حد شرعی
حد شرعی ایسی سزا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت اور ساتھ ہی متعین ہے، اس سزا کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر اس میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے زنا کی پاداش میں سنگساری (رجم)، شراب پینے کے عوض درے سے مارنا یا چور کا ہاتھ کاٹ دینا۔ اسلام میں ان جرائم کا ارتکاب انسانی نہیں احکام خداوندی کی حدود سے تجاوز کرنا ہے اس لیے مجرم کو سزا بھی خدا کی مقرر کردہ ہی دی جاتی ہے۔[1]
حد اور تعزیر میں فرق
ترمیمحد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں " عقوبت " ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لیے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کر سکتا اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے اس وجہ سے کہ بندہ اس میں تصرف کر سکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کر سکتا ہے اور موقع ومحل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر وتبدل بھی کر سکتا ہے، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر و تحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا۔ چونکہ " قصاص " بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے اس لیے اس کو بھی " حد " نہیں کہا جاتا۔[1]