جنجوعہ
جنجوعہ پنجاب میں بسنے والے راجپوت قبائل کی ایک گوت ہے۔یہ پاکستان بھر میں آباد ہیں۔ جنجوعہ راجپوت کا مرکزی علاقہ ضلع جہلم اور ضلع راولپنڈی ہیں یا اسے پوٹھوہار بھی کہا جا سکتا ہے اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی آباد ہے۔ جنجوعہ جاٹوں کا مرکزی علاقہ ضلع گوجرانوالہ ، ضلع سیالکوٹ اور فیصل آباد سمیت جنوبی پنجاب کے علاقے ہیں۔ ذریعہ معاش کے لیے مختلف پیشے اختیار کیے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ پیشے ان کی پہچان بن گئے اس لیے آج جنجوعہ قبیلہ کے لوگ مختلف برادریوں میں نظر آتے ہیں۔
تاریخی حیثیت
ترمیمجنجوعہ راجپوت ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ " ﭼﻨﺪﺭﺑﻨﺴﯽ " ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺳﮯ ہے- راجا ﺩﯾﻮﭘﺎﻝ جنجوعہ ﮐﯽ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﭘﺸﺖ ﺳﮯ"ﺭﺍﺟﮧ ﺳﺮﯼ ﭘﺖ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ "ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﺮﯼ ﭘﺖ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ "ﺭﺍﺟﮧ ﻣﺠﭙﺎﻝ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ "، "ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ " ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻧﺠﻮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﻦ ﮔﻮﺋﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﺮﯼ ﭘﺖ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﺠﭙﺎﻝ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺬﮨﺐ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﺎ- ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ " ﻗﻨﻮﺝ " ، " ﺟﻮﺩﻫﭙﻮﺭ " ﺍﻭﺭ " ﮐﻮﮦ ﺷﻮﺍﻟﮏ " ﭘﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﻫﮯ - ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ " ﺍﺳﻼﻡ " ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮨﻮﺋﮯ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﻭﺍﻟﯿﺌﮯ " ﻣﺘﻬﺮﺍ " "ﺭﺍﺟﮧ ﺑﺸﻦ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ " ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ- ﺭﺍﺟﮧ ﺑﺸﻦ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﻧﮧ ﺗﻬﯽ- ﺭﺍﺟﮧ ﻧﮯ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﻮ ﻣﺘﻬﺮﺍ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ- ﺑﺮﮨﻤﻨﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ "ﺭﺍﺟﮩﺴﺘﺎﻥ " ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺭﻭﻏﻞ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ- ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ "ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ " ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ- ﻧﺘﯿﺠﺘﺎً ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﮐﻮ ﻣﺘﻬﺮﺍ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﭼﮭﻮﮌﻧﯽ ﭘﮍﯼ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ " ﮐﻮﮦ ﺷﻮﺍﻟﮏ " ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮﭺ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﻠﻌﮧ " ﺭﺍﺟﮕﮍﻫﻪ " ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﺑﺮﮨﻤﻦ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﻧﮯ ﮐﻮﮦ ﺷﻮﺍﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ- 998 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﻝ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺳﻠﺴﻠﮧ "ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ " ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺟﺪﺍﺩ "ﭘﺎﻧﮉﻭ " ﺭﮦ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ- ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻗﻠﻌﮧ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﻣﻠﻮﭦ " ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﺗﺎ ﺣﺎﻝ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﯿﭩﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ- " ﺭﺍﺟﮧ ﻭﯾﺮ " ، "ﺭﺍﺟﮧ ﺟﻮﮨﺪ " "ﺭﺍﺟﮧ ﮐﻬﮑﻪ " ، "ﺭﺍﺟﮧ ﺗﺮﻧﻮﻟﯽ " ، " ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ﺭﺍﺟﮧ ﻭﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺟﮧ ﺟﻮﮨﺪ ﻧﮯ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺳﮑﻮﻧﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ - ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﺟﻮ ﻣﺸﺮﻕ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺟﮩﻠﻢ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﺗﮏ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ- ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﺟﮩﻠﻢ ، ﭼﮑﻮﺍﻝ ، ﮔﺠﺮﺍﺕ ، ﺧﻮﺷﺎﺏ ، ﺳﺮﮔﻮﺩﻫﺎ ، ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﮧ ﻭﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺟﮧ ﺟﻮﮨﺪ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﮯ- ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﭘﺮ ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻗﻠﻌﮯ - " ﻗﻠﻌﮧ ﻣﻠﻮﭦ " " ﻗﻠﻌﮧ ﻣﮑﻬﯿﺎﻟﮧ " ، " ﻗﻠﻌﮧ ﮔﺮﺟﺎﮒ " " ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺴﮏ " " ﻗﻠﻌﮧ ﻭﭨﻠﯽ " ﺭﺍﺟﮧ ﮐﻬﮑﻪ ﻧﮯ " ﮐﺸﻤﯿﺮ " ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻈﻔﺮﺁﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ- " ﻗﻠﻌﮧ ﭼﺎﻻﺱ " ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺍﯾﺎ . ﺭﺍﺟﮧ ﺗﺮﻧﻮﻟﯽ ﻧﮯ " ﮨﺰﺍﺭﮦ " ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﺍﻧﻤﺐ ﺩﺭﺑﻨﺪ " ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﺟﻮ 84 ﺩﯾﮩﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺗﻬﯽ -
ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﭘﺮ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ - ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﺳﮯ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﭘﮍﺍﻭ ﮐﯿﺎ - ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﯾﮏ " ﭼﻨﺪﺭﺑﻨﺴﯽ " ﺭﺍﺟﭙﻮﺕ ﮨﮯ- ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ " ﮨﮯ - ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﮨﻢ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮨﻮﺍ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﻧﮧ ﺗﻬﯽ - ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﻬﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﺗﻬﺎ- ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﺗﻬﺎ - " ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ﺳﮯ ﮨﻮﺍ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ ﻧﮯ " ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺟﮩﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯼ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ﻭﺍﻟﯿﺌﮯ " ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﺑﻨﮯ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﺎ ﻣﺤﻞ ﻭﻗﻮﻉ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﻬﺎ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﮯ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺟﮩﻠﻢ ﺑﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺳﻮﺍﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﺗﻬﺎ- ﺷﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮩﻮﭨﮧ ﮐﯽ ﭘﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﻣﺮﯼ ﺗﮏ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻮﭨﮭﻮﮨﺎﺭ ﮐﺎ ﻭﺳﯿﻊ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺳﻮﮨﺎﻭﮦ ﮐﯽ ﭘﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﺗﮏ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ - ﺍﺱ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ 84 ﺩﯾﮩﺎﺕ ﺗﮭﮯ - ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ " ﻣﭩﻮﺭ" ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﻫﮯ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﺎ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ " ﻣﭩﻮﺭ " ﺟﻐﺮﺍﻓﯿﺎﺋﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻬﺮﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ - ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﻮﺳﭩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ - "ﺟﺲ ﺭﺍﺋﮯ " ، " ﭘﺖ ﺭﺍﺋﮯ " ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﻣﻮﺭ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺣﺼﮧ " ﭘﺖ ﺭﺍﺋﮯ " ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﯿﺎ - ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺣﺼﮧ " ﺟﺲ ﺭﺍﺋﮯ " ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ - ﺧﻮﺩ ﯾﺎﺩ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﺴﯿﺮﺍ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ - "ﻋﺎﻟﻢ ﺗﺼﻮﻑ " ﻣﯿﮟ "ﻭﻻﯾﺖ " ﮐﮯ ﻣﻨﺼﺐ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮﺋﮯ - ﺍﺳﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺭ ﻫﮯ - ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﮕﮧ "ﺩﺍﺩﺍ ﭘﯿﺮ ﮐﺎﻻ " ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻫﮯ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ " ﺍﻭﺭ " ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻫﮯ - ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﻋﺮﺱ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺑﺎ ﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﻫﮯ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ، "ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ " ﮐﺎﮨﺮﻭﺍﻝ " ﮐﮩﻼﺋﯽ - ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﻗﺒﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮﺋﮯ - " ﮐﺎﮨﺮﻭﺍﻝ " " ﺳﻨﮕﺎﻝ " "ﮐﮉﺍﻝ " " ﺩﻭﻻﻝ " ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﺷﮩﺮ " ﮐﻨﮉﯾﺎﺭﯼ " ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺍﺏ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﻫﮯ - ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ " ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ " ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ - ﺍﻥ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ( ﭦ، ﮈ، ﮌ، ) ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕ ﻫﮯ - ﺍﺭﺩﻭ ﺭﺳﻢ ﺍﻟﺨﻂ ﻣﯿﮟ ( ﭦ، ﮈ، ﮌ، ) ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ . ﻋﻼﻗﮧ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺩﯾﮩﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺼﺒﮯ یہ ہیں : ﻣﭩﻮﺭ، ﻣﯿﺮﺍ ، ﻣﻮﺍﮌﮦ ، ﮔﮍﻫﯿﭧ ، ﺟﻨﺠﻮﺭ ، ﮔﮕﺎﮌﯼ ، ﺑﻤﻠﻮﭦ، ﮐﮩﻮﭨﮧ ، ﺩﺭﯾﻮﭦ ، ﺳﺮﻭﭦ ، ﭨﭙﯿﺎﻟﯽ ، ﻣﻮﮌﯼ ، ﻣﺎﮐﮍﺍ ، ﺩﮐﻬﺎﻟﯽ ، ﻧﻮﮔﺮﺍﮞ ،سلجور، جمبا کرپال ، ﮐﻼﮨﻨﮧ ، ﮔﺎﮌ ، ﮐﺮﭘﺎﻝ ، ﺗﻬﻠﮧ ، ﮐﻮﭦ ، ﺑﻬﻮﺭﮦ ، ﺳﺮﻫﺎﭨﯽ ، ﮐﻠﻮﭦ، ﺗﻬﻮﮨﺎ ، ﻣﮩﺮﮦ ﺳﻨﮕﺎﻝ ، ﮔﻒ ، ﺳﻠﺠﻮﺭ، ﭘﻨﮉ ﺑﻬﯿﻨﺴﻮ ، ﺑﻨﺎﮨﻞ ، ﮐﻬﮉ ، ﺳﮩﺮ، ﻟﮩﮍﯼ ، ﻧﺎﺭﮦ ، ﭘﻨﺠﻮﺍﮌ ، ﮐﺎﻧﮕﮍﻫﻪ ، ﮔﻮﮌﮦ ، ﮐﺮﻭﭦ ، ﺑﻬﮕﻮﻥ ، ﺳﻨﺒﻞ ، ﺑﮕﮩﺎﺭ ﺷﺮﯾﻒ ، ﻣﻤﯿﺎﻡ ، ﺑﮕﻠﮧ ﺭﺍﺟﮕﺎﻥ ، ﮔﻬﻮﺋﯽ ، ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺧﯿﻞ ، ﮐﻨﮉﯾﺎﺭﯼ ، ﭘﮍﻭﭨﻬﮧ ، ﺁﺋﻞ ، ﮐﯿﻨﺘﻬﻞ ، ﺁﮌﮦ ﺳﻨﮕﺎﻝ ، ﮔﻠﻮﺭ ﺭﺍﺟﮕﺎﻥ ، ﺳﺎﻋﺊ ﮐﻮﭦ ، ﭼﮭﻨﯽ اور ﮈﻫﻮﭦ۔
قبول اسلام
ترمیمان راجاؤں میں رائے دھروپت دیو کے بیٹے رائے اجمل جنجوعہ نے بارہویں صدی میں اسلام قبول کیا، رائے مل یا راجا مل بھی اسی شاخ سے بتایا جاتا ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد اس کا نام راجا مل خان پڑا۔ اسلام اس نے شہاب الدین غوری کی آمد پر کم سنی میں قبول کیا تھا، صوفیا سے بہت متاثر تھا، بعد میں اس نے کوہ جُودہ پر راج قائم کیا جس کی راج دہانی راج گڑھ یا شاہ گڑھ تھی، اس کا نام بعد میں ملوٹ پڑا۔ راجا اجمل دیو کے تعلقات سلطنت دہلی کے ساتھ کبھی اچھے نہیں رہے، اسے باغی راجا بھی قرار دیا جاتاہے۔ کوہستانِ نمک سے نمک نکالنے کا تجارتی آغاز راجا مل ہی نے کیا۔ اس کے پانچ لڑکے تھے ان میں سے راجا تنولی نے ہزارے (ریاست امب) پر، راجا جودھ نے جہلم، راجا کھکھا نے کشمیر، راجا بھیر نے راج گڑھ (چکوال) اور راجا کالا خان نے کہوٹہ پر راج کیا، یہ پورا رجواڑا ’’ملوکی کی دہانی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔
