جموں اور کشمیر کی سیاست

جموں و کشمیر بھارت کا ایک یونین علاقہ ہے۔ جموں خطہ کے جنوب میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں ہماچل پردیش، پنجاب، بھارت اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ کشمیر کی سرحدیں مغرب میں پاکستان مقبوضہ کشمیراور بلتستان، شمال میں سنکیانگ اور گلگت بلتستان سے ملتی ہیں۔ بلتستان اور کشمیر کا ایک خطہ پاکستان کے قبضہ میں ہے۔ اکسائی چن کو بھارت اپنا علاقہ بتاتا ہے مگر یہ چین کے قبضہ میں ہے اور اسے لداخ میں شامل کیا گیا ہے۔ کشمیر کا باقی حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔

بھارت کی تمام ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی متعدد جماعتی نظام حکومت قائم ہے۔ اہم سیاسی جماعتوں میں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس، انڈین نیشنل کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔ 87 نشستوں والی جموں وکشمیر مجلس قانون ساز میں فی الحال 28 نشستوں کے ساتھ پی ڈی پی بڑی سیاسی جماعت ہے، دوسری بڑی جماعت بی جے پی ہے جس کے پاس[1] 25 نشستیں ہیں۔ کشمیر کے کچھ مسلم لیڈر اور عوام خود مختاری کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور کچھ تو بھارت سے آزادی کی بھی مانگ کرتے ہیں۔ کچھ کشمیریوں کا جھکاو پاکستان کی جانب بھی ہے کیونکہ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے قبضہ میں ہے۔ کشمیر میں سیاسی اور جنگجو انتہا پسندوں کا گروہ بھی سرگرم ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں معاشی و اقتصادی وجوہ کی بنا پر کشمیریوں کا جھکاو بھارت کی طرف بڑھا ہے۔[2][3]

جموں اور کشمیر بھارت کا وہ واحد صوبہ تھا جس کا اپنا الگ پرچم تھا۔ حکومت ہند کا ڈیزائن کردہ سرخ بیک گراونڈ میں ہل کا نشان مزدوری کی علامت تھا۔ پرچم میں تین خطوط صوبہ کے تین علاقوں کی نشان دہی کرتا تھا؛ جموں، وادی کشمیر اور لداخ۔[4]

اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین نے 2008ء کی ایک رپورٹ میں کہا کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت کی واحد نیم آزاد ریاست ہے۔[5]

5 اگست 2019ء کو حکومت ہند نے ایوان بالا راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر تنظیم نو بل، 2019ء متعارف کرایا جس کی رو سے 31 اکتوبر 2019ء کو صدر بھارت کی منظوری کے بعد ریاست جموں و کشمیر دو یونین علاقوں میں منقسم ہو جائے گی: جموں و کشمیر اور لداخ۔ جموں و کشمیر یونین علاقہ میں دہلی کی طرح اسمبلی ہوگی جبکہ لداخ میں چندی گڑھ کی طرح کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔[6]

جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں[7]

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "BJP launches website ahead of Modi's rally in Jammu & Kashmir"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2019 
  2. A growing peace constituency[مردہ ربط]
  3. "Welcome to Frontline : Vol. 29 :: No. 13"۔ Hinduonnet.com۔ 23 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2012 
  4. http://jkgad.nic.in/statutory/Rules-Constitution-of-J&K.pdf[مردہ ربط]
  5. United Nations High Commissioner for Refugees (2008-07-02)۔ "Refworld | Freedom in the World 2008 – Kashmir [India]"۔ UNHCR۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2012 
  6. http://www.ddnews.gov.in/national/govt-introduces-jk-reorganisation-bill-2019-rajya-sabha-moves-resolution-revoking-article
  7. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج "Jammu and Kashmir Elections and Results – News and Updates on Chief Ministers, Cabinet and Governors"۔ www.elections.in۔ 02 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2017