھی۔ اکثر ایسی احادیث کو شیعہ فرقے جیسے زیدیہ، فطحیہ اور غالی حضرات جعل کرتے تھے۔[40]
  • رجالی کتب کی تدوین: جعل‌ حدیث کی وجہ سے راویوں، احادیث کی اقسام اور جعلی احادیث کے بارے میں کتابیں لکھی گئی۔[41] اور علم رجال کے وجود میں آنے کی ایک دلیل جعلی حدیث اور جعلی رواویوں کی پہچان قرار دی گئی ہے۔[42]

حدیث جعل کرنے والے ترمیم

علامہ امینی کتاب الغدیر میں تقریباً 700 حدیث جعل کرنے والوں کا نام ان کے جعل کردہ بعض احادیث کے ساتھ لیا ہے۔ ان میں سے بعض کی طرف 100 جعلی احادیث سے بھی زیادہ کی نسبت دی گئی ہے۔[43] کتاب الغدیر کا یہ حصے "الوضّاعون و احادیثہم الموضوعۃ" (حدیث جعل کرنے والے اور ان کی جعلی احادیث) کے عنوان سے مستقل طور پر منظر عام پر آگئی ہے۔[44]

ان میں سے بعض اشخاص درج ذیل ہیں:

  • ابوہریرہ: حدیث کتابوں میں 5374 سے بھے زیادہ احادیث ان کے توسط سے نقل ہوئی ہیں؛[45] حالانکہ وہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ صرف تین سال کا عرصہ رہا تھا۔ اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ حضرت علیؑ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور خاص کر حضرت عایشہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ان کے توسط سے بہت زیادہ حدیث نقل کرنے پر معترض تھے۔ حضرت عایشہ کہتی تھی ابوہریرہ پیغمیر اکرمؐ سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جن کو میں نے نہیں سنا۔[46]
  • کعب الاَحبار: علامہ سید مرتضی عسکری کے مطابق یہودیوں کے بارے میں اکثر احادیث، ‌ اہل کتاب کی مدح و ثنای اور بیت‌المقدس کے بارے میں نقل ہونے والے اکثر احادیث اسلامی مآخذ میں ان کے توسط سے نقل ہوئی ہیں۔[47]
  • اُبَیّ بن کعب: ان کے توسط سے قرآن کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے جعلی ہونے کے بارے میں انھوں نے خود اعتراف کیا ہے۔[48]

کتابیات ترمیم

جعل‌ حدیث کے بارے میں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے اکثر کتابوں میں جعلی احادیث کو جمع کر کرے ان کے جعل کرنے والوں کا نام لیا گیا ہے۔ ابن‌جوزی(متوفی597ھ)، کی کتاب "الموضوعات"، جلال الدین سیوطی(متوفی 911ھ) کی کتاب "الئالی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعہ"، شیخ محمدتقی شوشتری (متوفی 1376ھ) کی کتاب "اَلْاَخْبارُ الدَّخیلَةسید ہاشم معروف الحسنی کی کتاب "الموضوعات فی الآثار و الأخبار" اور علامہ مرتضی عسکری (1293-1386ش) کی کتاب "ایک سوپچاس جعلی اصحاب" من جملہ ان کتابوں میں سے ہیں۔

اسی طرح بعض کتابوں میں جعل‌ حدیث کے موضوع کی چھان بین کی گئی وہ درج ذیل ہیں:

  • عمر بن حسن فلاتہ کی کتاب "الوضع فی الحدیث" یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جو سنہ1401ھ میں مکتبۃالغزالی نے دمشق میں چاپ کیا ہے۔[51]
  • ناصر رفیعی محمدی کی کتاب "درسنامہ وضع حدیث" فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب میں وضع حدیث (جعل‌ حدیث) کا مفہوم اس کی تاریخ اور اس کے علل و اسباب نیز طریقوں اور نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[52] اس کتاب کے آخر میں جعل حدیث سے مربوط کتابوں کی معرفی بھی کی گئی ہے۔[53]

حوالہ جات ترمیم

  1. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، رجال، 1402ق، ص255۔
  2. ملاحظہ کریں: مامقانی، مقباس‌الہدایۃ، 1385ش، ج1، ص292؛ شہید ثانی، شرح البدایۃ فی علم الدرایۃ، بی‎تا، ج1، ص155۔
  3. مامقانی، مقباس الہدايۃ، 1385ش، ج1، ص292؛ شہید ثانی، شرح البدايۃ فی علم الدرايۃ، بی‎تا، ج1، ص155
  4. مامقانی، مقباس الہدايۃ، 1385ش، ج1، ص293۔
  5. مدیرشانہ چی، علم الحدیث، 1381ش، ص131-132۔
  6. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص162-166۔
  7. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص163۔
  8. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج51، ص82۔
  9. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص165؛ شوشتری، الأخبار الدخیلہ، 1415ق، ص229۔
  10. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دار الکتب العلمیہ، ج1، ص275۔
  11. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص166؛ شوشتری، الأخبار الدخیلہ، 1415ق، ص230-231۔
  12. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص167-172۔
  13. ملاحظہ بخاری، صحیح البخاری، 1422ق، ج1، ص33۔
  14. احمد امین، فجر الاسلام، 2012ق، ص231۔
  15. ملاحظہ کریں: ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج7، ص44-45۔
  16. صدوق، الاعتقادات الامامیہ، 1414ق، ص118۔
  17. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ق، ص90-91۔
  18. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص60۔
  19. ملاحظہ کریں: ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج11، ص45۔
  20. ملاحظہ کریں: ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج11، ص49۔
  21. ملاظحہ کریں علامہ حلی، رجال، 1402ق، ص214۔
  22. ملاحظہ کریں: نجاشی، رجال، 1365ش، ص338؛ علامہ حلی، رجال، 1402ق، ص255۔
  23. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، رجال، 140ق، ص214۔
  24. پاکتچی، «حدیث»، ص260۔
  25. امینی، الغدیر، 1416ق، ج8، ص55-56۔
  26. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج4، ص63۔
  27. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج11، ص45۔
  28. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ق، ص138-141۔
  29. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ق، ص141۔
  30. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ق، ص90-91۔
  31. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ، 1400ق، ج14، ص36۔
  32. شہید ثانی، الرعایہ، 1367ق، ص157۔
  33. ملاحظہ کریں: ابن‌حجر، لسان‌المیزان، 1390ق، ج1، ص13۔
  34. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ، 1400ق، ج14، ص37۔
  35. احمد امین، فجرالاسلام، 2012ق، ص233۔
  36. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص270۔
  37. ابن قیم، المنار المنیف، 1390ق، ص57۔
  38. امینی، الغدیر، 1416ق، ج1، ص19۔
  39. ابن‌جوزی، الموضوعات، ج1، ص338 بہ بعد۔
  40. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ق، ص148-151۔
  41. ملاحظہ کریں: پاکتچی، «حدیث»، ص260۔
  42. سبحانی، کلیات فی علم الرجال، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص25-26۔
  43. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1387ش، ص305۔
  44. «الوضاعون و احادیثہم الموضوعہ»۔[مردہ ربط]
  45. ابن حزم، جوامع السیرۃ و خمس رسائل اخری، 1900م، ص275۔
  46. ابن‌قتیبہ، تأویل مختلف الحدیث، 1406ق، ص41۔
  47. عسکری، نقش ائمہ در احیای دین، 1382ش، ج1، ص484۔
  48. ملاحظہ کریں: قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج1، ص79۔
  49. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج1، ص78-79۔
  50. بلاذری، انساب الاشراف، 1398ق، ج4، ص96۔
  51. «ال‍وضع فی الحدیث»[مردہ ربط]
  52. ملاحظہ کریں: رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص7-11۔
  53. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ش، ص281-294۔

مآخذ ترمیم

سانچہ:مآخذ

  • ابن‌حزم، علی بن احمد، جوامع السیرۃ و خمس رسائل اخری لابن حزم، تحقیق احسان عباس، مصر، دارالمعارف، 1900ء۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، عبد اللہ بن مسلم، تأویل مختلف الحدیث، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1406ھ/1985ء۔
  • ابن‌ابی‌الحدید، عبد الحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج‌البلاغۃ، تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبد الرحمن بن علی، الموضوعات، تحقیق عبد الرحمان محمد بن عثمان، مدینہ، محمد عبد المحسن صاحب المکتبۃ السلفیہ بالمدینہ المنورہ، 1386ھ/1966ء۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، تحقیق دائرۃ المعرف ہند، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ/1971ء۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن‌قیم جوزیہ، محمد بن ابی‌بکر، المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف، تحقیق عبد الفتاح ابوغدہ، مکتبۃ المبطوعات الاسلامیہ، 1390ھ/1970ء۔
  • احمد امین، فجر الاسلام یبحث عن الحیاۃ العقلیۃ فی صدر الإسلام إلى آخر الدولۃ الأمویۃ، قاہرہ، مؤسسۃ ہنداوی للتعلیم والثقافۃ، 2012ق۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، 1416ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح‌البخاری، تحقیق محمدزہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاۃ، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، تحقیق عبد العزیز الدوری، بیروت، جمعیۃ المستشرقین الالمانیہ، 1398ھ/1978ء۔
  • پاکتچی، احمد، «حدیث» در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج20، تہران، 1391ش۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینۃ السلام، تحقیق عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • رفیعی محمدی، ناصر، درسنامہ وضع حدیث، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1384ش۔
  • سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شوشتری، محمدتقی، الاخبار الدخیلہ، تعلیق علی‌اکبر غفاری، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، شرح البدایۃ فی علم الدرایۃ، بی‎‌نا، بی‌تا۔
  • صدوق، محمد بن علی، اعتقادات الامامیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
  • عسکری، سیدمرتضی، نقش ائمہ در احیای دین، تہران، مرکز فرہنگی انتشاراتی منیر، 1382ش۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامۃ الحلی، تصحیح محمدصادق بحرالعلوم، قم، الشریف الرضی، 1402ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصرخسرو، 1364ق۔
  • «الوضّاعون واحادیثہم الموضوعۃ من كتاب الغدیر للشیخ الامینی تألیف السید رامی یوزبكی»[مردہ ربط]، کتابخانہ مدرسہ فقاہت، مشاہدہ: 16 آذر 1398۔
  • «ال‍وضع فی الحدیث»[مردہ ربط]، کتابخانہ دانشگاہ امام صادق، مشاہدہ: 13 آذر 1398ش۔
  • مامقانی، عبد اللہ، مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، قم، دلیل ما، 1385ش۔
  • مدیرشانہ‌چی، کاظم، علم الحدیث، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1381ش۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقائد، قم، دارالثقلین، 1378ش۔
  • معروف الحسنی، ہاشم، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1987ء/1407ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال‌النجاشی، تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1365ش۔
  • ہاشمی خویی، میرزاحبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج‌البلاغہ، تہران، مکتبہ الاسلامیہ، 1400ھ۔

سانچہ:علوم حدیث سانچہ:پہلی صدی ہجری کے واقعات سانچہ:بنی امیہ