جنجوعہ کا لفظی مطلب
ترمیم" ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ " ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﻫﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ جنگجو، ﺑﮩﺎﺩﺭ، ﺩﻟﯿﺮ، ﺍﻭﺭ ﻟﮍﺍﮐﺎ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ -" ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ ﺭﺍﺟﭙﻮﺕ " ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻮﺭﺙ ﺍﻋﻠﯽ " ﺭﺍﺟﮧﺩﯾﻮﭘﺎﻝ جنجوعہ " ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ " ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ " ﮐﮩﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ جنجوعہ " ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﻗﺪﯾﻢ ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﮨﺴﺘﻨﺎﭘﻮﺭ " ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭ ﺗﻬﺎ- ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ "ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ " ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ-
جنجوعہ مشاہیر
ترمیم- مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت
- الطاف گوہر صحافی، سول سرونٹ
- ٹکا خان
- مشرف جنجوعہ کبڈی پلیر
- آصف نواز جنجوعہ سابقہ سربراہ پاک آرمی
- سعد جنجوعہ کرکٹ کھلاڑی
- صوبیدار راجہ عبد الخالق (کھلاڑی) جنجوعہ پرندہ ایشیاء اولمپیئن ایتھلیٹ
- صوبیدار شہامد خان جنجوعہ برطانیہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز *وکٹوریہ کراس* اور روس کا سب سے بڑا فوجی اعزاز *آرڈر آف دی سینٹ جارج* حاصل کرنے والے شہامد خان جنجوعہ کا تعلق تختی، گوجر خان، راولپنڈی سے ہے۔
- تہمینہ جنجوعہ سیکرٹری خارجہ
- ناصر جنجوعہ مشیر قومی سلامتی
- عامر خان (مکے باز) پاکستانی نژاد برطانوی شہری
- سوار محمد حسین نشان حیدر
- سیف علی خان اولین ہلال کشمیر
- ن م راشد اردو شاعر
- امیر گلستان جنجوعہ سابقہ گورنر کے پی کے
- کامران اعظم سوہدروی ادیب و مورخ
- مختار احمد جنجوعہ ڈی جی سینیٹ ٹو منسٹر سینیٹ آف پاکستان (سابق ڈیفینس سیکرٹری)
علاقے
ترمیم- ضلع خوشاب میں ڈھاک ، جسوال ، کٹھہ مصرال، کٹھہ سگھرال ، جوہر آباد، احمد آباد وادی سون ، خوشاب، میں جنجوعہ راجپوت آباد ہیں۔ ضلع ناروال کی تحصیل ظفروال میں جموں وکشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے راجپوت جنجوعہ خاندان کی اکثریت جبکہ تحصیل شکر گڑھ میں بھی کچھ خاندان آباد ہیں۔ تحصیل گوجر خان اور ضلع راولپنڈی میں بھی جنجوعہ راجپوت کے خاندان آباد ہیں ۔
حوالہ جات
ترمیمSingh, Wazir (1990). Sikhism and Punjab's Heritage. Publication Bureau, Punjabi University. p. 160.
The Life and Times of Humāyūn by Ishwari Prasad, Published by Orient Longmans, 1956, p. 36 Temples of Koh-e-Jud & Thar: Proceedings of the Seminar on Shahiya Temples of the Salt Range, Held in Lahore, Pakistan by Kamil Khan Mumtaz, Siddiq-a-Akbar, Publ Anjuman Mimaran, 1989, p. 8 Talbot, Ian (1996). Khizr Tiwana, the Punjab Unionist Party and the Partition of India. Psychology Press. pp. 21–22. ISBN 978-0-7007-0427-9. Stein, Marc Aurel (1936). Archaeological reconnaissances in north-western India and south-eastern Iran. London. p. 46. The Land of the Five Rivers and Sindh: Sketches, Historical and Descriptive David Ross, Publ.Languages Dept., Punjab, 1970, p. 153 Tan, Tai Yong (2005). The Garrison State: The Military, Government and Society in Colonial Punjab 1849–1947. Sage. pp. 61–62. ISBN 978-0-7619-3336-6. Omissi, David (1998). ""Martial Races": Ethnicity and Security in Colonial India, 1858-1939". In Karsten, Peter. Recruiting, Drafting, and Enlisting: Two Sides of the Raising of Military Forces. Taylor & Francis. p. 119. ISBN 978-0-8153-2975-6. Tan, Tai Yong (2005). The Garrison State: The Military, Government and Society in Colonial Punjab 1849–1947. Sage. p. 75. ISBN 978-0-7619-3336-6.